(گزشتہ سےپیوستہ)
اپنے دور اقتدار میں بی بی کی دوسری برسی کے تعزیتی اجتماع میں اپنی43منٹ کی بہت ہی جذباتی تقریرمیں جب76مرتبہ قوم کو ’’میرا قصوریہ ہے ‘‘کہہ کرپاکستان پراپنے احسانات اور اپنی خوبیاں گنوائیں،اورمیں نے اوریقیناپوری قوم نے یہ محسوس کیاکہ جس سیاسی اورغیرریاستی اداکار کا باربارذکرکیاگیااس کی واضح شبیہ نظرآرہی تھی اور یوں محسوس ہورہاتھاکہ پنجاب کی کوئی ’’نین یا گجرات کاٹھیاواڑکی کوئی رودالیاں‘‘ ہمارے حالات کاسیاپاکرنے آن پہنچی ہیں۔اب پہلی مرتبہ قوم اورملک کواپنے اداروں میں تصادم کی کیفیت نظرآرہی ہے اور وہ بھی ان افراد کی طرف سے جو حکومت میں ہوں توسب اچھاہے لیکن اپنی بدعنوانیوں کوچھپانے کیلئے پہلے کھلم کھلاعدالت عالیہ،نیب،میڈیااوراب فوج کوموردِالزام ٹھہرا کر مظلوم ہونے کی اداکاری کررہے ہیں جبکہ اسی فوج کے کندھوں پربیٹھ کراقتدارحاصل کیاتھا۔
مجھے آج برطانیہ کی ایماسارجنٹ یادآرہی ہے جس کاشماربرطانیہ کے مشہورمصوروں میں ہوتا ہے۔ 80 کی دہائی میں اس نے اپنی ویب سائٹ پرعمران کاپنسل سے بناہواسکیچ لگایاتو پتہ چلاکہ بات دوستی اورقربت سے بڑھ کرشادی تک پہنچ گئی تھی لیکن بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔انگلینڈکی نائٹ لائف میں جن لڑکیوں سے دوستی ہوئی،ان کاشمارآسان نہیں۔ برطانوی اخبارات میں ایک سے زیادہ فہرستیں تصاویر کے ساتھ چھپ چکی ہیں۔اداکارائیں الگ ہیں۔سیتا وائٹ سے بے وفائی کاقصہ الگ،کہ جمائماجس کے ساتھ شادی نہ چل سکی اوراب وہ اپنے عمران کے دوبیٹوں کے ساتھ سیتاوائٹ کے بطن سے پیدابیٹی ٹیرن وائٹ کی پرورش بھی کررہی ہے جوعمران کے مستقبل کیلئے ایک خوفناک خواب بن چکی ہے۔ ریحام خان عمران کے کئی دھوکوں کاذکرکرچکی ہیں۔ دوسری طرف ان کی سیاست کاحال جہانگیر ترین، علیم خان بہتربتاسکتے ہیں جبکہ جاویدہاشمی توعین عروج پرآشکارکرچکے ہیں۔یہ جہانگیرترین ہی کا جہاز تھاجومنتخب اراکین کے گلے میں پی ٹی آئی کاپٹہ ڈال کراپنے محبوب لیڈرعمران کے چرنوں میں حاضرکرنے کی ڈیوٹی اداکررہاتھالیکن جب کسی ایک کے امین وصادق کی تقرری کامقدمہ عدالت میں پہنچاتواسی باجوہ کی مددسے ثاقب نثارسے معاملہ طے کرکے خودکوبچا کرجہانگیرکی قربانی دے ڈالی۔ جنرل باجوہ کی تعریف وتوصیف کے درجنوں ویڈیو منظرعام آچکے ہیں لیکن اقتدارسے رخصتی کے بعد اب ساراملبہ اسی پرڈال دیاگیاہے۔پہلے اقتدار کی رخصتی کامکمل ذمہ دار امریکا کو ٹھہرایا گیا مگر اب شب وروزاسی آقاکواپنی مدد کیلئے پکارا جارہا ہے۔
آخرایسی بے وفائی کی درجنوں مثالیں عمران کے ساتھ ہی کیوں منسوب ہیں؟خان کے ساتھ یہ مسئلہ کیوں ہے۔کیااسے تعلقات نبھانے نہیں آتے کہ ہرکسی سے وقتی دوستی کرتاہے اور اپنا مطلب نکال کرامریکاکی طرح اسے فارغ کر دیتا ہے۔ہاں کوئی چالاکی سے اپناالو سیدھاکرلے تو یہ اس کاکمال ہے لیکن یہ ہنرصرف فیض حمید جان گیاتھاجس نے اپنے تئیں مستقبل کے25سالہ اقتدارکی بساط بچھائی تھی لیکن بری طرح اس میں سب ہی مات کھاگئے جبکہ ان کے دوراقتدارمیں ملک میں غربت،مہنگائی،بے روزگاری کی بڑھتی ہوئی لہرنے قوم کوجیتے جی ماررکھاتھا،قوم جب ان کے وعدے یاددلاتی تھی توان وعدوں کی تکمیل کی بجائے اپنے مخالفین کوچورڈاکوقرار دے کر ان کی آنکھیں نکال دینے کی دھمکیوں سے ڈرایا جاتا رہا اور ان کی جماعت کے لیڈران صحافیوں کے نام لے کر ان کے ہاتھ توڑدینے کی دھمکیوں سے ان کوصحافتی ذمہ داریوں سے روک دیتے تھے۔
