اہم خبریں

تخصصات کا تعارف و پس منظر اور دعوت و ارشاد کے دائرے

آج پہلی بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ تخصص کا پس منظر کیا ہے؟ تخصصات ماضی میں بھی ہوتے تھے لیکن ان کا عنوان کچھ اور تھا۔ ہمارے ہاں درسِ نظامی کے مدارس میں دورہ حدیث سے فارغ ہونے کے بعد تکمیل کے نام سے کسی خاص فن میں سال دو سال کا کورس کرایا جاتا تھا جس میں طالب علم کسی فن کے ماہر استاد کے پاس وقت گزارتا تھا، اسے ’’تکمیل‘‘ کہتے تھے۔ یہ ہمارے ہاں عام طور پر ہوتا تھا۔ کوئی استاد نحو کے فن میں متخصص ہوتے، کوئی صرف کے فن میں، کوئی تفسیر میں، کوئی حدیث میں، کوئی میراث میں، کوئی منطق اور معقولات میں متخصص ہوتے۔

میں نے اس طرز کے مدارس دیکھے ہیں، ان کا مشاہدہ کیا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ کوئی صاحبِ فن کسی مسجد میں خطیب و امام ہوتا تو اس فن کے شائقین اس کے پاس آجاتے۔ میرے والد محترم حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ ملک کے بڑے محدث اور شیخ الحدیث تھے، انہوں نے دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث کیا تھا۔ آپؒ اور چچا محترم حضرت مولانا صوفی عبد الحمید خان سواتیؒ حضرت شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ کے شاگرد تھے۔ دونوں بھائیوں نے اکٹھے پڑھا اور اکٹھے دورہ حدیث کیا۔ اس کے بعد والد محترم گکھڑ چلے آئے، جبکہ چچا محترم طبیہ کالج حیدرآباد دکن چلے گئے، وہاں سے لکھنو گئے اور حضرت مولانا عبد الشکور لکھنویؒ کے دارالمبلغین میں کچھ عرصہ رہے۔ والد محترمؒ ۱۹۴۳ء میں گکھڑ تشریف لائے تھے۔ جب ابتدا میں گکھڑ میں آ کر بیٹھے تو ان کا امتیاز نحو میں تھا۔ بطور خاص نحو پڑھنے کے لیے علماء ان کے پاس آتے تھے۔ آپ گکھڑ کی جامع مسجد میں امام اور خطیب تھے۔ اور وہ پرانی طرز کا مدرسہ تھا، میں نے وہ دیکھا ہے اور وہاں کھیلا کرتا تھا۔ ایک دفعہ میں نے حضرت والد گرامیؒ سے پوچھا کہ آپ اس زمانے میں کتنے سبق پڑھاتے تھے تو والد محترم نے فرمایا میں نے یومیہ اٹھارہ اٹھارہ سبق تک پڑھائے ہیں۔ اب کسی استاد کے اسباق چار پانچ سے بڑھ جائیں تو اس کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے کہ اتنے پیریڈ کیسے پڑھاؤں گا۔ اسی طرح میں نے ایک دفعہ حضرت مولانا قاضی حمید اللہ خانؒ سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا میں نے بائیس بائیس سبق بھی پڑھائے ہیں۔ ان کا تو کام ہی پڑھانا تھا اور کوئی کام نہیں تھا۔ ان پرانی طرز کے مدارس میں تکمیل کا دورہ ہوتا تھا۔ ایک ہمارے بزرگ حضرت مولانا عزیزالرحمنؒ تھے ان کا نام ہی صرفی استاد تھا۔ کچھ عرصہ جامعہ نصرۃ العلوم میں رہے اس کے بعد سکھے کی چلے گئے تھے۔ اسی تکمیل کی نئی شکل تخصصات کی صورت میں ہے۔ جیسے یونیورسٹیوں میں خاص موضوع پر ایم فل ہوتا ہے، پھر کسی خاص موضوع پی ایچ ڈی ہوتا ہے، اس کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ ہم نے بھی اس کو تخصص کا نام دے دیا۔ تخصص فی التفسیر، تخصص فی الحدیث، تخصص فی الفقہ، تخصص فی الافتاء، تخصص فی الدعوۃ والارشاد وغیرہ۔ ان تخصصات کے اپنے اپنے کورس ہیں، اب ان کی باقاعدہ سند بھی جاری ہوتی ہے۔ میں نے یہ عرض کیا ہے کہ تخصصات کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ ہم نے اسی پرانی طرز کو نئی شکل دی ہے، جس میں طالب علم کسی ایک فن میں مزید تعلیم حاصل کرتا ہے، پڑھی ہوئی تعلیم کو پالش کرتا ہے اور تحقیق و ریسرچ کی صلاحیت حاصل کرتا ہے۔ ایک دفعہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان نے تخصصات کے نصابوں کا جائزہ لینے کے لیے حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی، مولانا منظور احمد مینگل اور میں بھی اس کے ممبر تھے۔ ہم نے جائزہ لے کر رپورٹ پیش کی تھی جو وفاق کے ریکارڈ میں ہوگی۔ اس میں ہمارے ساتھ ریسرچ میں حضرت ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ بھی شریک تھے بلکہ انہی کی لکھی ہوئی رپورٹ میں نے وفاق میں جمع کرائی تھی۔ تخصصات کے دائرے کیا ہیں؟ اس میں ایک فرق ہمیں محسوس کرنا چاہیے کہ تخصصات کے دائرے پہلے دور میں تو یہ ہوتے تھے کہ طالب علم کا ذوق کس فن میں زیادہ ہے۔ ذوق مختلف ہوتے ہیں۔ کسی کا تفسیر کا ذوق ہوتا ہے، کسی کا حدیث کا ذوق ہوتا ہے۔ فقہ، اصول فقہ، میراث، صرف یا نحو وغیرہ کا ذوق ہوتا ہے۔ لیکن اب یہ فرق آیا ہے کہ اب تخصصات میں معاشرتی ضروریات کا لحاظ رکھا جاتا ہے کہ اس وقت کن تخصصات کی ضروریات ہیں۔ گویا اس میں اجتماعیت آگئی ہے۔ مدارس اور بڑے جامعات محسوس کرتے ہیں کہ سوسائٹی اور معاشرے کو کس تخصص کی زیادہ ضرورت ہے۔ ( جاری ہے )

متعلقہ خبریں