٭ …8 اکتوبر کو انتخابات گول، انتخابات میری مرضی سے ہوں گے، آصف زرداری کا بھی اعلانO کراچی، 15 جون کو میئر و ڈپٹی میئر کا انتخاب، جماعت اسلامی اور پیپلزپارٹی میں سخت مقابلہ، انتخاب ہاتھ اٹھا کر ہو گاO قومی اقتصادی کونسل: ملک بھر میں 8 بجے رات دکانیں بند کرنے کا فیصلہ، تاجروں نے انکار کر دیاO بلوچستان، وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کونسل کے اجلاس سے غیر حاضر، وزیر ترقیاتی امور نور محمد کی شرکت! وزیراعلیٰ نے نور محمد کی وزارت ختم کر دیO قومی اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی کو5 سال پورے ہو جائیں گےO موجودہ اسمبلی نے 13 اگست کو حلف اٹھایا تھا۔ قومی اسمبلی کی مدت ایک سال بڑھانے کی تیاریاں، ہنگامی صورتحال کا اعلان ضروری ہو گا، قومی اسمبلی قانون سازی کرے گیO فرح گوگی کے 117 بنک اکائونٹس کا انکشاف، چار اکائونٹس غیر ملکی ہیں، ساڑھے چار ارب کی ٹرانزیکشن سامنے آ گئی، نیب نے 8 جون کو میاں بیوی کو طلب کر لیا، گھر پر چھاپہO سپریم کورٹ، ’’فوج کالیں کون ریکارڈ کرتا ہے! نجی بات چیت افشا کرنے والے وزراء کو برطرف کرنا چاہئے تھا، ججوں کی تضحیک کی گئی‘‘ چیف جسٹس برہمO شاہ محمود قریشی ایک ماہ کی نظر بندی ناجائز قرار، ہائی کورٹ کے حکم پر اڈیالہ جیل سے رہاO الیکشن کمیشن نے 47 ارب روپے مانگ لئےO تحریک انصاف، مزید سابق ارکان اسمبلی چھوڑ گئےO پرویزالٰہی کو جیل میں سہولتیں دینے کا حکم، لاہور ہائی کورٹO کراچی‘ بجلی مزید مہنگیO دفاعی اخراجات کم کر دیئے جائیں گے: وزیردفاعO آئی ایم ایف کے بغیر بجٹ آ رہا ہےO کوئٹہ، عمران خان کے خلاف کیس کی پیروی والا وکیل قتل، وکلاء کی ہڑتالO بجٹ میں الیکشن کے لئے رقم رکھی جا رہی ہے، خرم دستگیر۔
٭…8 اکتوبر کو انتخابات کامعاملہ مزید پیچیدہ ہو گیا ہے۔ وفاقی وزراء خواجہ آصف، رانا ثناء اللہ، احسن اقبال کے بیانات کے مطابق انتخابات غیر ضروری ہیں، پہلے معاشی استحکام پیدا کیا جائے، آصف زرداری نے مزید ابہام پیدا کر دیا ہے کہ انتخابات اس وقت ہوں گے جب میں کرائوں گا۔ الیکشن کمیشن نے انتخابات کے لئے 47 ارب روپے مانگ لئے ہیں۔ وفاقی وزیر خرم دستگیر نے کہا ہے کہ بجٹ میں رقم رکھی جا رہی ہے تاہم کھل کر نہیں بتایا کہ انتخابات کب ہوں گے؟ آیئے ذرا آئین دیکھتے ہیں۔ ٭…آئین میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ قومی اسمبلی کی مدت پانچ سال ہو گی۔ موجودہ قومی اسمبلی کے انتخابات 25 جولائی 2018ء کو ہوئے تھے۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ 26 جولائی کو نئی اسمبلی کے انتخابات ناگزیر ہو جائیں گے۔ موجودہ اسمبلی کے ارکان نے 13 اگست 2018ء کو حلف اٹھایا تھا۔ نئی اسمبلی کی حلف برداری بھی اسی تاریخ کے لگ بھگ ہونی چاہئے۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ آٹھ اکتوبر کے انتخابات کی تاریخ کیسے دے دی گئی؟ یہ تاریخ پی ڈی ایم کی حکومت کی کابینہ نے مقرر کی تھی مگر اب مولانا فضل الرحمان نے نیا تنازع کھڑا کر دیا ہے کہ انتخابات سے پہلے معاشی استحکام ضروری ہے، اور یہ کہ انتخابی تاریخ کا فیصلہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتیں (13) مل کر کریں گی! جلتی پر مزید تیل آصف زرداری نے ڈال دیا ہے کہ انتخابات اس وقت ہوں گے جب میں کرائوں گا۔ یہ اعلان بقائمی ہوش و حواس دیا گیا ہے۔ اس میں نوازشریف، پی ڈی ایم، تحریک انصاف حتیٰ کہ سپریم کورٹ، ہائی کورٹوں اور الیکشن کمیشن کو کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ لاہور میں مختصر قیام کے دوران تحریک انصاف کو چھوڑنے والے بعض ارکان کے علاوہ جنوبی پنجاب سے بعض اہم سیاسی رہنمائوں کی پیپلزپارٹی میں شمولیت سے آصف زرداری کے اندازے کے مطابق آئندہ وفاقی حکومت پیپلزپارٹی کی اور وزیراعظم بلاول زرداری ہو گا۔ آصف زرداری کے بعد پارٹی کے ایک ’’میاں مٹھو‘‘ عہدیدار نے بھی بلاول کے وزیراعظم بننے کا اعلان کر دیا ہے۔ مگر بات محض بلاول کے وزیراعظم بننے کی نہیں، زرداری صاحب کا یہ اعلان اہم ہے کہ انتخاباتا تب ہوں گے جب میں کرائوں گا! موجودہ صدر عارف علوی کو 9 ستمبر کو پانچ سال کی مدت پوری ہو جائے گی۔ 