9مئی کے سیاہ اوربدترین سانحے کے بعد اب ایک مرتبہ پھریوں معلوم ہوتاہے کہ باجماعت ’’سیاپے ‘‘کی مہم شروع کردی گئی ہے لیکن بات پھروہیں پرآرکتی ہے،اس ظلم،اس زیادتی پر ہماراردعمل کیاہے۔ہم مکھی کی بھنبھناہٹ جتنا احتجاج کرتے ہیں اورپھرتوقع کرتے ہیں کہ ہماری اس بھنبھناہٹ پرحکومت اپنی کارکردگی کو بہتر بناتے ہوئے ملک وقوم کی سیاسی ابتری کے ساتھ ساتھ غربت، مہنگائی، بے روزگاری کی بڑھتے ہوئے عذاب سے نجات دلائے گی۔بس ہماری سادگی ملاحظہ کیجئے،یہ درست ہے کہ قوموں کی زندگیوں میں احتجاج،سیاپے اوربین بھی بڑی اہمیت رکھتے ہیں لیکن اس سے کہیں قیمتی وہ کوشش،وہ جدوجہدہوتی ہے جوظلم وزیادتی کے خلاف کی جاتی ہے،وہ مزاحمت ہوتی ہے جوظالم کے ہاتھ روکتی ہے، جوظلم کے فیصلے کرنے والے ہاتھوں کی گرفت توڑتی ہے ،وہ ردعمل ہوتاہے جوحکمرانوں اور اپوزیشن کوبتاتاہے تم لوگ زندہ انسانوں پر حکومت کررہے ہو،مٹی کے ڈھیلوں اورریت کے ٹیلوں پرنہیں،مگرافسوس ہم من حیث القوم ردعمل، مزاحمت اورجدوجہدکی بجائے بین، سیاپا، بھنبھناہٹ بنتے جارہے ہیں،خوداپنامذاق ہوتے جارہے ہیں کہ ہرکوئی ہمیں بیوقوف بناکرہماری ہمدردیاں حاصل کرکے اپنے جرائم کوچھپانے کیلئے ہماری قوت کواستعمال کرسکے۔
کیا اب دوبارہ23کروڑلوگوں کو مزید بے وقوف بنایاجاسکتاہے،چاہے جتنامرضی سیاپا کرلیں شائدہرگزنہیں،اس لئے امریکا کو مدد کیلئے پکارنے والے یادرکھیں کہ قوم پرویز مشرف ٹولے سے بھی محض اس لئے نالاں تھی کہ اس نے پورے ملک کوامریکاکے حوالے کر دیاتھااوروہ ہرقیمت پراس ٹولے سے نجات کی خواہش مندتھی لیکن بے نظیرچونکہ خودبھی ڈیل کے تحت ملک میں واپس آئیں تھیں جس میں یہ طے تھاکہ پیپلزپارٹی آئندہ اقتدارسنبھالے گی لیکن مشرف اس حکومت کابدستورصدررہے گا۔لیکن یہ کسی کوعلم نہیں تھا کہ بے نظیر بڑی طاقتوں کے ساتھ جومعاہدہ کرکے ملک لوٹی تھیں وہ اپنے وعدے سے منحرف ہوجائیں گی۔غیرمصدقہ اطلاع یہی ہے کہ ان کو اس وعدہ خلافی کی پاداش میں راستے سے ہٹادیا گیا لیکن معاہدہ کی روسے اوربے نظیرکاقتل بالآخر پیپلزپارٹی کے اقتدار کا سبب بنا۔اسی لئے زرداری اب بھی برملااس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ پاکستان کی بقاامریکی دوستی میں ہے، اور اپنے سپوت کووزیرخارجہ بنواکراب امریکاکے تمام دوروں میں بلاول کیلئے اگلے وزیراعظم کا خواب دیکھنے کے متمنی ہیں۔پی ٹی آئی کے سیاسی زوال کے بعداب وہ نئی گیم کیلئے دبئی سے خصوصی طیارہ پر لاہورپہنچے ہیں لیکن یہاں بتادیناضروری ہے کہ ’’نہیں زرادری !پاکستان کی نہیں بلکہ وہ تمام سیاستدان جواپنے اقتدارکی بقاامریکاکی دوستی میں سمجھتے ہیں،جان جائیں کہ اس خطے میں خود امریکی نصیب دھندلاگیاہے اوریہ خطہ بھی اسی طرح امریکاکوخداحافظ کہہ رہاہے جس طرح ہر روز پی ٹی آئی کے رہنماعمران خان کو ’’خدا حافظ‘‘ کہہ رہے ہیں۔
