پیروں، فقیروں، روحانی شخصیات سے تعلق ہونا معیوب بات نہیں آل سعود کے تمام بادشاہ ثقہ علماء، شیوخ سے قریبی رابطہ رکھتے اور ان سے دین کا فہم حاصل کرتے، دین پر مبنی نصیحت بھی حاصل کرتے مگر ان میں سے کوئی بھی ضعیف الاعتقادی کی نفسیاتی وا عصابی کمزوری میں مبتلا نہ تھا۔ جنرل ضیاء کا بھی چہرہ شناس، روحانیات، تصوف سے وابستہ شخصیات سے تعلق رہا اور بے نظیر بھٹو کا بھی، میں راول ڈیم چوک سے ملحق اسلام آباد کے ماڈل ویلج راول ٹائون میں رہتا ہوں۔ شروع ہی میں ملتانی بابا کا گھر ہے۔ وہ ضیاء الحق کے بھی چہرہ شناس پیر رہے اور پھر بے نظیر کے بھی، میں نے ایک دن پوچھا کہ آپ پہلے ضیاء الحق، پھر بے نظیر اور پھر اسے بھی چھوڑ دیا؟ ہنس پڑے، کہنے لگے میں بہت زیادہ پڑھا لکھا نہیں ہوں۔ عالم فاضل نہیں ہوں البتہ اللہ تعالیٰ نے چہرہ پڑھنے کی صلاحیت دے دی ہے اسی سے ’’آئینہ‘‘ سامنے آجاتا ہے۔ پوچھا بے نظیر کو کیوں چھوڑا؟ بولے کیونکہ ان کا ’’وقت‘‘ ختم ہوگیا تھا۔ جسٹس رفیق تارڑ صدر بننے سے پہلے ان سے آکر ملتے تھے۔ جس گھر میں وہ رہتے وہ بے نظیر بھٹو نے وزارت اعظمیٰ کے سبب سی ڈی اے سے نہ صرف زمین الاٹ کروائی بلکہ سی ڈی اے افسران اور ٹھیکیداروں سے بنوا کر بھی دیا۔ مجھے دیکھ کر ایک مرتبہ کہا ’’تم جن کو جھولیاں بھر بھر کر مفت میں سب کچھ دیتے رہتے ہو جواب میں جو کچھ ان کے پاس بہت کچھ ہے اور تمہیں اس کی شدید ضرورت ہے مگر وہ تمہیں کچھ بھی نہیں دیتے۔ یہی تمہاری داستان الم ہے‘‘ سن کر حوصلہ ہوا، کہ اللہ نے مجھے دینے والا غنی دل تو بنایا ہے اور جن کو مجھ سے فیض یاب کیا ہے ان کا مقدر یہی تھا کہ وہ مجھ سے حاصل کرتے رہتے اور میں مادی، مالی، طور پر ’’فقر‘‘ کی دنیا کا باسی رہتا۔ یہی ’’مقدر‘‘ ہے اور یہی ’’تقدیر‘‘ اور ہمیں اپنے مقدر اور تقدیر پر راضی برضا الٰہی رہنا چاہیے۔ شکر،الحمدللہ اور استغفار کی تسبیحات کو زندگی کا لازمی جز، تلاوت قرآن پاک، فرائض کی ادائیگی پر مامور سمجھنا چاہیے۔ اگر مصائب، آلام، بیماریاں، تنگ دستی، فقر، مفلسی انسان کو اللہ تعالیٰ کے بہت قریب کر دے تو یہ عظیم ہوتی ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ سے دور کر دے، باغی کر دیں، تو عذاب الٰہی۔
کبھی ہم نے سوچا کہ سعودی ولی عہد نے کیسے اقتدار پایا؟ اور داخلی سخت گیر شیوخ، قبائلی رسم و رواج، معتقدرات کے سعوریہ کو کیسے ایک نارمل سے ملک میں تبدیل کیا؟ وہ اپنی جدیدیت کے سبب دنیا بھر میں شوق سے دیکھے جارہے تھے، دنیا کے جدیدیت لاتے 32سالہ نوجوان ولی عہد تھے، مگر ان کے اردگرد ایسے مشیران اور نادان اذہان تھے جنہوں نے جمال خاشقجی کی تحریروں کو غداری اور بغاوت بنانا شروع کر دیا اور یہیں سے سی آئی اے نے جمال خاشقجی کے قتل کی سازش ان سعودی نادانوں کے اذہان میں ڈالی مگر اس کا سارا معتوبانہ عذاب محمد بن سلمان ریفارمر ولی عہد پر گرا، اس نے ’’معاشی‘‘ میلہ لگایا ہوا تھا مگر خاشقجی قتل الزامات پر دنیا بھر میں ان کا بائیکاٹ ہوگیا۔ جنگ یمن میں، شام کے مظلومین کے معاملات میں، ایران کی جارحانہ فتوحات نے اسے شکنجے میں کسے رکھا تھا، مگر وہ ضعیف الاعتقادی کی نفسیاتی کمزوری میں مبتلا نہ تھا بلکہ اس نے سخت گیر علماء کو بھی جرات سے چیلنج کیا اور رابطہ عالم اسلامی کے جدیدیت کے افکار کے مبلغ ڈاکٹر عیسیٰ کو ’’مشیر‘‘ بنا کر سخت گیر علماء سے ریاست کا تعلق ختم کر دیا۔
صدر جوبائیڈن نے کس قدر پریشان کیا ایم بی ایس کو یورپی ممالک نے بھی بائیکاٹ کر دیا مگر چونکہ ایم بی ایس نفسیاتی طور پر اور اعصابی طور پر بہت مضبوط تھا، لہٰذا اس نے اپنی ذہنی صلاحیتوں پر انحصار کیا، اعصابی قوت اور قوت ارادہ و عمل کو قابو کئے رکھا اور امریکی غلامی کی سعودی تاریخ کو تبدیل کرتے ہوئے روسی صدر پیوٹن سے ان تعلقات میں بہت زیادہ اضافہ کر دیا جو تعلقات شاہ عبداللہ نے مستقبل کو دیکھتے ہوئے قائم کئے تھے روس اور چین اور مشرق کے ساتھ بالآخر ایم بی ایس فاتح رہا اور وہ امریکہ جس نے آل سعود بادشاہت اور خلیجی ریاستوں کے شیوخ حکمرانوں پر ہمیشہ حکمرانی کی ’’کاٹھی‘‘ ڈالی ہوئی تھی۔ بالآخر یہ سب حکمران نفسیاتی طور پر بہت مضبوط ہو کر امریکہ سے اب آزاد ہوچکے ہیں۔
حکمت و دانانی، تدبر سے چین کی وساطت سے تہران سے بھی مفاہمت اپنالی۔ جنگ یمن کا خاتمہ نہ سہی مگر حوثیوں کی جارحیت کو ٹھنڈا کرلیا ہے۔ یہ سب حوصلہ، ہمت، دانائی، حکمت عملی کا نتیجہ ہے جبکہ عمران خان کو فوج کی مکمل سرپرستی ملی، فوج نے ہی اقتدار دلوایا، مگر خود نفسیاتی طور پر کمزور اعتکاد کی محتاجی کی تصویر تھا اوپر سے جیب میں اکثر کھوٹے سکے تھے اور پھر پیرنی نے اپنے رفقاء کے ساتھ قوم کے کھلاڑی ہیرو، کینسر ہسپتال، نمل یونیورسٹی، ویلفیئر کے عظیم کام کرنے کی تاریخ رکھتے محترم ترین عوامی اساطیری کردار کی وزارت اعظمیٰ کو یرغمال بنا لیا اور عثمان بزدار کی وزارت اعلیٰ کو وٹو خاندان کی تجوری بنا لیا۔ عثمان بزدار نے جو حال ہی میں کوئٹہ سے پریس کانفرنس کی ہے وہ کیا درس عبرت ہے؟
میں کالموں میں باربار جنرل عاصم منیر اور اس کے عسکری رفقاء سے تقاضا کرتا رہتا ہوں کہ ’’چہروں‘‘ کو نہیں پورے پارلیمانی، متعفن، بدبو، کرپٹ، نااہل، خود غرض موجودہ نظام کو بدلو، یہ سب خاندان جو 1985ء سے مسلسل اقتدار میں رہے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کی مکمل سرپرستی کے سبب ان سب پر ایبڈو نافذ کرو، دولت، مال کلاشنکوف، بدمعاشی ابن الوقتی، اقتدار پرستی کو دیس نکالا دو۔ نیا مفید نظام حکومت، نئے افکار والی شخصیات لائو۔
