ہاں ایساہی ہوتاہے،میں کاچکرکبھی ختم نہیں ہوتا۔بس میں کاچکر۔دھوکاہی دھوکا اور خودفریبی۔ دربارِعالیہ میں مسندِنشین خوشامد پسند حکمران اور چاپلوس مشیرانِ کرام ،راگ رنگ کی محفلیں، ناؤنوش کادوراورعوام کادردوغم یکساں کیسے ہوسکتے ہیں! ہوہی نہیں سکتے۔نہیں جناب آپ نے بجاارشاد فرمایا آپ ہی توصحیح فرماتے ہیںآبِ زرسے لکھنے کے قابل ہیں آپ کے ارشاداتِ عالیہ۔درنایاب ہیں آپ،نجات دہندہ اور زمین پرخداکاسایا۔رحمتِ باری تعالیٰ اور اوتارِ زمانہ ہیں آپ سرکار۔آپ جئیں ہزاروں سال سدا جئیں کانعرہ اور خودفریبی میں رچابسافریب خوردہ انسان۔اتنی آوازوں میں کون اپنے آپ میں رہتاہے۔جامے سے باہرہوہی جاتا ہے لیکن کون جیاہے سدا!کوئی بھی نہیں۔سب کوچلے جاناہے ۔ زندگی پرموت کاپہرہ ہے۔نہیں بچاکوئی۔ کوئی بھی تونہیں بچالیکن کون سمجھائے جب قلب سیاہ ہوکرپتھربن جائے چاہے دھڑکتاہی ہو،اس سے کیاہوتاہے!ہاں پتھرتوپتھرہوتا ہے ۔فریب ہی فریب اوردھوکا ہی دھوکا۔زمین پرپاں ٹکنے ہی نہیں دیتایہ دھوکا۔
چاہے کچھ کرلیںہاں کچھ بھی،نہیں بچ سکاکوئی بھی موت کے منہ سے۔بے حس وسفاک موت،کسی کوخاطرمیں نہ لانے والی۔ ہاں وہ کسی کی بھی دھمکی نہیں سنتی،کسی کے نام ونسب، منصب وجاگیرسے اجنبی موت،لیکن پھربھی جیئے جیئے سداجیئے کا خمار۔ایسانشہ جوسارے نشے کو دوآتشہ اورسہ آتشہ کردے۔آہ نہیں بچا کوئی۔ آگ وخون کی بارش کرنے والے بھی اورمظلوم، معصوم اور مقہوربھی۔نہیں کوئی نہیں بچالیکن پھر سب ساتھ چھوڑنے لگتے ہیں۔تب خیال آتا ضرور ہے لیکن ساعت ولمحات بیت چکے ہوتے ہیں،سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاتاہے،پھرپل کی خبرنہیں ہوتی حالانکہ سامان سوبرس کادھراہوتاہے۔ وہ مجھے اکثرکہتاہے کوالٹی لائف ہونی چاہیے۔ ہاں وہ اسی طرح کی زندگی بسر کرتا ہے۔ ہرچیزوافر اوروقت نپاتلا۔لیکن کیایہ ہے کوالٹی لائف!اچھی نوکری کیلئے بہترین تعلیم حاصل کرنا۔پھرپیسے جمع کرنااورکرتے ہی چلے جانا۔ پھر ایک خوبصورت لڑکی سے شادی۔ ایک آسائشوں بھراگھراوراس کے لان میں بچھی ہوئی آرام دہ کرسی پرجھولتے ہوئے گپ شپ۔بس یہ ہے آج کی کوالٹی لائف۔ کیایہی ہے زندگی! میرا ایک دیہاتی دوست بہت ہنستااورکہتاتھا:کچھ لوگوں کی زندگی’’نہ ہم کسی کے نہ ہمارا کوئی‘‘۔کسی سے کوئی مطلب ہی نہیںبس میں،میں اورمیں کاچکر۔ زندگی پرموت کاپہرہ ہے۔ان کایہ جملہ ہروقت میری سماعتوں میں رس گھولتاہے۔میں اکثران سے ملتاتھا۔بس ہروقت ایک ہی بات تھی ان کی ’’پیٹ کی نہ ماننایہ کبھی نہیں بھرتا۔ دنیا بھر کی نعمتیں اس پیٹ میں ڈال لے،اگرایک وقت کا فاقہ آگیاتوہٹ دھرمی سے کہنے لگتاہے میں نے تو آج تک کچھ کھایاہی نہیں۔پیٹ بھی ایک جہنم ہے‘‘ ۔کیاتشبیہ ہے یہ۔ زندگی پرموت کاپہرہ ہے۔مت بھولنا۔ ہم اگربھول بھی جائیں تب بھی کیا ہوگا؟ کچھ نہیں۔خودکوفریب دیں گے۔موت تو ہمیں نہیں بھولتی۔زندگی کے ساتھ ہم سفر موت، کبھی نہیں مہلت دیتی۔آکررہتی ہے۔بس ایک فرق ہے۔ کس نے کس طرح موت کااستقبال کیا۔ بس یہ ہے اصل۔ایک دن انہوں نے مجھے کہا تھا: دیکھ، سامان اول توہوناہی نہیں چاہیے اور اگرہوبھی توبس مختصر۔دیکھ،موت کی گاڑی زندگی کے ساتھ ہی روانہ ہوتی ہے، تجھے کسی اسٹیشن پرجانے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کاکوئی وقت ہی نہیں جوتجھے معلوم ہولیکن آتی بروقت ہے۔