گزشتہ ماہ کی 2تاریخ کو میرے کالم کا عنوان تھا ’’اسٹیبلشمنٹ کا نیا گھوڑا‘‘اس سے ایک اقتباس دیکھئے پھر آگے بات کرتے ہیں‘ ‘ امید کا ایک در کھلتا ہے تودو بند ہوجاتے ہیں اور دو در وا ہوں تو چھ بند ہوجاتے ہیں اور ساتواں در داستانوں میں بھی کوئی کھول پایا تو پتھر کا بن گیا۔یہ الگ بات اسٹیبلشمنٹ نے جو ایک نیا در وا کیا ہے اس سے جہانگیر خان ترین برآمد ہوں گے کہ وہ اپنے آپ میں تحلیل ہوجائے گی اور آخر کو اس کاوشوں تک مٹ جائے گا۔تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آمر ضیاء نے گیارہ سال پاکستان پیپلز پارٹی کو بیخ و بن سے اکھیڑ دینے کی کوشش کی مگر اس کا ایک بال بھی بیکا نہ کرسکااور وہ ایک ناگہانی حادثے کی نذر ہوئے تو شہید بھٹو کی بیٹی جمہوریت کا سورج بن کر طلوع ہوئی،پھر اس سورج کا اچانک سے غروب ہونا تھا کہ پی پی پی اپنے وارثوں کے ہاتھوں دفن ہو گئی ۔شہید نے شہادت سے قبل جو میثاق جمہوریت کیا تھا اس نے اس کے نواسے کو اس جتنا رکھا ہوا ہے کہ ایوان اقتدار میں کھڑا ہوکر اپنے نانا کے طرز خطابت کی یاد تازہ کرسکے اور یہ اس وقت تک باقی ہے جب تک اس کامیکائولی باپ زندہ ہے ،جسے موجودہ متعفن نظام کو چلائے رکھے جانے کے گر آتے ہیں ۔جس نے بے نظیر شہید کے قاتلوں کے کھڑے مٹانے کی ہر جستجو کا کامیاب کیا،جس نے شہید کی میت پر کھڑے ہوکر ’’پاکستان کھپے‘‘کا نعرہ بلندکیا اور اسی نعرے کے نیچے ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پیپلز پارٹی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کردیا،جو کام آمریت سے نہ ہوسکا وہ آمریت کے ہاتھوں انجام پذیر ہوا۔
جہانگیر خان ترین اسٹیبلشمنٹ کے لئے نیا گھوڑا سہی قومی سیاست کا میدان کا تو پرانا سدھا ہوا توسن تیز طرار ہے ۔مگر اس کی پیٹھ پر چلائے جانے والے تیر کبھی نشانے پر لگے نہیں ۔وہ لوگ جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ جہانگیر خان ترین کے پاس جادو کی کوئی چھڑی ہے جو تحریک انصاف کے حصے بخرے کرکے رکھ دے گی وہ یاد رکھیں یہی ترین اپنے حلقے سے اپنے بیٹے کو نہیں جتوا سکا تھا۔’’ جہانگیر ترین تو تحریک انصاف کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے ،ٹکڑے ٹکڑے تو کیا اسے دولخت بھی نہ کرسکے ،علیم خان کی ساری تپسیا بھی بے نیل و مرام ٹھہری،عون چوہدری کی دولت بھی کچھ نہ کر سکی اور عمران خان کی حکومت توڑنے کا کارہائے نمایاں سر انجام دینے کے بعد موجودہ حکومت بھی پی ٹی آئی میں شگاف تو کیا معمولی سوراخ بھی نہ ڈال سکی۔یہ کارنامہ اوپر والوں نے اس طرح کردکھایا کہ تحریک انصاف کولیراں لیراں کرکے رکھ دیا اس کے وجود کو نیل و نیل کردیا اور اس کے سرکردہ رہنمائوں ،وزیروں ،مشیروں سے معافیوں ،تلافیوں کی پریس کانفرنسز کرواکے اپنے تئیں خس کم جہاں پاک ہونے کا فریضہ ادا کردیا اور اب اس کے کارکنوں کو ،جاں نثاروں کو سبق سکھانے پر تلے ہیں ۔