اہم خبریں

غلامی کے آداب

مظفر شاہ صاحب ملتان کے نامور قانون دان ہیں ،وکلا طبقے میں اب کم کم لوگ ایسی باتوں کوسمجھتے اورقابل عمل گردانتے ہوں ۔آپ کی طبع تواضع کے لئے ان کی پوسٹ آپ کی نذر کر رہا ہوں خصوصاً ان اساتذہ کرام کے لئے جو بچوں کی ذہن سازی کا فریضہ سر انجام دیتے ہیں۔’’ایک دن چھٹی کی درخواست لکھواتے ہوئے استاد  صاحب نے I beg to say لکھوایا تو ہاتھ پتھر کے ہو گئے۔دل نے آواز دی کہ چھٹی کوئی دے یا نہ دے لیکن یہ بھیک نہیں مانگی جا سکتی کہ I beg to sayابھی دماغ میں Beg کی ذلت کا احساس ختم نہیں ہوا تھا درخواست ختم بھی ہو گئی۔ اب کی بار درخواست کے اختتام پر استاد جی نے لکھوایا Your obedient servantاب تو کنپٹیاں ہی سلگ اٹھیں کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں خود کو کسی کا تابع فرمان قسم کا نوکر قرار دے دوں؟ وکالت کے شعبے میں آیا تو یہاں بھی وہی تذلیل دیکھی جو انصاف مانگنے آتا تھا اسے سائل کہا جاتا تھا۔ 
سائل ہماری عدالتوں اور کچہری میں ہمیشہ عرض گزار ہی پایا گیا، انصاف مانگا نہیں جاسکتا تھا۔ سائل یہ مطالبہ نہیں کر سکتا تھا کہ انصاف دیا جائے، مگر ہاں وہ Prayer یعنی التجا اور درخواست پیش کر سکتا تھامیں بیٹھ کر سوچتا کہ اگر عدالت بنی ہی انصاف دینے کے لیے ہے اور اگر اللہ کا حکم ہے کہ انصاف کرو یہ تقوی کے قریب تر ہے تو پھر اس بنیادی انسانی حق کے حصول کا مطالبہ کیوں نہیں کیا جاتا، گڑگڑاتے لہجوں میں مسکینی طاری کر کے Prayer کیوں کی جا تی ہے بلکہ باوقار طریقے سے ڈیمانڈ کیوں نہیں کی جاتی بہت بعد میں پتہ چلا کہ یہ سب اتفاق نہیں ہے بلکہ یہ برطانوی دور غلامی میں سکھائے گئے غلامی کے وہ آداب ہیں جو ہمارے لہو میں دوڑ رہے ہیں۔انگریز لکھاریوں نے ہمیں آداب غلامی سکھانے کے لیے باقاعدہ کتابیں لکھیں، ان میں سے ایک کتاب ڈبلیو ٹی ویب نے لکھی جس کا عنوان ہے English etiquette for Indian gentlemenیہ کتاب کم اور غلامی کی دستاویز زیادہ ہے اس میں ایک ایک کر کے مقامی لوگوں کو بتایا گیا کہ اب ان کا دور نہیں رہا، ان کی تہذیب بھی پرانی ہو چکی۔ نئے آقا اب جو چاہتے ہیں انہیں اسی تہذیب کو اپنانا ہو گاڈبلیو ٹی ویب کی اس کتاب میں بعض مقامات پر واضح طور پر آداب غلامی سکھائے گئے ہیںتفصیل سے بتایا گیا ہے انگریز کے حضور حاضر ہونے کے آداب کیا ہیں، اس سے ملنے کے آداب کیا ہیں، اس سے مخاطب کیسے ہونا ہے۔ مقامی یعنی ہندوستانی ڈیزائن کے جوتے پہن کر جانا ہے تو جوتے باہر برآمدے میں اتار کر اندر حاضر ہونا ہے، ایسے جوتے پہن کر انگریز کے حضور حاضر ہونا اس کی توہین ہے خبردار سلام کے لیے اس وقت تک ہاتھ نہ بڑھایا جائے جب تک صاحب یا میم خود تمہیں اس قابل نہ سمجھیںکسی انگریز کو صرف اس کے نام سے نہیں پکارنا القابات لگانا ضروری ہے، کسی یورپی سے سر راہ ملاقات ہو جائے تو ادب کے تقاضے کیسے پورے کرنے ہیں اور ان میں سے کسی کو مدعو کرنا ہے تو میزبانی کے آداب کیا ہوں گے، وغیرہ وغیرہمقامی تہذیب کو مکمل طور پر قصہ پارینہ قرار دیتے ہوئے سونے سے جاگنے تک اور جاگنے سے سونے تک، ہر معاملے اور ہر لمحے میں انگریزی طور طریقے سکھائے گئے ہیں۔ کھانا کیسے کھانا ہے۔ چھری کانٹا کیسے استعمال کرنا ہے۔ ہاتھ سے کھانا ایک برائی ہے خبردار جو کسی جنٹل مین نے گوشت ہاتھ سے کھایاانگریزوں کی حساسیت کا خیال رکھنے کا بار بار حکم دیا گیا ہے لیکن مقامی لوگوں سے کہا گیا ہے کہ تمہاری بے عزتی ہو جائے تو برا نہ مانا کرواور ہاں اگر تم معزز بننا چاہتے ہوں تو شادی کے دعوت ناموں میں چشم براہ جیسی فضولیات کی جگہ RSVP لکھا کرو۔انگریز کو یہاں سے گئے آج پون صدی ہو گئی ہے لیکن ہمارے شادی کے دعوت ناموں سے RSVP ختم نہیں ہو سکاہم آج بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کے معززین بننے کے چکروں میں ہیںمقامی تہذیب و اقدار کی تذلیل پر مشتمل عمومی ادب و آداب کے بیان میں اگر کوئی کسر رہ گئی تھی کتاب کے آخر میں درخواست لکھنے کے آداب لکھ کر کے پوری کر دی گئی۔ باب نمبر گیارہ میں بتایا گیا ہے کہ درخواست، پٹیشن وغیرہ کیسے لکھی جائیں اور ساتھ ہی نمونے کے طور پر کچھ درخواستوں اور پٹیشنز لکھی گئی ہیں کہ ان کو دیکھ کر مقامی جنٹل مین رہنمائی حاصل کریں۔ان تمام درخواستوں میں چند چیزیں اہتمام سے بتائی گئی ہیں اول: درخواست کی شروعات، جو انتہائی غلامانہ، فدویانہ اور ذلت آمیز انداز سے کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر I beg to say کا انداز سکول کے بچوں کی درخواست سے لے کر سرکاری عرضیوں تک ہر جگہ استعمال کیا گیا ہے تا کہ سکولوں سے ہی بچے یہ سیکھ لیں کہ کہ آداب غلامی کیا ہوتے ہیں اور کیسے ایک دن کی چھٹی کی درخواست کا آغاز بھی Beg سے ہوتا ہے ۔
 دوم:ہر درخواست کے آخر پر Your servant،Your most obedient servant، جیسے الفاظ لکھے گئے تھے تا کہ مقامی لوگوں کو یہ معلوم ہو رہے کہ ان کی اوقات نوکر اور رعیت سے زیادہ نہیںیہ ایک پوری تہذیبی واردات تھی جو اس سماج پر مسلط کی گئی۔چونکہ اہم مناصب پر پھر یہی مقامی جنٹل مین فائز ہوئے اور نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد یہی افسر شاہی ہمیں ورثے میں ملی اور کسی نے اس سماجی واردات پرنظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی اس لیے یہ مقامی جنٹل مین آج بھی  انگریزی آداب سے سماج کی پشت لال اور ہری کیے ہوئے ہیں۔ اس جنٹل مینی کے خلاف پہلی آواز دلی سے اٹھی۔ لعل گوردیج نامی ایک مداری دلی کے چوراہے میں بندر لے کر آتا اور ڈگڈگی بجا کر اسے کہتا : جنٹل مین بن کے دکھا۔لعل گوردیج کا بندر ہیٹ لگاتا ، چشمہ پہنتا اور پورا  جنٹل مین بن جاتا۔ بندر اور مداری دونوں کو گرفتار کر لیا گیا۔مقامی جنٹل مین ناراض ہو گئے۔(دل چسپ بات یہ ہے کہ بندر نچانے والے آج بھی بندر نچاتے وقت یہ مطالبہ ضرور کرتے ہیں کہ جنٹل مین بن کے دکھا۔ شاید اسی لیے انگریز نے ان کا شمارمجرم قبیلوں میں کیا ہوا تھا)کبھی کبھی جب دن ڈھل رہا ہوتا ہے، مارگلہ سے اترتا ہوں تو یوں لگتا ہے جنگل سے بندر شور مچا مچا کر کہہ رہے ہوں:جنٹل مین بن کر تو دکھا۔

متعلقہ خبریں