حکومت نئے مالی سال کے لئے دفاع پر 18 کھرب 4 ارب روپے خرچ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے جو کہ گزشتہ مالی سال کے دوران دفاع کے لئے مختص بجٹ سے تقریباً 13 فیصد زیادہ ہے۔دفاعی بجٹ جی ڈی پی کا تقریباً 1.7 فیصد اورنئے مالی سال کے لئے مختص کُل اخراجات کا 12.5 فیصد بنتا ہے۔گزشتہ سال دفاعی امور اور خدمات کے لئے 15 کھرب 70 روپے مختص تھے۔بعد میں اسے 15 کھرب 90 ارب روپے تک بڑھا دیا گیا ۔ بَری فوج کے لیے کُل بجٹ میں سے 824 ارب 60 کروڑ روپے، پاک فضائیہ کے لیے 368 ارب 50 کروڑ روپے اور پاک بحریہ کے لیے 188 ارب 20 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں کی پنشن بھی 26 فیصد اضافے سے 563 ارب روپے ہو گئی جو کہ گزشتہ مالی سال میں 446 ارب روپے تھی۔ فوج کی پنشن کو دفاعی خدمات کے بجٹ میں شامل نہیں کیا گیا ہے ۔
دفاع سے متعلق دیگر خریداریوں اور اسٹریٹجک پروگراموں کو بجٹ (بشمول اسٹریٹجک جوہری ہتھیاروں کے بجٹ) میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔دفاعی بجٹ کی تفصیلات کے مطابق دفاعی انتظامیہ کے لئے 5 ارب 40 کروڑ روپے، ملازمین سے متعلقہ اخراجات کے لئے 705 ارب روپے، انتظامی اخراجات کے لئے 442 ارب روپے، مادی اثاثوں کے لئے 461 ارب روپے اور سول ورکس کے لئے 195 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں۔دفاعی خدمات کے اس تخمینے میں فوجیوں کو وردی اور سویلین ملازمین کو ادا کی جانے والی تنخواہیں اور الاؤنسز بھی شامل ہیں، انتظامی اخراجات میں ٹرانسپورٹ، پیٹرولیم، تیل اور لیوبریکینٹس، راشن، علاج، ٹریننگ وغیرہ، اسلحہ اور گولہ بارود کی درآمد اور متعلقہ خریداریاں، سول ورکس (موجودہ انفراسٹرکچر کی دیکھ بھال اور نئی عمارتوں کی تعمیر کے لئے فنڈز) شامل ہیں۔حکومت نے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرا م (پی ایس ڈی پی) 24-2023 کے تحت دفاعی ڈویژن کی جاری اسکیموں اور نئی اسکیموں کے لیے 3 ارب 40 کروڑ روپے بھی مختص کئے ہیں، اس میں سے حکومت نے ملکی حصے سے 3 ارب 30 کروڑ روپے اور غیر ملکی امداد کے حصے سے 50 لاکھ روپے مختص کئے ہیں۔حکومت نے آئندہ مالی سال کے پی ایس ڈی پی کے تحت دفاعی پیداوار کے 2 جاری منصوبوں کے لئے 2 ارب روپے کی رقم بھی مختص کی ہے، جاری منصوبوں کے تحت گوادر میں شپ یارڈ بنانے کے لئے پروجیکٹ مینجمنٹ سیل کے قیام کے لئے 10 کروڑ روپے اور ’کراچی شپ یارڈ اینڈ انجینئرنگ ورکس‘ کے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لئے ایک ارب 90 کروڑ روپے مختص کئے گئے ہیں۔ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے متعلق خرافات پھیلائے جاتے ہیں۔ دفاعی بجٹ اور اخراجات کے حوالے سے بڑھتے ہوئے حملوں اور تنقید کا مشاہدہ ہو رہا ہے۔ یہ غلط فہمیاں پیدا کی گئی ہیں کہ پاکستان کی مسلح افواج ہمارے کل بجٹ کا تقریباً 70 سے 80 فیصد کھاتی ہیں۔ اسی طرح یہ دعویٰ بھی کیا جاتاہے کہ پاکستان کا دفاعی بجٹ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران تیزی سے بڑھ رہا ہے اور پاکستان خطے کے کسی بھی ملک کے مقابلے دفاع پر زیادہ رقم خرچ کرتا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا ایک طبقہ اس دعوے سے بھرا ہوا ہے کہ دفاعی اخراجات کا مجموعی اثر قومی غربت اور پاکستان میں ترقی کے فقدان کی بڑی وجہ ہے اس کا گہرائی سے جائزہ لینے، سچائی تلاش اور اصل محرکات کو اجاگر کرنے ضرورت ہے کہ یہ تاثرات کیوں پیدا ہوئے ہیں۔حقائق جاننے کے لئے پاکستان کے دفاعی بجٹ کے حوالے سے آزادانہ تحقیق کی جائے اور موازنہ روایتی حریف بھارت سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہ تاثر کہ 70 سے 80 فیصد بجٹ افواج پاکستان کو جاتا ہے، بالکل غلط اور گمراہ کن ہے۔