اہم خبریں

جہانگیر ترین کی سیاست میں آمد

کل میرے ایک لاہوری دوست نے بتایا کہ جہانگیر ترین پر جونئے منصب کی صورت میں بوجھ ڈالا جارہاہے وہ اس کو آسانی سے نہیں اٹھاسکیں گے بلکہ شنیدہے کہ انہوں نے تنہائی میں رونا ودھونا بھی شروع کردیاہےحالانکہ یہ وہی جہانگیر ترین ہیں جنہوں نے عمران خان کواپنا جہاز فراہم کیاتھا جس پر اڑ کر وہ اپنی انتخابی مہم چلایاکرتے تھے۔ ان دونوں کی دوستی مثالی تھی لیکن بعد میں جب عمران خان اقتدار میں آئے اور وزیراعظم بن گئے تو انہوں نے جہانگیر ترین کو چینی سے متعلق غلط کاروبار سے روکا تھا بلکہ انہیں بڑے پیار سے کہا کہ اگر تم نے بھی سیاست کے ذریعے روپے پیسے کمانے شروع کردیئے ہیں تو اس طرح ہم اپنے منشورکی کھلم کھلا نفی کریں گےلیکن جہانگیر ترین نے عمران خان کی نصیحت کو ہوامیں اڑا دیا۔ اب عمران خان اور جہانگیر مختلف سمتوں میں پرواز کررہے ہیں۔ جہانگیر ترین کو ارباب اختیار کی مکمل حمایت حاصل ہے اورشنید ہے کہ انتخابات میں کامیابی کے بعد ان ہی کو وزیراعظم بنایاجائے گاتاہم ان ساری باتوں کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اگر بنیاد ہے توصرف یہ ہے کہ جہانگیر ترین کو باقاعدہ پاکستان کی گھٹیا سیاست میں دھکیل دیا گیاہے ۔ اب انہیں اپنی طاقت دکھانی ہوگی۔ پی ٹی آئی کے بہت سے ارکان کو اپنے ساتھ ملاکر نئی پارٹی میں جان ڈالی جائے گی اور عوام کو یہ باور کرایاجائے گاکہ ہم آپ کے اصل نجات دہندہ ہیں۔