8 اکتوبر کو انتخابات کے لئے تمام قومی و صوبائی اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہوں گی۔ آئین میں نائب صدر کی کوئی گنجائش نہیں، پھر نیا صدر کیسے منتخب ہو سکے گا؟ اس مسئلہ کا حل یہی ہے کہ قومی اسمبلی قانون بنا کر موجودہ اسمبلی کی مدت میں ایک سال کا اضافہ کر دے۔ آئین کے مطابق نئے صدر کا انتخاب60 دنوں میں قومی اسمبلی، سینٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیاں مل کر کرتی ہیں۔ پنجاب اور پختونخوا اسمبلیوں کے انتخابات کرا لئے جائیں اور آصف زرداری کو صدر منتخب کر لیا جائے۔ پھر وہ اپنی مرضی سے عام انتخابات کرا سکتے ہیں! مگر کیا حکومت میں شامل ن لیگ، ق لیگ، جے یو آئی اور دوسری پارٹیاں یہ سب کچھ ہونے دیں گی۔ منصوبے تو نوازشریف کو واپس لا کر کسی طرح مقدمے ختم کر کے دوبارہ حکومت میں لانے کے بن رہے ہیں۔ انتخابات کے لئے ٹکٹوں کا آمنا سامنا ہو گا! ایک مثال آزاد کشمیر کے ضمنی انتخاب میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے مقابلے کی ہے۔ آصف زرداری جنوبی پنجاب سے پیپلزپارٹی کی بھاری کامیابی کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ یہ ساری باتیں پیچیدہ اور بیزار کن ہیں۔ آصف زرداری سب کچھ کر سکتے ہیں صرف نوازشریف کا معاملہ اہم ہے۔ جو واپس آ کر پاکستان کی سیاست میں ہنگامہ خیزی پیدا کر سکتے ہیں، ان کی آمد پر مشہور مزاحیہ شاعر انشاء اللہ انشا کا شعر یاد آ رہا ہے کہ ’’دیوار پھاندنے میں دیکھو گے کام میرا!…دَھم سے آ کہوں گا صاحب! سلام میرا!‘‘ ٭…عدالت کا حکم ہوا ہے کہ چودھری پرویزالٰہی وڑائچ کو جیل میں سہولتیں فراہم کی جائیں۔ اس کا مطلب سمجھ میں نہیں آ رہا۔ ان سہولتوں کی وضاحت موجود نہیں۔ سہولتیں تو پہلے ہی قیدیوں کو بہت دی جاتی ہیں۔ انن میں رہائش کپڑا، کھانا، حجامت کی سہولتیں مفت ملتی ہیں۔ جیل کے اندر مکمل تحفظ ملتا ہے، البتہ چودھری صاحب کو گھر سے کھانا منگوانے کی سہولت سے انکار کر دیا گیا تھا۔ شائد وہ بحال ہو گئی ہو! اتفاق کی بات کہ چودھری صاحب جب جنرل پرویز مشرف کے زیر سایہ پنجاب کے وزیراعلیٰ تھے تو انہوں نے صوبے کی جیلوں میں کھانے کا معیار بہت اچھا بنا دیا تھا۔ ہفتے میں تین دن گوشت کے علاوہ دوسری اچھی خوراک ملنے لگی۔ باہر بھوکے پیاسے بے روزگار افراد ان سہولتوں کو رشک سے دیکھنے لگے۔ اب چودھری صاحب بھی وہی کھانا کھا رہے ہیں جسے انہوں نے معیاری بنا دیا تھا۔ پھر شکائت کیسی؟ ٭…وزیردفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ بجٹ میں دفاعی اخراجات کم کر دیئے جائیں گے۔ دفاعی اخراجات تو پہلے ہی کم کئے جا چکے ہیں۔ پاک فوج نے رضا کارانہ اخراجات کم کر کے پچھلے برس اچھی خاصی رقم وزارت خزانہ کو واپس کی تھی۔ ملک میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے، روزانہ فوجی افسروں اور جوانوں کی شہادتوں کی خبریں آ رہی ہیں، ڈالر کی قیمت آسمان تک پہنچ رہی ہے، ایسے میں اخراجات میں کمی؟ ٭…سپریم کورٹ نے عوام خاص طور پر ججوں کی فون پر نجی گفتگو ریکارڈ اور مشتہر کرنے کا سخت نوٹس لیا ہے۔ چیف جسٹس نے انتظامیہ کو انتباہ کیا ہے کہ وہ عدلیہ کے معاملات میں داخل نہ دے اور حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ اس نے نجی گفتگو کی آڈیو ریکارڈنگ کس نے کی اور کون یہ سب کچھ کر رہا تھا۔ سپریم کورٹ کے 5 رکنی بنچ کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ مفادات کے ٹکرائو کے مفروضے پر کسی جج کو بنچ سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس نے اس بات کو مضحکہ خیز قرار دیا کہ پہلے آڈیوز بنا کر ججوں کی تضحیک کی گئی، انہیں بدنام کیا گیا اور پھر کہا گیا کہ ان وڈیوز کے درست ہونے کی تحقیق کی جائے گی۔ چیف جسٹس نے اس بات کا بھی نوٹس لیا کہ چیف جسٹس سے مشاورت کے بغیر جوڈیشل کمیشن بنا دیا گیا۔ چیف جسٹس کی موجودگی میں ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا۔ سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کسی تحقیق کے بغیر آڈیوز کو پریس کانفرنس میں لیک کرنے والے وزیر کو برطرف کیا جانا چاہئے۔