اہم خبریں

تخصصات کا تعارف و پس منظر اور دعوت و ارشاد کے دائرے

(گزشتہ سے پیوستہ) چنانچہ ایک تخصص دورہ تفسیر قرآن کے نام سے بیسیوں جگہ پر شعبان رمضان کی چھٹیوں میں ہوتا ہے۔ ہمارے دادا اُستاذ، شیخ الموحدین حضرت مولانا حسین علیؒ واں بچھراں کا دورہ تفسیر مشہور تھا۔ حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ کا دورہ تفسیر مشہور تھا، بڑی دور دور سے لوگ استفادہ کے لیے آتے تھے۔ حضرت درخواستیؒ، حضرت مولانا حماداللہ ہالیجویؒ، حضرت مولانا حمد اللہ جان ڈاگئیؒ، شیخ القرآن حضرت مولانا غلام اللہ خانؒ وغیرہ کے دورہ تفسیر مشہور تھے۔ ان اکابر کے پاس طلباء قرآن مجید کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے آتے تھے۔ وہ صرف ترجمہ تفسیر نہیں ہوتا تھا بلکہ استاد کا ذوق بھی منتقل ہوتا تھا۔ جس استاد کے پاس پڑھا ہے اس کا ذوق اور اس کے تفردات بھی منتقل ہوتے تھے۔ اس کے بعد تخصص فی الافتاء پر زیادہ زور ہوا ۔ تخصص فی الفقہ والافتاء بھی ملک میں مختلف جگہوں پر ہو رہا ہے۔ کہیں تخصص فی النحو اور کہیں تخصص فی المیراث ہوتا ہے۔ اس دوران یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس وقت دنیا کے مجموعی ماحول میں دعوت و ارشاد کا ایک مستقل موضوع ہے۔ جس کے لیے علماء کو تیار کرنا ضروری ہے۔ چنانچہ التخصص فی الدعوۃ والارشاد بھی مختلف جگہوں پر ہو رہا ہے۔

