اہم خبریں

کچھ علاج اس کابھی اے چارہ گراں!

٭ایک’’مسلم‘‘نے غیرت میں آکراپنی بیٹی کاخون کردیاکہ وہ بوائے فرینڈرکھتی تھی۔ (ٹائمزآن لائن30ستمبر2003،لیوزسمتھ) ٭ایک’’مسلم‘‘شوہرنے مغربی طرز اختیار کرنے کی وجہ سے اپنی بیوی اوربچوں کوقتل کر دیا (انڈی پینڈنٹ،21ستمبر2007) ٭ایک مذہبی مسلم باپ نے اپنی بیٹی کوقتل کردیا(لائیولیک۔12دسمبر2007) مذکورہ خبریں صرف عنوان ہیں،تفصیل سے خبریں دیتے ہوئے لفظ’’مسلم‘‘کاخاص ذکرہوتا ہے اوریہ سلسلہ ہنوزجاری ہے۔ اب مذکورہ واقعات سے ملتی جلتی ان خبروں کوملاحظہ فرمایئے جن کاتعلق مسلمانوں سے نہیں یادوسرے لفظوں میں وہ مسلمان نہیں ہیں۔
٭باپ نے اپنی بیٹی کوقتل کر دیا (Gaurdian The Observer Nov 2006 by Lorna Martin) ٭تیرہ مہینے کی بچی کے قتل کے الزام میں باپ گرفتار(NYC November5,2007) ٭ماں کوپریشان کرنے کی وجہ سے باپ نے بیٹے کوقتل کر دیا(info.niac.com 23 AuG 2007) ٭پولیس کے مطابق ایک شخص نے اپنی بیوی اوردوبچوں کوقتل کردیا(Pittsburge Tribune July 11,2008) ٭”ایک شخص نے اپنی بیوی کوقتل کردیاجبکہ وہ کورٹ کی تحویل میں تھا”(Thw Star Ledger June 28, 2008) ٭”اودامیں رہنے والے شخص نے اپنی بیوی اورچاربچوں کوقتل کرنے کے بعدخودکشی کرلی،، (USA Today , 2008) مذکورہ واقعات صرف عناوین ہیں، خبروں کی تفاصیل کاذکرکرتے ہوئے کہیں یہ نہیں بتایاگیاکہ مرنے یامارنے والے عیسائی یہودی، ہندویاکسی اورمذہب کوماننے والے تھے۔ مذکورہ دونوں واقعات کاتقابلی مطالعہ کیجئے،آپ کوپتہ چلے گاکہ کس طریقے ومہارت اورچالاکی کے ساتھ ذرائع ابلاغ نے لفظ’’مسلم‘‘کااستعمال کرکے مسلمانوں کوبدنام کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔دہشت گردی کے واقعات کوکس طرح پیش کیاجاتاہے،اسے بھی ایک نظرملاحظہ کیجئے! ’’بھارت کے بھیانک دہشتگردانہ حملے میں ایک ’’مسلم’’بمبار مجرم قرار دیدیا گیا(اے ایف پی،ستمبر2006)جبکہ خودبرطانیہ کے مشہورزمانہ اخبار’’گارڈین‘‘18 اگست 2003 مودی کے دورہ برطانیہ پراسے دوہزارسے زائدمسلمانوں کاقاتل قراردیتے ہوئے اس سے جواب طلب کیا تھا اور ہنوزیہ سلسلہ جاری ہے اورہرروزآئے دن مودی سرکار کاملٹری ونگ’’آرایس ایس‘‘اب بھی مسلمانوں اور دیگراقلیتوں کودن دیہاڑے قتل کرکے خوف ودہشت کی علامت بناہواہے لیکن کوئی ان کودہشت گردنہیں کہہ سکتا۔اب ایسی ہی خبروں کادوسراپہلوبھی دیکھئے جن میں مسلمان شامل نہیں ہیں۔ سری لنکامیں دوڑکے ایک مقابلے کے دوران خودکش حملے میں تیرہ حکام اوردوسرے افرادمارے گئے(Reuters) “سری لنکامیں ایک پولیس افسربمبارکے حملے میں ماراگیا(The Associat Press 16 June 2008) یہ چند مثالیں تھیں جوپیش کی گئی وگرنہ ہرروزاس طرح کی خبریں چھپتی اورنشرہوتی رہتی ہیں،تو ظاہر ہے کہ جب اتنی چیخ وپکارکی جائے گی تولامحالہ ایک شخص سوچنے پرمجبورہوجائیگاکہ دال میں کچھ توکالا ہے ہی ورنہ لوگ بے وقوف ہیں کیاجومسلمانوں کواوراسلام کودہشت گردی سے جوڑیں گے۔