ویسے بھی جہانگیر ترین کے پاس دولت کی کوئی کمی نہیں ہے۔ انہیں ارباب اختیارکےعلاوہ کئی نامور ’’سیاستدانوں‘‘ کی حمایت بھی حاصل ہے۔ ویسے بھی پاکستان میں سیاست دولت کےگردگھومتی ہے۔ قائداعظم، لیاقت علی خان اورسردارعبدالرب نشتر ،چوہدری محمد علی کے بعد پاکستان کی سیاست میں وہ افراد سامنے آئے ہیں جن کے پاس بے پناہ دولت تھی یا ہے(فوجی حکومتوں کو چھوڑ کر) ۔ جہاں تک عوام کاتعلق ہےتوان کے پاس نعروں کے علاو ہ اور کچھ نہیں ہے کیونکہ نعرے بازی کے زیر سریہ غریب طبقہ اپنا غصہ اتارتاہے۔ بسااوقات وہ اس غصے میں توڑ پھوڑ بھی کربیٹھتاہےجس کےسبب اسکو جیل بھی جانا پڑتاہےلیکن یہ تسلیم کرناپڑے گا کہ دولت کی طاقت اور ارباب اختیار کے’’ کرم‘‘ سے پاکستان میں اقتدارحاصل کیاجاسکتاہے۔ اوراقتدارحاصل کرنے کے بعد انتخابات میں خرچ ہونے والا پیسہ واپس لےکر دولت کے نئے ذرائع تلاش کئے جاسکتے ہیں لیکن سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا نوجوان ان افراد کو ووٹ دیںگےجو پی ٹی آئی کو چھوڑ کرجہانگیر ترین کی پناہ میں آئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے منحرف افراد کو انتخابی میدان میں عوام کی جانب سے سخت قسم کی لعن طعن بھی برداشت کرنا پڑیگی جبکہ ووٹ بھی کم ملیں گے۔ جہانگیر ترین کی سیاست میں آمد کے بعد پی ڈی ایم گھبرائی ہوئی ہے کیونکہ بھان متی کے کنبے کے ایک سال اقتدارسےچمٹے رہنےکےباوجود عوام کیلئےکچھ نہیں کیاہے۔ایک سال کے دوران مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کی چیخیں نکال دی ہیں بلکہ تیرہ جماعتوں کے اس اتحاد نے ملک کی سیاست میں نفرتوں اور عداوتوں کو جنم دیاہے یہاں تک کہ عدلیہ کو بھی ایک منصوبے کے تحت تقسیم کردیاہے۔ یہ صورتحال ہوسکتاہے کہ ارباب اختیارکو پسند آئےلیکن آئندہ چند دنوں میں اس صورتحال کےجو بھیانک نتائج سامنے آئیں گے اس کو سوچ کر اطراف میں خوف کے کے سائے منڈلانے لگتے ہیں۔ پاکستان میں دولت کی سیاست کے ذریعےزرداری صاحب بھی اپناکرداراداکرناچاہتے ہیں۔ ان کادعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کیلئے 100ارب ڈالرلاسکتے ہیں اور ملک کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلاسکتے ہیں لیکن اس کے لئے بقول ان کے ایک قریبی دوست ایک شرط رکھی ہے کہ پہلے ایک بارپھر انہیں صدرکاعہدہ پیش کیاجائے تاکہ وہ معیشت کاپہیہ ٹھیک طرح سےچلاسکیں۔ ویسے بھی پی ڈی ایم کے وزیراعظم شہبازشریف نےکہاہےکہ زرداری صاحب کو آئندہ پاکستان کا صدر ہوناچاہیے تاہم اندرونی خانہ سرگرشیوں میں یہ کہاجارہاہے کہ اگر زرداری صاحب کو صدر بنادیاجاتاہے تو مولانا فضل الرحمن کا کیا ہوگا۔ وہ بھی پاکستان کے صدر بننے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس منصب کے حصول کیلئےانہیں نوازشریف کی مکمل حمایت حاصل ہےکیونکہ جس طرح مولانا نے نوازشریف کےاکسانے پرعمران خان کا’’حشر‘‘ کیاہے۔ اس کا صلہ انہیں پاکستان کا صدربننے کی صورت میں ہی مل سکتاہے۔ بہرحال جہانگیر ترین ہوں یاپھر پی ڈی ایم کی تیرہ مختلف الخیال جماعتیں،ان کے پاس ملک چلانے کےسلسلے میں نہ توکوئی پلان ہےاور نہ ہی ان کی کوئی واضح سوچ ہے۔ یہ سب آئندہ دولت کے ذریعے اقتدار پہ قبضہ کرناچاہتے ہیں۔ رہے عوام توان کی کیا اوقات ہے؟ انہیں کون پوچھتاہے۔ ان سے صرف ایک بریانی کی پلیٹ پر ووٹ لیاجاتاہے اس کے بعد ان پر جوگزرتی ہے اس کو وہی جانتے ہیں ویسے بھی یہ دنیاغریبوں کی نہیں ہے۔ بلکہ یہ دنیا امیروں اور چال باز لوگوں کی ہے۔ سیاست میں آکر دولت بناتے ہیں خود بھی کھاتے ہیں اور اپنے حمایتوں کوبھی کھلاتے ہیں چنانچہ اس انداز حکمرانی سے نہ تو ملک کے حالات سنبھل سکتے ہیں اور نہ ہی عوام کی حالت زار، جبکہ خلق خداکو اداسی اور محرومی کے گہرے سائے زندگی کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔ اس پس منظر میں کیا پاکستان میں واقعی استحکام پیداہوسکتاہے یا معیشت ترقی کرسکتی ہے؟ درددل کے واسطے پیدا کیا انسان کو ورنہ طاعت کے لئے کچھ کم نہ تھے کروبیاں

متعلقہ خبریں