اس وقت پاکستان کی مسلح افواج کل آبادی کے 0.4 فیصد پر مشتمل ہے جب کہ بھارت کی مسلح افواج اس کی آبادی کے0.2 فیصد، امریکہ کی 0.4 فیصد، اسرائیل کی 2.1 فیصد، چین کی0.2 فیصد پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے کل اخراجات کا17 فیصد بھی دفاع پرخرچ نہیں ہو رہا اور تمام سرکاری اخراجات کا 83 فیصد سے زیادہ غیر دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔اس کے برعکس گزشتہ چند دہائیوں میں ہندوستان کے فوجی اخراجات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ 1990 اور 2020 کے درمیان تین دہائیوں پر محیط، اس کے اخراجات میں 259 فیصد اضافہ ہوا۔ عالمی رینکنگ میںاس وقت ہندوستان دنیا کا تیسرا سب سے بڑا فوجی اخراجات کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ 2020 میں، ہندوستان نے COVID-19 بحران کے درمیان دفاع پر 71.1 ارب امریکی ڈالر خرچ کئے۔ اسی سال ہندوستان کی غربت نے اپنی تاریخ کی بلند ترین شرح نمو دکھائی۔ اقوام متحدہ نے 2019 میں ملک میں تصدیق شدہ غریبوں کی تعداد 364 ملین یا کل آبادی کا 28 فیصد ہونے کا تخمینہ لگایا، جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان عالمی رینکنگ میں فوجی اخراجات میں 24ویں نمبر پر ہے۔ 1990 سے 2020 کے درمیان پاکستان کے دفاعی بجٹ میں 30 سالوں میں صرف 70 فیصد اضافہ ہوا۔ 3 فیصد سالانہ مہنگائی کے پیش نظر پاکستان کا مجموعی دفاعی بجٹ سکڑ گیا ہے۔ اس وقت پاکستان دفاعی وسائل میں بھارت سے بہت پیچھے ہے۔ اس کی مالی فراہمی ہندوستان کے دفاعی اخراجات سے تقریباً 7 گنا کم ہے۔ پاکستان دفاع پر خرچ کرنے والے سب سے زیادہ جی ڈی پی فیصد والے 15 ممالک میں شامل نہیں ہے۔ پاکستان نے 2022ء میں اپنے جی ڈی پی کا 4 فیصد سے بھی کم دفاع پر خرچ کیا۔ حالیہ برسوں میں جی ڈی پی کے حصہ کے طور پر پاکستان کے فوجی اخراجات میں کافی اتار چڑھاؤ آیا ہے، لیکن 1987-2020 ء کے عرصے کے دوران اس میں کمی واقع ہوئی، کیونکہ یہ 1987 میں 6.9 فیصد تھی اور 2020,3 ء میں 4 فیصد پر اس وجہ سے، جی ڈی پی کے فیصد کے طور پر پاکستان کے دفاعی اخراجات بھی کم ہو رہے ہیں۔ خطے کے زیادہ تر ممالک جن کے وجود کو بہت کم خطرہ ہے وہ پاکستان کے مقابلے میں جی ڈی پی شرح فیصد کی بہت زیادہ رقم دفاع پر خرچ کر رہے ہیں۔ نظریاتی ریاست اسرائیل اپنی جی ڈی پی کا 5.2 فیصد دفاع پر خرچ کر رہا ہے۔جہاں تک سپاہیوں کے اخراجات کا تعلق ہے، سب سے اوپر پانچ فی کس فی سپاہی خرچ کرتے ہیں اسرائیل ( امریکی ڈالر2,508)، امریکہ ( 2,351ڈالر)، سنگاپور ( 1,930ڈالر)، کویت ( 1,830ڈالر) اور سعودی عرب (1,805ڈالر)، پاکستان صرف 47 امریکی ڈالرفی فوجی خرچ کرتا ہے۔اس کے برعکس بھارت 53ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔ چین 2175ڈالر، ایران 188ڈالر، روس 423ڈالر، برطانیہ 873ڈالرفی فوجی خرچ کرتا ہے۔ یہاں تک کہ پڑوسی ملک سری لنکا اپنے ایک فوجی پر733امریکی ڈالر کاخرچہ برداشت کر رہا ہے۔ فوجی اخراجات بہت سے ممالک کے بجٹ کا ایک اہم حصہ ہیں ۔ یہ ایک ملک سے دوسرے ملک میں مختلف ہیں۔عالمی فوجی اخراجات کا تقریباً 60 فیصد صرف سرفہرست پانچ ممالک کا ہے اور امریکہ 11 ممالک سے بھی زیادہ اپنی فوج پرخرچ کرتا ہے۔ اس نے حالیہ برسوں میں اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ چین گزشتہ دہائی سے اپنے فوجی اخراجات میں اضافہ کر رہا ہے۔ جرمنی اور کینیڈا جیسے ممالک نے حال ہی میں عالمی واقعات کے ردعمل میں اپنے اخراجات میں اضافہ کیا ہے۔ (جاری ہے)