اہم خبریں

سیاپا…خداحافظ

راجستھان میں جب کوئی بوڑھا ،لاغر اور طویل العمرمہاراجہ مرتا تھا تو اس کی نعش پربین کیلئے پیشہ ورخواتین بلائی جاتی تھیں اوران خواتین کو رودالیاںکہاجاتاتھا۔گجرات کاٹھیاواڑ کے بعض علاقوں میں یہ خواتین ابھی تک موجود ہیں، رونا دھونااوربین ڈالناان کاپیشہ ہے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے پیشوں کی طرح یہ کاروبار بھی زوال کا شکارہوچکاہے لیکن جب یہ فن عروج پرتھاتو پورا پوراگائوں اس پیشے سے وابستہ ہوتاتھا۔یہ لوگ مرگ سے پہلے ہی مہاراج کی ڈیوڑھی میں پہنچ جاتے تھے۔جونہی ’’ھکم‘‘ کی جان قبض ہوتی تھی، رودالیاں اپنے بینوں سے آسمان سر پر اٹھالیتی تھیں،فرطِ غم سے اپنے بال نوچتیں،اپنے سرمیں خاک ڈالتیں،زمین پر لیٹتیں،سینہ کوبی کرتیں اورروروکربے ہوش ہوجاتیں۔ رودالیاں کایہ ساراکھیل ڈارمہ ہوتاتھالیکن یہ اپنے فن میں اتنی ماہرہوتی تھیں کہ ان کابین اچھے اچھوں کاسینہ ہلا دیتا تھا۔یہ پیشہ دراصل ان خاندانوں کیلئے تھاجوجائیدادکے بٹوارے کیلئے بڑی شدت سے مہاراج کے انتقال کاانتظارکرتے تھے،ان کیلئے مہاراج کی آخری سانسیں خوشخبری سے کم نہیں ہوتی تھیں لیکن رسماًرونابھی ضروری ہوتا تھا۔ ایسے حالات میں جوظاہرہے مشکل کام ہوتاہے، رودالیاں اپنے بینوں کے ذریعے انہیں اس مشکل سے باہرنکالتی تھیں اوربعض دیہات میں تومہاراج اپنے جیتے جی اپنی میت کیلئے رودالیاں کابندوبست کرجاتے تھے،انہیں معقول معاوضہ جات بھی دیئے جاتے تھے۔راجستھان میں کچھ ایسے دیہات بھی تھے جن میں رودالیاں کے اپنے محلے ہوتے تھے تاکہ ناگہانی مرگ کی صورت میں انہیں دورسے نہ جاناپڑے۔
ہمارے پنجاب میں اس قسم کے حالات میں ’’نینوں‘‘سے کام چلایاجاتاتھا،نائیوں کی بعض خواتین ’’بین‘‘میں طاق ہوتی تھیں،ان خواتین کو ’’سیاپے کی نین‘‘ کہاجاتاتھا،یہ عورتیں اب بھی پنجاب کے کئی دیہاتوں میں مل جاتی ہیں۔طالب علمی کے دورمیں ایک دوست مجھے اپنے گاؤں لے گیا،وہاں مجھے زندگی میں پہلی بار سیاپے کی نین سے ملنے کااتفاق ہوا۔ یہ ایک بوڑھی عورت تھی،گریہ زاری سے اس کے چہرے پرآنسوؤں کی لکیریں بن چکی تھیں۔سردیوں کے دن تھے،نین دھوپ میں بیٹھی گناچوس رہی تھی۔میں اس کے ساتھ والی چارپائی پربیٹھ گیا۔میں نے اس سے پوچھاجب تمہارامرنے والے سے کوئی رشتہ یاکوئی تعلق نہیں ہوتاتوتم روکیسے لیتی ہو؟ وہ ہنسی،اس نے ’’پھو‘‘کرکے گنے کاپھوک دور پھینکااور آنکھیں مٹکاکربولی’’ تعلق مجھے توبعض اوقات مرنے والے کانام بھی معلوم نہیں ہوتا‘‘۔میں نے دوبارہ پوچھاپھر تم روتی کیسے ہو؟اس نے قہقہہ لگایا، گناچارپائی کے ساتھ کھڑاکیا، سرسے دوپٹہ اتارکربال کھول دیئے،بیٹھے بیٹھے کمرکے گرد لپیٹا اور بولی ایسے روتی ہوں اورساتھ ہی اس نے ایک لمبی کوک بھری،سینے پراس زورسے دوہتھڑ ماراکہ اس دھمکی سے میرادل بھی ہل گیا،اوربین شروع کردیا۔چندسیکنڈمیں اس کی آنکھوں میں ساون بھادوں سماگیااورپھردیکھتے ہی دیکھتے چہرے کی لکیروں سے پانی بہنے لگا،وہ مچھلی کی طرح تڑپتی اور تڑپ تڑپ کربین کررہی تھی۔اس کی آواز، اس کی تڑپ نے مجھے اندرسے واقعی ہلادیا،مجھے ایسے محسوس ہواکوئی بلیڈسے میرے دل کوآہستہ آہستہ چھیل رہاہے،میں گھبرا کرکھڑا ہوگیا اورمیرے دل کی دھڑکن بے قابوہوگئی اورمیرے متغیر چہرے پرخوف اورپسینے کودیکھ کروہ یک لخت خاموش ہو گئی، دوپٹہ کھولا آنسو پونچھے اورہاتھ بڑھا کرگنااٹھایا،اطمینان سے اس کوچوسناشروع کردیا۔ میراخوف حیرانی میں تبدیل ہوگیا۔اس نے ’’پھو‘‘کرکے گنے کی پھوگ پھینک کربولی ’’ایسے روتی ہوں،اب توکوئی میت بھی نہیں تھی‘‘۔ میں اس کے فن کی داددیئے بغیرنہ رہ سکا۔ میں نے’’ رودالیاں‘‘ نہیں دیکھیں، صرف ان کے بارے میں پڑھاہے۔’’نین ‘‘بھی صرف ایک دیکھی تھی لہٰذا سیاپوں اوربینوں پر میرا علم واجبی ساہے لیکن جب میں اپنے معاشرے کو دیکھتا ہوں تومجھے محسوس ہوتاہے،ہم سب کسی نہ کسی حدتک نینیں ہیں،رودالیاں ہیں ہم سب دھوپ میں چارپائیاں بچھاکربیٹھتے ہیں،گنے چوستے ہیں، پھوکرکے پھوگ پھینکتے ہیں،گناچارپائی کے ساتھ کھڑاکرکے کمر کے گردکپڑالپیٹتے ہیں اور پھر سیاپا کرناشروع کردیتے ہیں۔تھوڑی دیرکے بعد بچاہواگنااٹھاکردوبارہ چوسنا شروع کردیتے ہیں۔ ہماری عملیت صرف یہیں تک محدود ہے۔ آپ دیکھ لیجئے ہمارے ملک میں کیاکیاحادثے نہیں ہوئے،چاربارمارشل لالگا،چھ سات مرتبہ اسمبلیاں برخواست کرکے گھروں کوبھیج دیا گیا، پورا آئین ایل ایف اوبنادیاگیا،ملک دوحصے ہوگیا، ہماری سفارتکاری نے 180زاویئے پرٹرن لیا،ہم نے جنگ کوجہادمیں بدلااورپھرجہادکودہشت گردی میں تبدیل کردیا، لیکن ان انقلابات،ان تبدیلیوں پرمن حیث القوم ہمارا ردِعمل کیا تھا، ایک چھوٹا سا بین،معمولی ساسیاپااوربس! پہلے ہماری سیاسی پارٹیاں ملک وقوم کے مسائل کواجاگرکرکے ان کوحل کرنے کے وعدے پرحکومت میں آتی ہیں لیکن اب ہوتایہ ہے کہ حکومت سنبھالتے ہی ملک وقوم کے مسائل حل کرنے کی بجائے ملک وقوم کوبلیک میل کرنا شروع کردیتے ہیں۔کہیں سے آوازآتی ہے کہ مکمل صوبائی خودمختاری چاہئے جس کے تحت صوبے کے تمام وسائل پرہماراحق ہونا چاہئے جس کے بعد18ویں ترمیم وجودمیں آگئی، اس کے بعدیہ آوازیں بھی سننے میں آئیں کہ ملک کے صدر اور وزیرِاعظم کیلئے مسلمان ہونے کی شرط ختم ہونی چاہئے اورہمیں لسانی بنیادپراپنے صوبے کوپختون خواہ کہہ کرپکاراجائے،اب خیرسے اسی نام سے صوبے کوپکاراجاتاہے۔ پھرملک کے ایک کونے سے آوازآتی ہے کہ کراچی اورحیدرآبادمیں ہمارے اختیارات کوچیلنج نہ کیاجائے۔ملک بھرمیں مردم شماری پراربوں روپے صرف کردیئے گئے لیکن اس کے نتائج ابھی تک متنازعہ شمارکئے جاتے ہیں۔ اگریادہوتوجب آصف زرداری صدربن کرپورے وفاق کی علامت بن گئے توان کوفوری طورپراپناعلاقائی لباس اس قدرعزیزٹھہراکہ آج تک ان کی جماعت کے وزراء نہ صرف سندھی ٹوپی اوراجرک کادن مناتے ہیں بلکہ سندھ کارڈکھیلنے کی دھمکی دے کرساری قوم کو ایک شدید عذاب میں مبتلا کردیتے ہیں اوراس بات کی بھی باربار یادہانی کرائی جاتی ہے کہ اگر آصف زرداری ’’پاکستان کھپے‘‘ کانعرہ نہ لگاتا توخاکم بدہن پاکستان کا وجود خطرے میں تھا۔پاکستان کی دو دفعہ وزیراعظم رہنے والی خاتون بینظیر بھٹو کو پاکستان میں ایک گہری سازش کے تحت قتل کر دیا گیاتھاجس کے بعد اچانک زرداری نے ان کی ایک ایسی وصیت کومیدان میں لے آئے جس کی صداقت پراب تک انگلیاں اٹھائی جارہی ہیں بے نظیرکی ہلاکت کاسب سے بڑافائدہ خودزرداری کے حصے میں آیا۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں