باباجی دن میں کئی مرتبہ ٹیلیفون کرکے حالات دریافت کرتے ہیں حالانکہ مجھ سے کہیں زیادہ بہتران کاحالات کی نبض پرہاتھ رہتاہے۔ پندونصائح کے ساتھ تربیت کرنے کافن جانتے ہیں لیکن کیاکروں جب کبھی تجزیہ کرنے بیٹھتاہوں تو مجبورومظلوم کشمیریوں کی آہوں اورالمناک واقعات سے لبریزان کے پیغامات اورارضِ وطن میں آئے دن کے المناک واقعات،غربت اور مہنگائی کے ہاتھوں پریشان افرادکی خودکشیاں، ارضِ وطن میں جاری سیاسی انتشار،میرے اردگرد میرامحاصرہ کئے ہوئے ہیں۔ان حالات میں الفاظ بھی روٹھ جاتے ہیں۔ جونہی شام ڈھلتی ہے میں محاسبے کے لئے تیارہو جاتاہوں اپنی بے چینی کابڑی بے بسی سے اظہاربھی کرتاہوں۔کچھ کرنے کے لئے بے تاب!مجھے ان کی کڑی تنقیدبھی اچھی لگتی ہے۔
ہما ری حالت توایسے جاں بلب مریض جیسی ہوگئی ہے جوبڑی مشکل سے رینگتاہوااپنے معالج کے پاس توپہنچ جاتا ہے لیکن اس میں اتنی ہمت باقی نہیں کہ وہ یہ بھی بتاسکے کہ اس کو کیاتکلیف یاکیابیماری ہے۔معالج کے پوچھنے پر اس کی آنکھوں سے آنسورواں دواں ہوں اورزخموں سے چورجسم کے ہراعضاکی طرف اشارہ کرے۔ سالوں پرانی بیما ریوں کا کرب اورسارے جہاں کادردسمٹ کراس کے چہرے سے عیاں ہولیکن بتانے کے لئے اس کی اپنی زبان اس کاساتھ چھوڑ دے۔ ماسوائے سسکیوں،آہوں اورکراہوں کے درمیان صرف اشارے سے کبھی سرکی طرف،کبھی دل پرہاتھ رکھ کراورکبھی دونوں ہاتھوں کواپنی آنکھوں پررکھ کرزورسے روناشروع کردے۔ جب معالج تھوڑاحوصلہ دلائے توپھراس کی جانب ایک عجیب سی امیداورآس کے ساتھ آنکھوں ہی آنکھوں میں امیداوررحم کی درخواست کرے۔ یہی حال آج کل ان لوگوں کاہے جن کے سینے میں اس مملکت خدادادپاکستان کادردآبلہ بن کرایک ناسورکی شکل اختیار کرچکاہے اوردردکی شدت سے ان کوایک پل چین میسرنہیں اور دکھ کی بناپران کی آنکھوں سے نینداڑچکی ہے۔نیم شب جب وہ اپنے اللہ کے حضورسجدہ ریزہوتے ہیں تو ان کی ہچکی بندھ جاتی ہے۔اللہ سے رحم اورامیدکے ساتھ پاکستان کے لئے شفااورسلامتی کی عاجزانہ دعاؤں کے سا تھ اپنے ان شہداء کاواسطہ دیتے ہیں جواس ملک کی خاطرقربان ہو گئے۔میراوجدان تواس وقت مجھ کوشدیدبے چین کردیتاہے اورسانس لینا دشوارہوجاتاہے جب کبھی یہ سوچتاہوں کہ ان سوا لاکھ بے گناہ بیٹیوں اوربہنوں کوروزقیامت کیاجواب دوں گاجن کواس مملکت پاکستان کی خاطرمشرقی پنجاب میں ہم چھوڑآئے تھے،جوآج بھی آسمان کی طرف منہ کرکے اپناقصورپوچھتی ہوں گی!صرف مشرقی پنجاب کے ان پانچ ہزار سے زائدکنوؤں کاحال کس قلم سے کیسے لکھوں جن میں مسلمان بچیاں اپنی آبرو بچانے کے لئے کودگئیں۔ان ہزاروں بچوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کلیجہ منہ کوآتاہے جن کوان کے ماں باپ کی آنکھوں کے سامنے تلواروں اور بھالوں کے ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کردیاگیا۔آج بھی لاکھوں افراداپنے پیاروں کویادکرکے چپکے چپکے اپنے اللہ کے حضوراشک بارہوکر اس پاکستان کے لئے ان کی قربا نی کی قبولیت کی دعائیں کرتے ہیں! لکھتے رہے جنوں کی حکایات خوں چکاں ہرچند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے یہ حالت صرف ان لوگوں ہی کی نہیں جنہیں میرے رب نے حالات وواقعات کاادراک دیاہے۔وہ کسی بڑی آندھی یا طوفان کے آنے سے پہلے ہی خوفزدہ ہوجاتے ہیں اورفوری طورپراپنے تیئں ان خطرات سے آگاہ کرناشروع کردیتے ہیں،منادی کرناشروع کردیتے ہیں۔دن رات اپنے تمام وسائل بروئے کارلا تے ہوئے دامے درمے اورسخنے اسی کام میں لگ جاتے ہیں کہ کسی طرح ان خطرات کاتریاق کیاجائے۔ آج کل ذراسی سوجھ بوجھ رکھنے والاشخص بھی حیرت میں گم چہرہ لئے ایک دوسرے سے یہی سوال کرتا پھررہاہے، کیاہونے والاہے اوراب کیابنے گا؟ ہمارا مستقبل کیاہے،ہم کہاں کھڑے ہیں؟ایک دوسرے سے کوئی اچھی خبرکی تمنادل میں لئے ہوئے،ایک امیدکی شمع آنکھوں میں سجائے جیسے بسترمرگ پرپڑے مریض کے لواحقین کسی معجزے کی آرزو میں کسی حکیم،حاذق سے مرض کے تریاق ملنے کی نویدکے لئے بے تاب ہوتے ہیں یاکسی صاحب نظرکی دعاکے محتاج جس سے مریض کی جاں بچنے کی آس ہوجائے لیکن شائداب مریض کوکسی حکیم کے تریاق،کسی ڈاکٹرکی دوایاپھر کسی صاحب نظرکی دعاسے زیادہ کسی ماہرسرجن کی ضرورت ہے اورشا ئدآپریشن میں جتنی دیرہوگی،مریض کی جان بچنے کے ا مکانات اتنے ہی مخدوش ہوجائیں گے،مریض کی حالت اتنی ہی بگڑتی چلی جائے گی،مرض اتناہی پھیلتاجائے گا،آپریشن اتناہی لمبااورتکلیف دہ ہوجائے گا۔ مجھ سے مایوسی کاگلہ بالکل نہ کریں اورنہ ہی میرامقصدبلا وجہ آپ کوڈراناہے لیکن آ پ ہی مجھے یہ بتائیں کہ آپ کاکوئی عزیزجوآپ کوبہت ہی پیاراہووہ کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوجائے، آپ اس کے بہترعلاج کے لئے دنیاکے بہترین ڈاکٹر،بہت ہی سمجھدار طبیب یابڑانامورحاذق تلاش کرنے میں دن رات ایک کردیں گے اوراس کی زندگی بچانے کے لئے اپنی توفیق سے بڑھ کرخرچ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کریں گے۔یہ تمام وسائل مہیاہونے کے بعدآپ سجدے میں روروکراپنے عزیزکی شفایابی کے لئے اپنے معبودکواس کی تمام جملہ صفات کاواسطہ بھی دیں گے تب جاکرآپ کے دل کواطمینان آئے گا کہ وہی شفاکامنبع ہے،اس سے بہترکون ہے جوہما ری دعاؤں کوشرف قبولیت دے گامگرمجھے ایک خوف جینے نہیں دے رہاکہ جب ارض وطن کے شہدا کرنل شیرخان کی معیت میں ان تمام افرادکے خلاف کٹہرے میں کھڑے انصاف کامطالبہ کررہے ہوں گے جن کی 9مئی کو سرعام تذلیل کی گئی تواس وقت ہمارے پاس کیاجواب ہوگا؟ایک لمحے کے لئے اپنے دل پرہاتھ رکھ کریہ ضرورسوچیں کہ اس معاملے پرخاموش رہنے والے بھی محاسبے سے نہ بچ سکیں گے! وہ لوگ خوف میں لپٹی خبر بناتے تھے وہ اہل شہر کو گویا نڈر بناتے تھے تمہیں تو ناز ہے لکڑی کی اس حویلی پر سنا ہے عاد پہاڑوں میں گھر بناتے تھے