ڈیڑھ ماہ سے سعودی عرب میں ہوں ابھی قیام کے پندرہ دن باقی ہیں ۔وطن عزیز میں جو سیاسی، معاشی اور سماجی کھواڑ مچا ہوا ہے وہ رگ جاں میں آندھیاں سی برپا کئے ہوئے ہے۔ سرانڈ کا احساس ہے کہ پیچھا ہی نہیں چھوڑ رہا ۔ملکی سیاست پر کچھ لکھنے کی ہمت نہیں کہ سیاسی عدم اطمینان کی بو سے ابکائیاں سی آنے لگتی ہیں ،سیاسی عدم استحکام کوئی نئی بات نہیں یہ وہ ملک ہے جس میں بحرانوں کے پہاڑ کھڑے کئے گئے یہ ایک سے دو میں تقسیم ہوگیا مگر قائم ہے اور قائم رہے گا یہ ایک ایسی شہ رگ ہے کہ اس کے بنا بین الاقوامی زندگی کی ایک سانس رواں نہیں رہ سکتی اس کے ہونے پر ہی بڑی قوتوں کے قائم رہنے کا انحصار ہے مگر یہ بات ہمارے مقتدر طبقے اور بین الاقوامی سیاسی شعور سے بے بہرہ سیاستدانوں کی سمجھ سے بالاتر ہے ،وہ فقط ایک ہی بات جانتے ہیں کہ لوٹ مار کا بازار کیسے گرم رکھنا ہے،تجوریاں کیسے بھری رکھی جاسکتی ہیں ۔ان کے سازشی اذہان حکومتیں گرانے اور عوام کو اپنا مطیع بنانے میں مگن رہتے ہیں ،بنیادی حقوق او ر اظہار رائے کی آزادیاں ان کا مسئلہ ہی کبھی نہیں رہا ،یہ اپنی تمن دارایاں قائم رکھنے کے لئے ہوا کے رخ کے ساتھ چلتے ہیں اورہوا اگر مصموم بھی ہوجائے تو یہ اپنی راہ بنالینے میں بامراد ہی رہتے ہیں کہ ان کو بدی کی ہر راہ گوارہ ہے مگر ملک کا سیاسی استحکام ان کی ترجیح ہی نہیں ۔احساس ندامت اورعرق انفعال ان کی پیشانیوں کی زینت ہی کبھی نہیں بنا ،یہ اپنی ذات کے خول سے نکلنا پسند ہی نہیں کرتے ،ان کی ضمیر کی قیمت ہر ایک کو معلوم ہے ۔سیاست کا یہ بکائومال کسی بڑی قیمت پر نہیں بلکہ معمولی مفاد پر بک جاتا ہے ۔ان کی زندگی کا حاصل وہی نگوڑی مایا ہے جو کبھی ہتھیلی کی میل کہلواتی تھی اور یہ اس وقت سب سے زیادہ بھکاریوں کے گھر سے نکلتی ہے جب کرنسی تبدیل ہوں۔
احساس زیاں سے محروم سیاسی بزرجمہروں سے متعلق کیا کہیں کہ انہیں تو ان دنوں اڑان ہی سے فرصت نہیں ،مصدق سانول کا ایک مصرعہ ساری صورت حال پر صادق آتا ہے کہ پرندے اڑگئے ہیں اب شجر کی خیر مانگو تم ہماری امید کے شجر ،ہمارے قائد کی محنتوں ،اور اقبال کے خوابوں کے ثمر ،میرے وطن عزیز کی سلامتی بے پناہ اور انگنت خطرات کا شکار ہے ،جو میرے ملک کی جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہیں وہی میرے ملک کی نظریاتی سرحدوں کو بھی سنبھالیں گے ؟ اور کوئی نہیں جس میں یارہ ہو جو شجر سایہ دار کی چھائوں کو ہمارے سروں پر قائم رہنے دے، ہماری آزادی کو دائم رہنے دے ،جو ہم نے لاکھوں جانوں کی قربانی دیکر حاصل کی تھی ،جس کی بنیادوں میں ہماری مائوں ،بہنوں اور بیٹیوں کا لہو ہے ۔ وہ جو ان سیاست کاروں کی بے اعتدالیوں کا پردہ چاک کرنے والی عدالتوں کے وقار کو مجروح کرنے کے درپے ہیں ،جو آئین کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف ہیں جو اپنے اقتدار کے لئے اخلاقی اقدار کی ساری حدیں عبور کرچکے ہیں ،جن کی ملکی خزانے کو اپنی اشتہاری مہم پر خرچ کی خواہش کسی طور پوری ہونے کو نہیں آرہی ،جو اقتدار کے ایوانوں میں کسی اور کی موجودگی کو پسند ہی نہیں کرتے ،جن کی لمبی زبانیں رطب و یابس کے سوا کچھ اگلتی ہی نہیں ،جن کی آنکھوں میں خون اترا ہوا ہے ،جواپنے ہر حریف کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے آرزو مند ہیں ۔ اپنی طاقت کے نشے میں ڈوبے یہ صاحب اقتدار اللہ کی بے آواز لاٹھی کو بھولے ہوئے ہیں کوئی انہیں سمجھائے کہ وقت کسی کا دائمی دوست نہیں ہوتا ،یہ جب رخ بدلتا ہے تو سب کچھ الٹ ،پلٹ کے رکھ دیتا ہے ،ایک وقت تھا جب یہ بھی بڑی طاقتوں کے ہاتھوں بے دست و پا ہوئے تھے یہ اجڑی ہوئی کونجوں کی طرح لور لور پھرتے تھے ،قید خانوں میں لہو کے آنسو پیتے تھے ،عقوبت خانوں کی خاک چاٹتے تھے ،ہاں مگر یہ وقت کی اہمیت اس کی صداقت کو ابھی بھی نہیں سمجھے ،اگر سمجھے ہیں تواپنے اقتدار کو اس درد کی دوا سمجھے ہیں ،یہ خود فریبی کے جال میں ہیں جسے یہ اپنی راحت کاسامان سمجھتے ہیں ،جو ان کے پاس ہے وہ بھی جلد چھن جائے گا کہ اقتدار اللہ کی دی ہوئی امانت ہوتا ہے کسی کی میراث نہیں ہوتا ،جو اسے اپنی جاگیر سمجھ لیتا ہے وہ گھاٹے کے سودے سے دوچار ہوتا ہے ،وہ وقت کے دیئے ہوئے دھوکے میں مبتلا ہوتا ہے ۔ وہ سراب کے پیچھے بھاگنے والے مسافر کی طرح ہوتا ہے جس کی مسافت کبھی ختم نہیں ہوتی ،اس کی پیاس بڑھتی رہتی ہے مگر وہ منزل اسے نصیب نہیں ہوتی جو اسے آب حیات مہیا کرے ۔ زندگی اس لئے نہیں ہے کہ اسے دشت آرزو کی نذر کردیاجائے ،یہ ایک بار ملتی ہے ،بار بار نہیں ملتی کہ اس کو بے مصرف گزار دیا جائے یا اپنی بے مہار خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا جائے۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ قانون کے ساتھ کھلواڑ، سیاسی، معاشی اور سماجی کھواڑ، آخر ہرمحاذ کی ایک سرحد ہوتی ہے،ہر حدکی ایک حد ہوتی ہے ساری حدوں سے تجاوز کر کے کب تک کوئی لڑسکتا ہے ،ہر شے پر اختیار ہو زندگی پر تو کسی کا اختیار نہیں ،اتنے محاذ نہ کھولیں کہ لڑتے لڑتے تھک جائیں۔