اس لیے بس چھوٹی سی گٹھڑی سے زیادہ جمع نہ کرنا،موت کی ٹرین آئے توبس ہنس کھیل کر سوارہوجانا۔ہوناتوہے، توپھر ہنس کھیل کرکیوں نہیں۔اورپھران کا نعرہ مستانہ گونجتا’’کوئی بھی نہیں بچے گا،آ آ مجھے توتیارپائے گی‘‘۔انسان اور بندہ عاجزلیکن طاقت کے زعم میں لتھڑاہوا۔فریب خوردہ سمجھ ہی نہیں پاتا،بس اتنی طاقت کے نشے میں چورچلاتارہتاہے:یہاں سے ماریں گے، وہاں ماریں گے،کوئی نہیں بچے گا،نہیں چھوڑیں گے،بس ماریں گے ہم،ہلاک کردیں گے۔ اورپھرآگ وخون کی بارش برستی ہے اورموت کاہرکارہ پروانہ اجل تقسیم کرنے لگتے ہے،اورپھرسب رخصت ہوجاتے ہیں،سب نے ہوناہے رخصت۔ مجھے یادآیا،اس کی گردن تن سے جداکرنے لگے تو پکارنے لگا:رب کعبہ کی قسم، میں توکامیاب ہوگیا۔ہاں یہ بھی ایک موت ہے، بارودکی بارش میں معصومیت کاقتل عام۔کوئی بھی نہیں بچے گاجناب۔زندگی پرموت کاپہرہ ہے اورمہلتِ عمل بہت تھوڑی۔ دنیا دھوکا ہے، سراسردھوکا۔کسی کی رہی نہ رہے گی،اپنے اپنے حصے کی آگ اوراپنے اپنے حصے کے پھول لے کر سب چلے جائیں گے ۔بس دیکھ کہیں تواپنے لیے آگ ہی آگ توجمع نہیں کررہا۔اس کی ماں نے اس ریگستان کی ٹھنڈسے بیتاب ہوکراس سے کہا تھا: جاؤآگ لاؤ۔بہت دیربعدوہ خالی ہاتھ لوٹا اور ماں کے حضوردست بدستہ عرض گزاری: ’’ماں! کہیں سے آگ نہیں ملی’’تب ماں نے تلخ ہو کر پکارا ‘’’جاکرجہنم سے ہی لے آتا۔’’توپھراپناسرخم کیااورعرض کی’’ماں وہاں بھی گیاتھا،میں نے وہاں کے نگراں سے کہا مجھے کچھ آگ درکار ہے، تب اس نے مجھے کہاجااپنارستہ لے، ہرانسان اپنی آگ دنیاسے خودلے کریہاں آتاہے۔ بہت سمجھایاتھالیکن اقتدارکے سرکش گھوڑے پربیٹھے ہرکسی کوکچلنے کاتکبردماغ میں ایسا بساہواتھاکہ سمجھانے والوں کاسرقلم کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی گئی۔بہت ہی قریبی دوست جن کی رفاقت نے انہیں ایسے مقام پر پہنچایا، ان کوبھی معمولی اختلاف پرایساالگ کردیاکہ ان کے جنازے پرشرکت توکجا،تعزیت میں ایک لفظ تک نہیں کہا۔جب اقتدارکا سنگھاسن ڈولنے لگا تو بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن جب کوئی منت ترلاکام نہ آیاتوتمام احسانات بھول کربھرے مجمعے میں بڑی معصومیت سے اپنے محسنوں کوموردِ الزام ٹھہرانے کا عمل شروع کردیالیکن جب یہ بلیک میلنگ کاسلسلہ درازہواتو بالآخران کو بتانا پڑگیا کہ رات کے اندھیرے میں اقتدارکوبچانے کیلئے کس حدتک پیشکش کی گئی۔ اقتدارکے حصول کیلئے اپنے حواریوں کو’’تخت یاتختہـ‘‘کی تربیت دے کر ملک دشمنی کی آگ میں جھونک دیا اور ملک میں ایسی انارکی پیداکردی گئی جوکام دشمن نہ کرسکے،اورایسی بھیانک تاریخ رقم کردی کہ’’ بندیال کی بندگی‘‘کرتے ہوئے بڑی سادگی سے یہ کہاکہ اگرمیرے ساتھ یہ عمل دہرایا گیا تو دوبارہ اس سے بھی زیادہ سخت ردّ عمل آئے گا۔ آج نہ صرف ان تمام سرکش حواریوں اور بدنصیبوں کایہ حال ہے کہ ان کے اشک باروالدین میڈیا کے سامنے ہاتھ جوڑ کراپنے بچوں کیلئے معافی طلب کررہے ہیں بلکہ ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھانے والے پارٹی کوہی نہیں بلکہ سیاست سے تائب ہونے کااعلان کررہے ہیں ۔ جناب اب بھی وقت ہے،نہ جانے مہلتِ عمل کب ختم ہوجائے۔زندگی کی ہمسفرہے موت۔ نہ جانے کہاں اچک لے۔کچھ بھی تونہیں رہے گا۔بس نام رہے گااللہ کا۔ اندھیرے لوٹ آتے ہیں تکبر کی سزا بن کر سبھی کو آزماتے پھِر رہے ہو کیوں خدا بن کر