اہم خبریں

عزت نفس اورچھترول

میڈیاکی آزادی اب زندگی کے ہر پہلو پر اثر اندازہوناشروع ہوگئی ہے۔چندسال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتاتھاکہ اس قدرسرعت کے ساتھ معاشرے میں ہونی والی برائی یاکوئی ایسا خفیہ گوشہ آن کی آن میں ساری دنیاکیسامنے آجائیگا اورمہذب معاشروں میں اس کاخاطرخواہ ردعمل بھی ہوگالیکن حیرت ہے ان افرادکی سوچ پرجوآج بھی بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ کوئی پرواہ کئے بغیر اپنی اسی پرانی روش کوقائم رکھے ہوئے ہیں۔اس کی تازہ مثال اپنے ٹی وی سیٹ پرہرایک لمحے میں دیکھ رہے ہوں گے کہ کس طرح ملک کے وہ ادارے جن کاسلوگن ہی’’عوام کی خدمت‘‘ ہے، ان پرالزامات کاجوطوفان نظرآرہاہے کہ وہ کس طرح اس ملک کے عوام کی عزتِ نفس کوپامال کررہے ہیں۔لفظ’’چھترول‘‘ایک خالصتاً پولیس تھانوں کی زبان میں ایک ایساہتھیارہے جس کی عملی تصویرمیڈیا نے پیش کرکے ملک کے عوام کو اس سے متعارف کروادیاہے۔عدلیہ کے فیصلوں کے بعدایک اورمقدمہ گرفتاری اور چھترول کیلئے تیار ہوتاہے۔اب چھترول اس ملک کاگویاسب سے بڑاموضوع بن گیاہے اوریہی وجہ ہے کہ ملک بھرسے اس چھترول سے بچنے کیلئے سرکردہ افراد پارٹی ہی نہیں بلکہ سیاست سے ہی کنارہ کشی کا اعلان کررہے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں ایوان  صدرپر جوسیاسی چھترول ہورہی تھی اس میں کچھ کمی ہوگئی ہے۔لیکن کبھی آپ نے اپنے معاشرے پرغورکیاہے کہ اس ملک میں ہرقدم پر انسانوں کی عزتِ نفس پرچھترول ہمارا کردار کیا ہے؟ آیئے میں آپ کو اسی معاشرے کے چند کرداروں سے ملواتاہوں جوہرلمحے آپ کی آنکھوں کے سامنے سرزد ہوتے ہیں اورہم نے اب اس کوایک معمول سمجھ کراس پرغورکرنابھی چھوڑ  دیاہے۔
اکثرآپ نے گھومتی ہوئی کرسیوں، بڑی بڑی میزوں،آراستہ دفاتراوردروازوں پر کھڑے  دربانوں میں بیٹھے ہوئے یہ لوگ جن کے چہروں پرہردوسرے لمحے موسم بدلتے ہیں، کبھی مسکراہٹ اورخوشامدکاموسم اورکبھی غصے اور حقارت کی رت دیکھی ہوگی۔یہ لوگ ذلت سہنا بھی خوب جانتے ہیں اورموقع ملے توکسی کی تذلیل سے بھی بازنہیں آتے۔ہم نے بچپن سے لیکرآج تک ان کوہر زاویے سے دیکھاہے،ان کی تیز گزرتی گاڑیوں کی دھول تواکثرکھائی ہے،ان کے دروازوں پرگھنٹوں ملاقاتیوں کاایک جم غفیر بھی دیکھاہے،ان کے ساتھ ایک عام شہری کی طرح گفتگو،سوال وجواب کامنظربھی ازبرہے،ان کے لمحہ بہ لمحہ بدلتے مزاجوں اور چندثانیوں میں تبدیل ہوتے لہجوں کوبھی دیکھاہے لیکن پتہ نہیں کیوں اس سارے گورکھ دھندے میں مجھے صرف ایک چیزپاؤں میں روندتی ہوئی نظرآتی ہے،صرف ایک متاع ہے جوزخم زخم ہوتی ہے اوروہ ہے انسان کی عزتِ نفس،آیئے میں اس کھلونے کے ساتھ کھیلتے ہوئے چندمنظرناموں میں لئے چلتاہوں لیکن شرط یہ ہے کہ اس سفرمیں آپ کودل تھام کرخاموشی سے ان کواپنی آنکھوں میں محفوط کرناہوگا۔
