اہم خبریں

اصلاح معاشرہ کے عناصر ترکیبی

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے کسی بھی دور میں وقت، حالات اور ماحول کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلام کے وضع کردہ سماجی اور معاشرتی رہنما اصول انتہائی متاثر کن ہیں۔ خصوصی طور پر معاشرے کے تین ایسے ستون ہیں جو افراد کی تربیت میں حد درجہ موثر کردا ادا کرتے ہیں اور وہ ہیں مسجد، مسکن اور مکتب۔ یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ ایک بچہ جب پروان چڑھ رہا ہوتا ہے اور اس کو ضرورت ہوتی ہے کہ حسن اخلاق اور روحانی بالیدگی کے موتیوں کی مالا اس کے گلے ڈال دی جائے تو اس دور میں اس کا 24/7 خاصہ تعلق انہیں تین مقامات سے ہوت اہے ۔ اگر ہم گلے شکوے اور ایک دوسرے پر الزام تھوپنے کی بجائے آج سے ہی اخلاص نیت کے ساتھ ان کی اصلاح کی طرف متوجہ ہوجائیں تو یقینا حوصلہ افزا نتائج برآمد ہوں گے۔

مسجد: اگر ہم دورِ نبویﷺ میں مسجد کی افادیت اور معاشرتی کردار پر غوروخوض کریں تو پتہ چلتاہے کہ مسجد مسلمانوں کا پارلیمنٹ ہاؤس تھا جہاں سے اسلامی ریاست کے امور کو چلایا جاتا تھا۔ مسجد ایک سپریم کورٹ کا درجہ بھی رکھتی تھی جہاں بیٹھ کر آقائے نامدار ﷺ فیصلے فرمایا کرتے تھے۔ مسلمانوں کا جی ایچ کیو مسجد تھی جہاں سے طاغوتی طاقتوں کی سرکوبی کیلئے لشکروں کو روانہ کیا جاتا تھا۔ مزید برآں مسجد نبوی ﷺ سے ملحق صفہ کا چبوترہ پہلی اسلامی یونیورسٹی تھی، جہاں سے حضور اکرم ﷺ کی سرپرستی میں تعلیم و تربیت اور تالیف وتدوین کے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جاتے تھے۔ مسجد مسلمانوں کے لئے اتحاد و یکجہتی کی علامت اور مرکز ہے ۔ آج ہمیں ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد کے نظام تعلیم و تربیت کی طرف بھرپور توجہ دیں۔ ان کو عظیم علمی اور روحانی بالیدگی کی آماجگاہ بنا دیں۔ مسجدوں کے انتظام و انصرام ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہیں لہٰذا اگر ہم چاہیں تو نسل نو کی علمی آگہی اور فکری اصلاح کے لئے ان مساجد کو احسن انداز میں استعمال کرسکتے ہیں۔ فکر آخرت کی بیداری اور اتحادِ امت کے لئے مسجد سے زیادہ موزوں جگہ کون سی ہوسکتی ہے لیکن اس تلخ حقیقت کا اعتراف ہمیں بہر کیف کرنا ہی پڑے گا کہ آج مسلم کمیونٹی میں مساجد اپنا حقیقی کردار کھوتا ہوا نظر آتی ہیں۔ کہیں کمیونٹی میں اختلاف اور جھگڑوں کا سبب مسجد، تو کہیں دنیا کی جھوٹی عزتوں کی لالچ میں دھنگا فساد اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے مسجد کا پلیٹ فارم استعمال ہوتا ہے۔ اسلام میں مسجد کی فضیلت کے حوالے سے ہمارے یہ کرتوت خدا کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف اور نسل نو کو مسجدوں سے متنفر کرنے کا سبب ہیں۔ علاوہ ازیں لوگوں کیلئے جگ ہنسائی کا بھی باعث ۔ اگر اس حوالے سے کہیں بھی کمزوریاں ہیں تو ہم کسی پر الزام تھوپ کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے بلکہ گریبانوں میں جھانک کر فکر آخرت کے ساتھ اصلاح احوال کی ضرورت ہے تاکہ یہ مراکز ہماری نسل نو کیلئے بہترین تربیت گاہ بن سکیں۔ بقول اقبال مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے رہ گئی رسم اذاں، روحِ بلالیؓ نہ رہی فلسفہ رہ گیا تلقین غزالی ؒ نہ رہی مسکن: معاشرے کا ایک اہم ستون ہمارا مسکن یعنی گھر ہے جو کہ بچے کی پہلی درسگاہ کا درجہ رکھتا ہے۔ جو نقوش بچوں کے ذہنوں کی کوری پلیٹوں پر گھر کا ماحول ثبت کرتا ہے، بسا اوقات عمر بھر کے حوادثات زمانہ بھی انہیں مٹا نہیں سکتے۔ گھروں کے ماحول کو اسلامی روایات کے مطابق ڈھالنا ہماری بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے کیونکہ قرآن پاک نے حکماً ارشاد فرمایا ہے کہ ’’اپنے آپ کو اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچالو‘‘ گھر کی چار دیواری کے اندر ہماری آزاد حکومت ہے۔ معاشرے کی اصلاح کیلئے اس ستون کو صحیح بنیادوں پر استوار کرنا ازحد ضروری ہے۔ میاں بیوی سے ایک گھر کا آغاز ہوتا ہے اور اسلامی تعلیمات انہیں انتہائی ذمہ دارانہ زندگی گزارنے کی تلقین کرتی ہیں۔ بچوں کو قابلِ رشک مسلمان بنانے کے لئے عمدہ اخلاق اور اچھی عادات کا درس دینے کی ابتدائی ذمہ داری والدین پر ہی عائد ہوتی ہے، جس کیلئے کل وہ بارگاہِ الٰہی میں جوابدہ ہوں گے۔ سوشل میڈیا نے آج ہماری زندگی کو بہت آسان کردیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا غلط استعمال بچوں کے اخلاق اور کردار کے بگاڑ کا سبب بھی بن رہا ہے لہٰذا گھروں میں اس کے صحیح استعمال پر توجہ دینے کی ذمہ داری بھی ماں باپ پر عائد ہوتی ہے۔ کہ کہیں اس کا غلط اور بے جا استعمال بچوں کے کچے ذہنوں کو خرافات اور فحاشی کی طرف مائل نہ کردے۔ بعض اوقات ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے بچے بگاڑ کا شکار ہوتے ہیں اور اس وقت ہماری یہی خواہش ہوتی ہے کہ کسی پیر صاحب کے ایک تعویذ سے راتوں رات وہ بچہ اصلاح یافتہ ہوجائے۔ کوشش تو اچھی ہے لیکن اکثر و بیشتر غیر فطری کوششیں ثمر بار نہیں ہو اکرتیں۔ کیونکہ کبھی کبھی وہ مکافات عمل ہوتا ہے اور یہ جلتی آگ پر پانی کا دیگچہ رکھ کر اس کے برف بن جانے کے لئے تعویذ لینے کے مترادف ہوگا۔ تعویذ کا جواز اپنی جگہ لیکن اپنی ذمہ داریوں سے فارغ ہونے یا ان پر پردہ ڈالنے کے لئے بہانہ کے طور پر نہیں۔ مکتب: بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے درسگاہ کی اہمیت واضح ہے۔ اچھے تعلیمی اداروں کا انتخاب بچوں کے مستقبل کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ برطانیہ میں بھی مختلف مذاہب کے لوگوں کو Faith Schools بنانے کی اجازت ہے۔ اس سے بہتر کیا ہوگا کہ یہاں کے Curriculum کے مطابق معیاری درسگاہوں کا قیام عمل میں لایا جائے لیکن ہمیں اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ یہاں کی درسگاہوں میں بے شمار خوبیاں ہیں جو حقیقی معنوں میں اسلام کا تقاضا ہے مثلا ً حصول علم پر محنت، سچ بولنا، مذہبی اور لسانی حقوق کا تحفظ، قانون پر عملداری، امانت و دیانت، پھر ذرا سی غلطی کا بھی احساس کرتے ہوئے sorryاور چھوٹے سے چھوٹے احسان پر بھی Thank you۔ البتہ عورت اور مرد کے باہمی تعلق کے حوالے سے مغرب کا نظام سماج اسلامی تعلیمات سے بہت سے پہلوؤں میں مختلف ہے۔ اگرچہ سارے الہامی مذاہب میں شرم و حیا اور عفت و عصمت کو خاص اہمیت دی گئی۔ اسلام کی تعلیمات اس حوالے سے بہت واضح ہیں۔ لیکن مغربی معاشرے سیکولر اور دین بیزار ہونے کی وجہ سے ان تعلیمات کو بالکل چھوڑ چکے ہیں۔ اس کا اثر تعلیمی اداروں پر بھی ہوتا ہے۔ البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ اگر گھر اور مسجد کا ماحول انتہائی موثر ہو تو ہم نے دیکھا ہے کہ بے شمار طلباء اس نظام تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے کے باوجود اپنے دامن کو فحاشی اور عریانی کے چھینٹوں سے داغدار نہیں ہونے دیتے۔ اس طرح مساجد، اپنےگھروں اور تعلیمی درسگاہوں کے نظام میں بہتری لانے سے ہی ایک اچھا معاشرہ وجود میں آسکتا ہے۔

متعلقہ خبریں