خبر نہیں کون سا دستور حیات ہے جو دلوں پر نقش تصویریں اور ذہنوں پر مرتسم اپنے قائد کی محبت کے لفظ مٹا سکتا ہے ۔کیا اس کے لئے جہانگیر خان ترین اور علیم خان کی بے بہا دولت استعمال کی جائے گی ،اس میں کوئی شک نہیں کہ ترین صاحب نے الیکشن میں کامیابی کے لئے اپنے حلقے کے نوجوانوں کو موٹرسائیکلز دیئے تھے اور اگر وہ چاہیں تو اب کی بار انہیں کاریں مہیا کر سکتے ہیں مگر ووٹوں کے ڈبوں سے نفرتیں ہی نکلیں گی۔اس پر گمان یہ کہ اوپر والے ان کی کامیابی کے پروانے جاری کروا دیں گے ؟ ایسا ممکن ہے ، ممکن ہے مگر کتنے ڈبوں کے پیٹ بھر سکیں گے اوپر والے ، یہ اوپر والے فرشتوں کی اتنی بڑی کمک تو نہیں رکھتے جو اصلی اوپروالے (اللہ)کی مدد کو روک سکیں۔جہانگیر خان ترین کو اسٹیبلشمنٹ نے طاقت کا کون سا ایسا سپلیمنٹ دینا ہے جو انہیں شکست کے خواب سے بھی محفوظ و مامون رکھے گا۔ اسٹیبلشمنٹ کا جہاں تک تعلق ہے اس کے اصطبل میں ایک گھوڑا نہیں ہوتا بلکہ ایک سے بڑھ کر ایک گھوڑا ہوتا ہے ۔ وہ گھوڑے جو تکبر کے چبوتروں پر ایستادہ ہوتے ہیں ان کے گرانے میں بھی زیادہ دقت پیش نہیں آتی کہ ان کے پائوں تلے آہنی زینے نہیں ریت رکھی جاتی ہے۔اگر ان گھوڑوں نے کپتان کے استکبار سے کچھ نہیں سیکھا تو ان سے بڑا بھولا بھالا کوئی نہیں ۔وقت نے کپتان کے ہاتھ میں عوام کی طاقت کا ہتھوڑا ضرور تھمایا تھا جو ہر ایک کے ہاتھ میں نہیں پکڑایا جاتا مگر تکبر کی مٹی میں گندھے عمران خان نے وہ ہتھوڑا اپنے ہی پائوں پر مار دیا اور ابھی بھی اس زعم میں مبتلا ہے کہ پائوں کٹے نہیں ،دراصل اسے گردن جھکا کر نیچے دیکھنا اورکردن گھما کر پیچھے دیکھنا نہیں آتا ۔جس دن اسے یہ آگیا وہ دن اس کے مصائب و آلام ٹلنے کا دن ہوگا مگر تاحال راستے کی دھول لئے یہ تکبر کے گھوڑے پر سوار ہے اسے آگے پیچھے کچھ دکھائی نہیں دے رہا ،یہ ابھی بھی اس گھمنڈ میں ہے کہ اس قوم کا نجات دہندہ تنہا یہی ہے ۔مگر یہ یاد رکھے جس کو دوست دشمن کی پہچان نہیں ہوتی ،جسے دشمن سے ہاتھ ملانا نہیں آتا اس سے دوست بنانے میں ہمیشہ کوتاہی سرزد ہوجاتی ہے اور یہی کوتاہی ہے جو اس کے جاں نثاروں کو قتل گاہوں سے علم چننے کے راستے کی دیوارہے عمران خان کا سب سے بڑا دشمن وہ تکبر ہے جو اب بھی اسے مڑ کر پیچھے نہیں دیکھنے دیتا ،اس کی گردن کے بل ابھی نہیں گئے اور جہانگیر خان ترین، انہیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ان سے زیادہ دولت اس کے پاس ہے جو ہر بار ملک چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے اور اس کی سیاسی سپاہ بھی چاروں شانے چت ہوجاتی ہے۔