(گزشتہ سے پیوستہ) اگلی ستم کی بات یہ ہے کہ کسی مدرسے کو محکمہ تعلیم میں رجسٹر کرنے کے لیے صرف ایک درخواست کافی ہے۔ نہ وفاق کی تصدیق ضروری ہے، نہ ضلعی اور مقامی انتظامیہ کی تصدیق ضروری ہے۔ مدرسہ میں پہلے انتظامیہ موجود ہے یا نہیں، یہ تصدیق بھی ضروری نہیں ہے۔ صرف ایک سادہ فارم بھر کے دو چار آدمی وہاں جمع کرا دیں کہ ہم فلاں مدرسے کے منتظمین ہیں ہمیں رجسٹر کیا جائے، تو محکمہ تعلیم یہ نہیں دیکھتا کہ یہ اس کے منتظم ہیں یا نہیں، اور وفاق والے اور مقامی انتظامیہ کیا کہتی ہے۔ بس فارم اور فیس لے کر رجسٹر کر دیا۔ اس کا کیا مطلب ہے؟ کیا محکمہ تعلیم مدارس میں خلفشار اور جھگڑے کھڑے کرنا چاہتا ہے۔ چار مدارس میرے ضلع میں ایسے ہیں کہ رجسٹر کروانے والوں کا ان مدارس کے ساتھ کوئی عملی تعلق نہیں ہے، جبکہ محکمہ تعلیم نے ان کی انتظامیہ رجسٹر کر رکھی ہے۔ انہوں نے محکمہ تعلیم کو درخواست دی، محکمہ تعلیم نے ان کو منتظم تسلیم کر لیا، اور انہوں نے جھگڑا کھڑا کیا ہوا ہے۔ مدرسہ انوار العلوم، مدرسہ انوار القرآن، مدرسہ فیض الاسلام تتلے عالی، اور مدرسہ قاسم العلوم ساروکی۔ یہ چار مدرسے تو ضلع گوجرانوالہ کے ہیں۔ آپ بھی تفتیش کریں آپ کو بھی پتا چل جائے گا۔ یہ میں نے مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے موجودہ صورتحال عرض کی ہے۔
(۵) اس وقت ایک اور مسئلہ درپیش ہے، قربانی کا موسم آ رہا ہے تو کیا مدارس کو کھالیں وصول کرنے کی اجازت ہوگی؟ سرکار سے اجازت لیے بغیر وہ کھالیں وصول نہیں کر سکتے۔ اگر اجازت لے کر کھالیں وصول کر بھی لیں گے تو ان کھالوں کی قیمت کیا لگے گی؟ کیا یہ ڈرامہ نہیں ہے؟ مطلب یہ کہ ایک آدمی زکوٰۃ دے رہا ہے تو پہلے ڈپٹی کمشنر صاحب سے پوچھے کہ زکوٰۃ دوں یا نہیں۔ کوئی اپنی جیب سے صدقہ کر رہا ہے تو ڈی سی سے اجازت لینے کا پابند ہے؟ ڈی سی صاحب کا صدقہ سے کیا تعلق؟ میں کڑوی کڑوی باتیں کر رہا ہوں لیکن مجبور ہوں۔ اس لیے بھی کر رہا ہوں کہ کوئی اور یہ باتیں نہیں کر رہا۔ قربانی کی کھال کسی کو بھی ہدیہ کی جا سکتی ہے۔ جب کسی پڑوسی کو دینے کے لیے ڈی سی کی اجازت ضروری نہیں ہے تو مدرسے کو دینے کے لیے اجازت لینا کیوں ضروری ہے؟ چلیں ڈی سی محترم نے اجازت مرحمت فرما دی کہ مدرسہ کھالیں اکٹھی کر سکتا ہے۔ تو سارا سال کھال کا جو ریٹ رہتا ہے، قربانی کے دنوں میں وہ ریٹ کیوں نہیں ہوتا؟ یہ پلاننگ کون کرتا ہے کہ مدرسے کو اگر قربانی کی کھال مل بھی جائے تو اسے پیسے نہ ملیں؟ (۶) ایک اور مسئلہ یہ درپیش ہے کہ مدارس کے ساتھ تعاون کرنے والے اپنے اثاثے ظاہر کریں۔ کیا جرنیلوں، بیوروکریٹس اور ایم این ایز نے اپنے اثاثے ظاہر کر دیے ہیں؟ اثاثے ظاہر کرنے کا قانون صرف مدارس کے معاونین کے لیے ہے؟ اس ساری پلاننگ کا مقصد یہ ہے کہ مدرسہ کسی طریقے سے بند ہو جائے، اس کے معاونین تعاون چھوڑ دیں، کوئی حوصلہ افزائی نہ کرے، کوئی تعاون نہ کرے۔ لیکن ’’ومکروا ومکر اللہ واللہ خیر الماکرین‘‘۔ جوں جوں مخالفت ہو رہی ہے خود دیکھ لیں کہ مدارس کم ہو رہے ہیں یا بڑھ رہے ہیں؟ ان شاء اللہ بڑھتے رہیں گے۔ یہ باتیں عرض کرنے کے بعد میری دونوں فریقوں سے گزارش ہے: * میری ایک درخواست دینی مدارس کے وفاقوں سے ہے کہ آپ بھی کوئی واضح حکمت عملی طے کریں۔ مدارس کے تحفظ کے لیے وفاقوں کی قیادت کو عملی کام کرنا چاہیے، کم از کم اپنا موقف تو واضح کریں۔ * جبکہ حکومت سے میرا دو ٹوک مطالبہ یہ ہے کہ اوقاف ایکٹ پر شیخ الاسلام مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم نے جو ترامیم تجویز کر کے حوالے کی ہیں وہ اسمبلی میں لائی جائیں اور ان کے مطابق قانون سازی کی جائے۔ حکومت سے میری دوسری گزارش یہ ہے کہ وفاقوں کو اعتماد میں لیے بغیر محکمہ تعلیم نے جو مدارس رجسٹر کیے ہیں، ان پر نظرثانی کی جائے اور نظرثانی وفاقوں کی قیادت کے ساتھ مل کر اور انہیں اعتماد میں لے کر کی جائے۔ اور جو متوازی انجمنیں بنی ہیں ان کو ختم کیا جائے کہ ان سے مدارس میں خلفشار پیدا ہو رہا ہے۔ یہ میرے دو تین مطالبات ہیں۔ میں نے مجبور ہو کر اپنا دردِ دل آپ کے سامنے رکھا ہے۔ شاید کہ اتر جائے کسی دل میں میری بات