اہم خبریں

آزادکشمیر:پیپلزپارٹی کے ہاتھوں ن لیگ کی شکست

٭ آزادکشمیر، باغ کےضمنی انتخابات، پیپلزپارٹی کے ہاتھوں ن لیگ کی شکست، فیصل آباد ن لیگ کا سینئر عہدیدار پیپلزپارٹی میں شاملO آئی ایم ایف کی امداد کے بغیربجٹO جہانگیرترین کےزیرسایہ’’استحکام پاکستان‘‘ پارٹی کاکسی منشور کے بغیر قیام،سبز،سرخ سفید پرچم، ن لیگ کاخیرمقدم اور پریشانی کا اظہارO بجٹ میں عام انتخابات کےلئے 42 ارب روپے مختص،5 ارب پہلےدیئےجاچکےہیںO پی ٹی آئی کی 13 خواتین جوڈیشل ریمانڈ پرجیل بھیج دی گئیں، O سویلین افراد کا کورٹ مارشل نہیں ہو سکتا، پشاور ہائی کورٹ کے ریمارکس O تحریک لبیک کالاہورسےاسلام آبادتک پاکستان بچائو مارچ،راستے میں چھ مقامات پراجتماعاتO بھارت: منی پورمیں ہنگامےتیزہو گئے، 15 بھارتی ریاستوں میں آزادی کی 67 تحریکیں، صرف آسام میں 34 تحریکیں O بھارت کی نئی پارلیمنٹ میں اکھنڈبھارت کادیوارگیرنقشہ، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال، مالدیپ، سری لنکا، بھوٹان بھی بھارت میں شامل:پاکستان، بنگلہ دیش کاسخت ردعمل،نیپال میں بھارتی پرچم نذرآتش Oپاکستان، گَدھوں کی تعداد میں اضافہ، پچھلے سال 57 لاکھ تھے، اس سال 58 لاکھ ہو گئے۔ اونٹ 11 لاکھ، بکریاں بھی بڑھ گئیںپچھلے سال آٹھ کروڑ 25 لاکھ، اس سال آٹھ کروڑ 47 لاکھ!! پی ٹی آئی کا ڈیموکریٹک گروپ ختمO ترکمانستان سے گیس کا معاہدہO سپریم کورٹ مولوی تمیز الدین اور بھٹو کیس کے فیصلے واپس لے، عرفان قادرO جہانگیر ترین کی نئی پارٹی، ’’نئی ٹوکری میں پرانے انڈے‘‘ سراج الحقO عمران خان: 9 مئی کے واقعات پی ٹی آئی نے نہیں کرائے، میں نے مذمت کی تھیO بلوچستان، وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کا بجٹ کا بائیکاٹO پیپلزپارٹی، 21 جون کو لاہور میں پاور شو جلسہ کی تیاریاںO اعتزاز احسن، حکومت اور چیف جسٹس پر تنقید۔

٭ بجٹ آ چکا، تفصیلات اخبارات میں موجود ہیں۔ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی امداد کے بغیر آیا ہے، دوسرے یہ کہ عام انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کے لئے 42 ارب روپے رکھےگئے ہیں، 5 ارب پہلے ہی دیئے جاچکے ہیں، الیکشن کمیشن کا 47 ارب کا مطالبہ پورا ہو گیا ہے۔ حکومت نے ازخود قومی، صوبائی اسمبلیوں کےانتخابات کےلئے 8 اکتوبر کی تاریخ مقررکی تھی اسےمولانا فضل الرحمان نےمستردکردیا ہےاورانتخاب سے پہلے معاشی حالت درست کرنے کامطالبہ کردیاہے۔ اس طرح8 اکتوبر کی تاریخ بھی یقینی دکھائی نہیں دےرہی۔ اسمبلی انتخابات میں مقررہ پروگرام سےایک سال تک مزید آگے بڑھا سکتی ہے مگراس کےلئےملک میں دفعہ 232 اور 245 کے تحت سیاسی یامالیاتی ایمرجنسی کااعلان کرناہو گا۔ ن لیگ کے سابق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نےایسےکسی اقدام کوملک کی سلامتی کےلئےتباہ کن قراردیاہے۔ ویسے بھی اسمبلی میں تحریک انصاف کے 127 استعفوں کے باعث نصف اسمبلی خالی رہتی ہے۔ عملی طور پرکوئی اپوزیشن نہیں، پی ٹی آئی کےباغی راجہ ریاض 20,18 منحرف ارکان کے ساتھ خود کو اپوزیشن قرار دیتے ہیں، مگرلاہور ہائیکورٹ کےفیصلے کےمطابق پی ٹی آئی کے استعفوں کی منظوری غیرقانونی قراردینے پر راجہ ریاض کی اپوزیشن لیڈری کاقانونی جوازختم ہوچکا ہے۔ ٭ دنیا بھر میں دستور ہے کہ کوئی نئی پارٹی اپنے قیام کے اعلان کے ساتھ اپنےمنشور کابھی اعلان کرتی ہے۔ پیپلزپارٹی کاوجودلاہورمیں ڈاکٹرمبشر حسن کی کوٹھی میں عمل میں آیا تھا۔ اس موقع پرحنیف رامےکاتیار کردہ ’’اسلامی سوشلزم،والا منشور پڑھاگیا ،کنونشن کے شرکاءنےاسکی باقاعدہ منظوری دی اور پیپلزپارٹی وجود میں آ گئی اور ’’استحکام پارٹی؟؟‘‘ کوئی منشور نہیں، پارٹی کےقیام کی وجوہ اورمقاصد کاکچھ پتہ نہیں، ایک پرچم البتہ بنالیاگیااس میں سبز، سفیداورسرخ رنگ شامل ہے۔سبزرنگ اسلام کا، سفید اقلیتوں کا اور سُرخ؟؟ کچھ علم نہیں کس کی نمائندگی کرتاہے! اس لیے بغیر منشورپارٹی کااچانک وجودمیں آنا معنی خیز ہے۔ ن لیگ کےسُپرترجمان عطاءاللہ تارڑ نے استحکام پاکستان پارٹی کا خیرمقدم اس اشعار کے ساتھ کیا ہے کہ ’’اپنے ہی لوگ ہیں،مل کر کام کریں گے‘‘ اس خیرمقدم سےتوظاہر ہے کہ جہانگیری پارٹی کوالگ منشورکی ضرورت نہیں، ن لیگ کامنشورہی کافی ہو گا،مگراندر کی حقیقت کچھ اور ہے۔ مسلم لیگ ن نےاپنے آزادانہ وجودکو پس پشت ڈال کر جس طرح پی ڈی ایم کےغیرمنتخب مولانافضل الرحمان کےتابع فرمان بنادیاہے،اسکاایک نتیجہ تو آزادکشمیر کے علاقہ باغ کے ضمنی الیکشن سے سامنے آگیاہےاس میں پیپلزپارٹی نےن لیگ کوشکست فاش دےدی ہے۔یہ تحریک انصاف کی نشست تھی وہ پچھلے انتخابات میں بھاری اکثریت سےجیتی تھی اب اسی بھاری اکثریت کےساتھ ملیامیٹ ہوگئی ہے۔ن لیگ اورپیپلزپارٹی کے’’اتحاد‘‘ کاایک نمونہ دیکھئے، شائع شدہ خبرکےمطابق ن لیگ فیصل آباد ڈویژن کے سینئرنائب صدراورپارٹی کےٹکٹ ہولڈر سلیم طاہرگجرپیپلزپارٹی میں شامل ہوگئے۔ن لیگ تحریک انصاف کےچکنا چورہونے پرخوش ہورہی تھی، عطاء اللہ تارڑ (سُپرراناثناءاللہ!!!) نےبظاہر استحکام پارٹی کاخیرمقدم کیاہےمگراسے یہ بات پریشان کررہی ہے کہ اس نئی پارٹی میں خاص طور پرایسےلوگوں کولایا گیاہےجوالیکشن جیت سکتےہیں، دوسری طرف پیپلزپارٹی اعلان کرچکی ہےکہ وہ الیکشن میں آزادانہ حصہ لے گی،کسی اتحاد میں شامل نہیں ہوگی (پی ڈی ایم کی چُھٹی!) آزادکشمیر کےضمنی الیکشن نےن لیگ کی حالت زار کی نشاندہی کر دی ہے۔ ٭ مختصر ذکر استحکام پاکستان پارٹی کا (استحکام میں ’حکام‘ کالفظ نمایاں ہے!) اس نوزائیدہ گروہ کاعوام سے کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا،امیرجماعت اسلامی سراج الحق کامختصرتبصرہ ہی کافی ہےکہ نئی ٹوکری میں پرانےانڈے!اس پارٹی کےبظاہر صدرعبدالعلیم خان بھی دوسرے سیاسی بھگوڑوں کی طرح سنگین مقدمہ میں ضمانت پررہاہیں،ایک رہائشی سوسائٹی کےذریعے وسیع سرکاری اراضی پرقبضہ کاالزام ہے۔ انہوں نےاپنےعالی شان گھرمیں مجوزہ نئی پارٹی کے100سیاسی بھگوڑوں کوعشائیہ پربلایا،بُھنی مچھلی،روسٹ چرغے کھلائے،کشمیری چائےپلائی۔ جہانگیر ترین نے چندجملوں پرمشتمل مختصرتقریرکی۔بتایا کہ پارٹی کا قیام ضروری تھا،منشوربنتارہےگا! موصوف کاپارٹی کےقیام کااعلان ہی غیرقانونی تھا، سپریم کورٹ انہیں واضح طورپر کسی بھی سیاسی سرگرمی کےلئےنااہل قراردےرکھا ہے، وہ کسی سیاسی پارٹی میں شامل نہیں ہوسکتے،کوئی نئی سیاسی پارٹی نہیں بناسکتےمگر وہ ایک سیاسی پارٹی کااعلان کررہےہیں جس میں خودشامل نہیں ہو سکتے۔ ٭ مختصرات: پیپلزپارٹی کےسُپرچیئرمین آصف زرداری نے اعلان کیاکہ میں پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر 100 ارب ڈالر تک پہنچادوں گا۔ یہ نہیں بتایاکہ کسطرح یہ کام انجام دیں گے؟اس سےپہلے ایک بار شدید غیض و غضب میں ٹیلی ویژنوں پر پورامنہ کھول کراعلان کیاتھاکہ ’’جرنیلوں کی اینٹ سےاینٹ بجادوں گا‘‘قوم پچھلے سات برسوں سےاس انہونی کاانتظارکررہی ہے، کچھ بھی نہ ہوا۔ اب زرمبادلہ کے ذخائر 100 ارب ڈالرتک بڑھانےکا اعلان کیاہے!دو بچے گلی میں لڑ رہے تھے۔ ایک نے دوسرے سےکہاکہ میں تمہیں مُکامارکرملتان پہنچادوںگا۔ دوسرے نے کہاکہ میرا مکاتمہیں کراچی پہنچا دے گا۔ ایک بزرگ پاس سےگزررہےتھے،ایک بچے سے کہا کہ بیٹا! مجھے ایک چھوٹا سامکاماردو، مجھے ساہیوال جاناہے! ٭سرکاری بیان: پاکستان میں گَدھوں کی تعداد بڑھ گئی ہے،پچھلے سال 57 لاکھ تھے، اس سال 58 لاکھ ہو گئے ہیں۔ رپورٹ میں وضاحت نہیں کی گئی کہ 58 لاکھ گدھےکہاں کہاں،کیا کام کر رہے ہیں؟ افسانہ نگار کرشن چندرنے تو اسمبلیوں میں گدھے پہنچادیئےتھے،شائد اب بھی! ٭ماضی میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹرجنرل حمید گل نے ایک بارمجھےبتایاکہ بھارت میں مقبوضہ کشمیر سمیت آزادی کی 16تحریکیں چل رہی ہیں۔ اگلےسال یہ تعداد32 ہو گئی۔ اب خودبھارتی میڈیاکےمطابق 9ریاستوں، مقبوضہ کشمیر،منی پور،ناگالینڈ،میزورام،مگھالیہ، تامل ناڈو،آسام،جھاڑکھنڈ،تری پوروغیرہ میں علیحدگی اور آزادی کی تحریکوں کی تعداد 67 ہو گئی ہے!!

متعلقہ خبریں