یہ ایک سائل ہے جوکئی گھنٹوں سے باہرکھڑے چپڑاسی کی جھڑکیاں کھاتا،صاحب کے پی اے کی خوشامدیں کرتااوربعض اوقات ان کی مٹھی گرم کرکے بالآخردفترمیں افسرکے سامنے کانپتے ہاتھوں سے درخواست آگے بڑھاتا ہے۔ صاحب قلم سے کچھ لکھنے لگتاہے،اتنے میں وہ فریادی لہجے میں زبان کھولتاہے توصاحب کی غصے بھری آوازاس کاخون خشک کر دیتی ہے’’تمہیں کس نے کہابولنے کو،میں نے پوچھنا ہوگا تو خود پوچھ لوں گا’’درخواست پرہلکے سے دستخط کرکے ایک طرف پھینک دی جاتی ہے۔سائل کچھ کہنے کیلئے منہ کھولتاہے توپھروہی گرجدارآوازسنائی دیتی ہے’’بس اب جاؤ،جان چھوڑو‘‘۔’’لیکن سر آپ میری بات توسنیں‘‘۔’’کیاسنوں، کیامیں ان پڑھ ہوں،میں نے پڑھ لیاہے جوتم نے اس درخواست میں لکھاہے‘‘۔’’صاحب!میں کہاں سے پتہ کروں کہ میراکام ہواہے کہ نہیں؟‘‘ صاحب کے چہرے کارنگ فورابدلتاہے،الٹے ہاتھ پر لگی ہوئی گھنٹی پرصاحب کی انگلی لگنے کی دیرہے کہ چپڑاسی اندر داخل ہوتاہے،صاحب کامزاج آشناہے،وہ اس سائل کوبازویاکندھے سے پکڑتا ہے اوریہ کہتاہواکہ آمیں بتاتا ہوں، باہرلے جاتا ہے۔باہرکی دنیا جہاں اس جیسے کئی اورسائل اسے اس ذلت اوررسوائی سے باہرآتے ہوئے دیکھ رہے ہوتے ہیں،ان کے سامنے ہی خستہ اورپھٹی ہوئی قمیض کی جیب سے کانپتاہواہاتھ نکلتاہے اور چپراسی کی مٹھی گرم کرتے ہوئے آس وملتجی آوازمیں منت ترلے کے ساتھ جھوٹی امیدکاکوئی فقرہ سن کرگردن جھکائے نکل جاتاہے۔ 
دفترکی ایک مخصوص ’’گھنٹی‘‘پرایک کلرک فائلوں کاایک انبارلئے ہوئے میزکی بائیں جانب ادب سے کھڑاہوجاتاہے۔سامنے خالی  ٹرے میں تمام فائلوں کوایک ترتیب سے رکھ  کر صاحب کے اشارہ ابروپرایک فائل کے کچھ  صفحات دکھانے کی جرأت کرتاہے، کسی ایک صفحے پرصاحب کی آنکھ میں ذراسی غصے کی چمک  آتی ہے تواس بیچارے کے ہاتھ تھرتھرانے لگتے  ہیں،محنت سے ترتیب دی ہوئی فائل ہاتھوں سے پھسل کرگراچاہتی ہے۔بڑی مشکل سے ضبط کرکے وہ فائل سنبھالتاہے اورپھرصاحب کے سامنے اپناکیاہواکام رکھنے لگتاہے ۔سامنے چند ایک معززین یادوست بھی موجودجوکافی یاچائے کے منتظرہوتے ہیں،آفس بوائے ایک خوبصورت ’’ٹرے‘‘میں قیمتی کراکری میں موسمی میوہ جات کے ساتھ گرم گرم چائے یاکافی پیش کرتے ہوئے سب سے پہلاکپ صاحب کے سامنے رکھنے کی کوشش میں اگرچندقطرے چھلک کرپرچ میں گرجائیں توجواب میں صاحب کی متکبرکڑک آواز  میں وہ کچھ سننے کوملتاہے کہ خوف سے آنکھوں کوبھی چھلکنے کی اجازت نہیں ہوتی۔
پاس کھڑافائلوں کاانبارلئے کلرک کا خون اس وقت خشک ہوجاتاہے جب چائے یاکافی سے لطف اندوزہوتے ہوئے،اچانک ماتھے پر تیوریاں ڈالتے ہوئے کاغذات کی ترتیب، فائل کی تھوڑی سی بے ہنگمی یاپھرکسی کاغذکے چند سیکنڈ ڈھونڈنے پرموجودنہ ہونے کی وجہ سے صاحب کو غصہ آتاہے، سنہری قیمتی فریم والی عینک اتار کرمیزپرپٹخ دی جاتی ہے،ہاتھوں میں پکڑی فائل ہوا میں لہراتی ہے اورکبھی کبھی سخت غصے میں ساتھ کھڑے شخص کے منہ پرماردی جاتی ہے اورکبھی سامنے رکھی لمبی میزسے پھسلتی ہوئی قالین پرورق ورق ہوجاتی ہے۔
خوف سے کانپتا،گالیاں سنتا،اپنے مستقبل سے مایوس وہ اہلکارکاغذسمیٹتا،معافیاں مانگتا اور آئندہ بہترکام کرنے کاوعدہ کرتاہوانظرآتا ہے لیکن غصہ کم نہیں ہوتااورپھران سب لوگوں کے سامنے ذلت اوررسوائی کاداغ لیکرکمرے سے باہر نکل جاتاہے۔ایسے میں کبھی کوئی اس شخص کے دل کے اندرجھانک کردیکھے تواس میں ایک ہی خواہش ہوگی کہ اس کی آنکھوں کے کونوں میں جو آنسو چھلک رہے ہیں دریابن کرامڈ پڑیں اوروہ پھوٹ پھوٹ کرروئے،کسی گوشہ تنہائی میں کسی ایسے شخص کے سامنے جواس کادرد جانتاہو،اسے شرمند ہ نہ کرے اوروہ اس کے روبرواپنا درد بیان کرسکے،اپنادکھڑاروسکے، اپنی ذلت کامداوا کرسکے۔  
(جاری ہے)

متعلقہ خبریں