ایسے پروپیگنڈے ہرروزاخبارات اورذرائع ابلاغ میں ہوتے رہتے ہیں۔اب آپ یہ ثابت کرتے رہئے کہ ایسانہیں ہوتا۔ ایک سائٹ www.islamicterrorism.wordpress ہے اس میں آپ کوتفصیل سے یہ بات مل جائے گی کہ اسلام کیسادہشت گردمذہب ہے اورمسلمان کیسے دہشت گرد بنتے ہیں اوراسے کیسے ختم کیا جاسکتاہے،کتنے مسلم دہشت گردوں نے معصوم ہندوں کولوٹا۔سائٹ کھلتے ہی سب سے پہلی چیزجوآپ کے سامنے آئے گی وہ یہ ہے کہ’’اسلام کوپہچانو، دہشت گردی کوپہچانو،اسلام نہیں دہشت گردی نہیں‘‘۔اب ایسے حالات میں سچ اور جھوٹ کی تمیز کیسے ہوگی اورحالات کامقابلہ کیسے ہوگا،یہ مسلمانوں کے سامنے ایک اہم سوال ہے؟؟ اب معاملہ اس سے کہیں زیادہ آگے بڑھ چکاہے اوربات نہ ماننے والوں کابازومروڑنے کیلئے بین الاقوامی اداروں کااستعمال بھی سامنے آگیا ہے۔ پہلی مرتبہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے’’آئی ایم ایف‘‘کے ذریعے پاکستان پر اورمحض اس لئے دباؤ ڈالاجا رہاہے کہ اسے اپنی خودمختاری کے حوالے سے آزادانہ فیصلوں سے روکاجائے۔میں اپنے کالمز میں امریکی سفیرکی پاکستان میں مبینہ سرگرمیوں کاتفصیلی ذکرکرچکاہوں جس کے بعد امریکی اخبارات وجرائدمیں پاکستان کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ کی اشاعت کاسلسلہ بھی زور شور سے جاری ہے۔اسی مالیاتی ادارے نے پہلی مرتبہ پاکستان کے ساتھ قرض کے معاہدے کوبڑھانے کیلئے ملکی سیاست کودرست کرنے کامشورہ دیتے ہوئے ارضِ وطن کے اندرونی معاملات میں جواحکام جاری کئے ہیں،اس سے صاف واضح ہوگیاہے کہ کس طرح وہ اپنے ایجنٹوں کیلئے اقتدارکاراستہ ہموارکرنے کی درپردہ کوششیں کررہے ہیں۔ کیا آج سے پہلے کوئی ایسی مثال موجودہے کہ عالمی مالیاتی اداروں نے اس طرح پاکستان کے معاملات میں مداخلت کی ہو؟صاف ظاہرہے کہ ٹرائیکا پاکستان کے موجودہ مالی اور سیاسی بحران سے فائدہ اٹھانے کیلئے پوری طرح سرگرم ہے اورہماری خودمختاری اورآزادی کے خلاف محض اس لئے درپے ہے کہ یہ پہلی مسلم ایٹمی قوت ہے اوراس کی مضبوط افواج دنیاکی بہترین میزائل ٹیکنالوجی سے لیس ہے جووقت آنے پرنہ صرف اپنادفاع کرنے کی پوری اہلیت رکھتی ہے بلکہ دشمن خوفناک نتائج سے بھی آگاہ ہیں جس کا اقرار خود امریکی دفاعی تجزیہ نگاراپنی کتابوں میں بھی کرچکے ہیں۔ ویسے انہی حالات سے نمٹنے کیلئے بہت سے ٹی وی چینلزوجود میں آئے ہیں۔اس میں ’’پیس، اسلام اورالجزیرہ‘‘چینلزبہت حد تک اس کا مداوا کررہے ہیں،اس کے باوجود پروپیگنڈے کی ان تیز آندھیوں میں یہ تین چینلزکہاں تک سچائی سامنے لائیں گے ۔اس سلسلے میں بڑی محنت،اخلاص پیسہ اور اچھے کام کرنے والے پروفیشنلزافرادکی ضرورت ہے جوسنگین سے سنگین حالات میں صبر اور متوازن خبروں کے ساتھ اس اہم کام کو ایمانداری کے ساتھ انجام دے سکیں۔

متعلقہ خبریں