پاک فوج یا ادارہ عسکریہ کو ملک پاکستان کا سب سے منظم، ترقی یافتہ اور طاقتور ترین ادارہ سمجھا جاتا ہے جس کے تین بڑے باوردی حصے یا اعضاء ہیں جو پاک آرمی بری، پاک آرمی بحریہ اور پاک آرمی فضائیہ پر مشتمل ہیں، جس میں الگ سے پاک میرینز، نیشنل گارڈز، سول آرمڈ فورسز،انٹر سروسز انٹیلی جنس اور پاک رینجرز وغیرہ بھی شامل ہیں۔ دنیا بھر میں پاکستان چھٹی بڑی فوجی قوت ہے جس کی فوج میں 560000 حاضر فوجی, 550000ریزرو فوجی 185000نیشنل گارڈز، 16509 سویلین فوجی اور 560 سے زیادہ تربیت یافتہ لڑاکا پائلٹ موجود ہیں۔
چونکہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ’’ایٹمی قوت‘‘ بھی ہے، تو پاکستان میں عوام فوج کو بڑی عزت و وقار کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ہر محب وطن شہری پاک فوج سے ’’عقیدت‘‘کی حد تک محبت کرتا ہے جس وجہ سے پاکستان میں رضاکاروں اور ریٹائرڈ فوجیوں کو بھی لوگ عموماً فوج ہی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ بلکہ پاکستانی فوج خالصتاً ایک پیشہ ور فوج ہے جس کی تعلیم و تربیت اور فوجی مشقیں وغیرہ نہ صرف اندرون ملک سال بھر جاری رہتی ہیں بلکہ پاکستان اقوام متحدہ کی امن فوج میں مختلف جنگ زندہ ممالک میں خدمات انجام دینے کے لئے بھی سب سے بڑی تعداد میں اپنے فوجی بھیجتا رہا ہے! اس مد میں پاکستان نے 1960 ء سے لے کر آج تک دنیا میں امن قائم کرنے کے لئے اقوام متحدہ کی امن فوج میں بھرپور حصہ لیا۔ پاکستان نے اقوام متحدہ کے 46 مختلف مشنز میں مرد و خواتین پر مشتمل اپنے 2 لاکھ فوجی کانگو، نیوگوانیا، کمبوڈیا، صومالیہ، چیچنیا، بوسنیا ہرزگوانیا، ہیٹی، عراق، لیبیا اور یمن وغیرہ جیسے ممالک میں بھیجے جہاں پاک فوج کے جوان قابل فخر خدمات انجام دیتے رہے۔ اس کے علاوہ پاک فوج کی خدمات پاکستان کے تعلیمی نظام میں بھی فقید المثال ہیں جس میں 200 سے زیادہ بحریہ، NUST, NUML, NUMS, NUTECH آرمی پبلک سکولز، کالجز اور یونیورسٹیاں 8 لاکھ سے زیادہ بچوں کو جدید خطوط پر مبنی عالمی معیار کی تعلیم دے رہی ہیں جس میں 46 فیصد سویلین بچے شامل ہیں اور جن پر مساوی تعلیمی نظام کی لاگت کے مقابلے میں 50فیصد کم لاگت آتی ہے۔ آرمی انجینئرنگ کالجز، بحریہ سکول و کالجز، آرمی میڈیکل کالجز، ایئر یونیورسٹیز، کمپیوٹر، آرٹیفیشل انٹیلی جنس، ورچول، آن لائن سٹڈیز، ایرو اسپیس، سوشل، مینجمنٹ اور میڈیکل سائنسز کے تعلیمی اداروں میں بھی سویلینز کے بچوں کو داخلے لینے کی کھلی چھٹی ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں ژوب، سوئی، چمن، خضدار، لورالائی، باغ، لنڈی کوتل اور پاراچنار میں بھی سکولوں و کالجوں کی تعمیر شامل ہے۔ ان اداروں میں 95 فیصد اساتذہ اور ملازمین بھی سویلین ہوتے ہیں۔ پاک فوج نے معذور بچوں کے لئے 25 خصوصی تعلیمی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ فوجی فائونڈیشن وظائف دیتی ہے۔ پاک فوج کے زیر انتظام بعض تعلیمی اداروں میں نادار اور ضرورت مند بچوں کو قیام و طعام تک مفت دیا جاتا ہے! پاک فوج سرحدوں کی حفاظت، قدرتی آفات، نقص امن، ایمرجنسی اور اپنی جانوں کی صورت میں ہمارے قابل فخر فوجی جوان جانوں کے جو اجتماعی نذرانے پیش کرتے ہیں شائد ان کا یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستانی فوج صرف ایک ’’آرمی چیف‘‘کا نام نہیں ہے بلکہ ’’پاک فوج‘‘ایک فوجی سپاہی، لاس نائیک، صوبیدار یا حوالدار سے لے کر کیپٹن، میجر، کرنل، بریگیڈیئر اور جنرل تک ایک ’’پاکستان‘‘کا نام ہے جس کی جڑیں پشاور، کراچی اور جہلم ہی نہیں پورے پاکستان کے ہر شہر، ہر گائوں اور کسی نہ کسی رشتے کی وجہ سے ہر گھر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ حیرت ہے…!! جب کچھ لوگ ان تمام ’’فوجی خدمات‘‘کو پس پشت ڈال کر اسٹیبلشمنٹ کے پاکستانی سیاست میں اثر و رسوخ یا’’مداخلت‘‘کے حوالے سے بات کرتے ہیں، کسی ریٹا ئرڈ فوجی یا جنرل بوجوہ وغیرہ کو کسی دوسرے ملک میں ڈھٹائی کے ساتھ گالی دیتے ہیں، خصوصی طور پر جب وہ اپنے بیوی بچوں کی معیت میں ہو تو وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ اپنے ’’باپ‘‘کو گالی دیتے ہیں۔ ایسے واقعات مقافات عمل کا نتیجہ نہیں ہوتے بلکہ یہ ہماری اس تربیت کا منطقی نتیجہ ہوتے ہیں جس کی پرورش ہم اس مغالطے میں کرتے ہیں کہ شائد حقیقی ’’تبدیلی‘‘ اسی کو کہتے ہیں۔ پاکستان کی عوام وطن کی 8 لاکھ فوج سے محبت کرتی ہے ناکہ کسی ایک سابقہ آرمی چیف سے کرتی ہے۔ ایک شخص کو گالی دے کر تم پوری فوج کو شرمسار نہیں کر سکتے۔ یہ فقط تمہارے انفرادی اور اخلاقی معیار کا سوال ہے، جو ’’ہائے نی کرنیل نی جرنیل‘‘سے محبت کو کم نہیں کر سکتا!