دعوت سے مراد دعوتِ دین اور ارشاد کا معنیٰ ہے رہنمائی۔ دعوت کا دائرہ پوری انسانیت ہے اور ارشاد کا دائرہ امتِ مسلمہ ہے۔ ایک ہے غیر مسلموں کو دین میں داخل ہونے کی دعوت دینا، اور ایک ہے مسلمانوں کو دین کی طرف واپس آنے کی دعوت دینا۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ ہماری تبلیغی جماعت مسلمانوں کو دین کی طرف واپس آنے کی دعوت دینے کا عمل کر رہی ہے۔ حضرت مولانا محمد الیاسؒ پر اللہ تعالی کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں، وہ اس شعبے کے مجدد تھے، انہوں نے یہ طریقہ ایجاد کیا۔ تبلیغی جماعت کا سارا عمل امت کو دین کی طرف واپسی کی دعوت دینا ہے۔ مسلمان عموماً نماز بھی پڑھتے ہیں، روزہ بھی رکھتے ہیں، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امت بحیثیت امت دین پر قائم ہے، نہ عمل کے اعتبار سے، نہ تہذیب، ماحول اور طرز عمل کے لحاظ سے۔ چنانچہ تبلیغی جماعت کی دعوت امت کو دین کے ماحول کی طرف واپس لانے کی دعوت ہے۔
دعوت کا ایک دائرہ غیر مسلموں کو دین میں داخل ہونے کی دعوت دینے کا ہے، اس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔ مثال کے طور پر عرض کروں گا کہ قرآن مجید کا دائرہ خطاب ’’ھدًی للناس‘‘ ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ’’یا ایہا الناس‘‘ کہہ کر خطاب کیا تھا۔ قرآن مجید نے نبی کریمؐ کے بارے میں واضح الفاظ میں فرمایا اور پوری صراحت کے ساتھ آپؐ سے کہلوایا ’’قل یا ایہا الناس انی رسول اللہ الیکم جمیعا‘‘ کہ میں پوری نسل انسانی کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں۔ نسلِ انسانی کی موجودہ صورتحال کو دیکھیں تو اس وقت دنیا کی آبادی آٹھ ارب کے قریب ہے۔ ان میں سے کلمہ پڑھنے والے کم و بیش دو ارب ہیں اور کلمہ نہ پڑھنے والے چھ ارب ہیں۔ ان چھ ارب انسانوں کو اللہ اور رسول سے متعارف کرانا، انہیں اسلام کی دعوت دینا، انہیں کلمہ اور دین سکھانا کس کی ذمہ داری ہے؟ یہ فرشتوں کا کام تو نہیں ہے بلکہ یہ ہمارا فریضہ ہے۔ یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے جسے ہماری اصطلاح میں فرضِ کفایہ کہتے ہیں کہ کوئی ادا کر لے تو سب کی طرف سے ہو گیا، لیکن کوئی بھی نہ ادا کرے تو سب گنہگار قرار پاتے ہیں۔
میں اس حوالے سے عرض کیا کرتا ہوں کہ دنیا میں نسلِ انسانی کو دین کی دعوت دینے کا نظم ہمارے ہاں اجتماعی طور پر کہیں نہیں ہے۔ ہمارا سب سے بڑا نیٹ ورک تبلیغی جماعت کا ہے جو امت کو دین کی طرف واپسی کی دعوت دیتے ہیں۔ ان کا کام بہت اچھا اور بہت ضروری ہے لیکن ان کا دائرہ کار غیر مسلموں کو باقاعدہ اہتمام کر کے دین کی دعوت دینا نہیں ہے۔ میں اس کی مثال دوں گا۔ اس وقت دنیا میں نسلِ انسانی کا مذہب اسلام ہے۔ ہمارے علاوہ ایک اور مذہب پوری نسلِ انسانی کا دعویدار ہے اور وہ ہے عیسائیت۔ یہودیت نسلی دین ہے کہ وہ بنی اسرائیل سے ہٹ کر بات نہیں کرتے، ہندو وطنی دین ہے اور وہ ہندوستان سے باہر کی بات نہیں کرتے۔ بدھ مت بھی وطنیت کے دائرے میں ہے۔ کوئی اور آدمی اپنے طور پر ہندو یا بدھ ہو جائے تو الگ بات ہے لیکن وہ دوسروں کو ہندو اور بدھ ہونے کی دعوت نہیں دیتے۔ یہودیوں کے ہاں یہودی ہونے کی دعوت کا کوئی نظام نہیں ہے۔ نسلِ انسانی کے حوالے سے یا مسلمان بات کرتے ہیں، یا عیسائی بات کرتے ہیں۔ دنیا میں دعوت کا نظم ہمارا یا عیسائیوں کا ہے۔ ہمارا اعتقاد یہ ہے کہ حضرت عیسٰیؑ بنی اسرائیل کے نبی تھے، لیکن عیسائی کہتے ہیں کہ وہ نسلِ انسانی کے پیغمبر تھے۔ اس پر ہمارا مستقل مکالمہ رہتا ہے۔ اس لیے دنیا بھر میں آپ کو عیسائیوں کے مشنری ادارے ہزاروں کی تعداد میں ملیں گے۔ وہ ایشین، آسٹریلین، ہر ایک کو اپنا کلمہ پڑھاتے ہیں، بپتسمہ دیتے ہیں اور عیسائی بناتے ہیں۔ چنانچہ یہ دعوٰی کہ ہم نے نسل انسانی کو اپنے مذہب میں لانا ہے، یہ ہمارا اور عیسائیوں دونوں کا ہے۔ جبکہ اجتماعی اور منظم محنت صرف عیسائیوں کی ہے، ہماری محنت اس سطح کی نہیں ہے۔ ہمارے ہاں گروپوں میں دعوت ہے، عیسائیوں کے ہاں دعوت کا اجتماعی نظم ہے۔ ان کی مشنریاں پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا، نائیجیریا ہر علاقے میں ہیں۔
(جاری ہے)

متعلقہ خبریں