جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کہتے ہیں کہ ”جماعت اسلامی کا موقف ہے کہ افغانستان کو تسلیم کیا جائے’ وہ کہتے ہیں کہ پس پردہ تمام ممالک افغانستان کو تسلیم کررہے ہیں’ ایک ذمہ دار افغانستان ہمارے لئے بہتر ہے” اس سے قبل جمعیت علماء اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمن بھی کئی مرتبہ یہ مطالبہ کرچکے ہیں کہ افغانستان کو تسلیم کیا جائے’ مطلب یہ کہ افغانستان کو تسلیم کرنے کے مطالبے پر جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام ایک پیج پر ہیں’ مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق دونوں قائدین افغانستان کو تسلیم کرو کے مطالبے پر یک زبان اور دو قالب ہیں۔
گزشتہ دنوں امیر جماعت اسلامی روزنامہ اوصاف اور اے بی این نیوز اسلام آباد آفس میں تشریف لائے’ جہاں انہوں نے روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر اور اے بی این نیوز کے چیئرمین مہتاب خان اور سی ای او اے بی این نیوز محسن بلال سے ملاقات کی ‘ روزنامہ اوصاف کے چیف ایڈیٹر محترم مہتاب خان ماشاء اللہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار’ صاحب الرائے شخصیت کے مالک ہیں’ بالخصوص تحفظ ختم نبوتۖ’ تحفظ ناموس رسالتۖ اور نظریہ پاکستان کے حوالے سے وہ ایک کلیئر دل و دماغ اور موقف کے مالک ہیں’ وہ لندن میں ہوں’ فرانس میں ہوں ‘ جرمنی میں ہوں ‘ چین میں ہوں یا اسلام آباد میں ‘ اسلامی’ ملکی اور نظریاتی حوالوں سے ان کی ”سوچ” پر نہ کوئی مغربیت کی چھاپ لگاسکتا ہے اور نہ ہی ان کی ”سوچ” کو کوئی انڈین پٹاری میں قیدکرسکتا ہے’ امیر جماعت اسلامی سے ہونے والی ان کی ملاقات یقینا ہر لحاظ سے اطمینان بخش رہی ہوگی’ امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ افغانستان معاشی حب بھی ہے ‘ وسطی ایشیاء کی ریاستوں کے لئے بہترین علاقہ ہے’ انہوں نے کہا کہ افغان وزیر خارجہ کے ساتھ اسلام آباد میں ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا تھا کہ افغانستان کے فارن ریزرو بھی زیادہ ہیں’ افغانستان دنیا کا واحد ملک ہے جس پر قرضہ نہیں’ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی پالیسی میں بہت سے زگ زیگ ہیں’ وہ ہم پر اعتبار نہیں اور ہم ان پر اعتبار نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ اب حکومتی سطح سے ہٹ کر عوام کی خواہشات کے مطابق افغانستان سے متعلق پالیسی بنانے کی ضرورت ہے ‘ اس وقت افغانستان کی حکومت میں افغان عوام کی بھرپور نمائندگی موجود ہے ‘اور پرامن بھی ہے’ افغانستان کی نسبت پاکستان میں زیادہ دھماکے اور دہشت گردی کے واقعات پیش آتے ہیں’ جناب سراج الحق نے بتایا کہ افغان وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر ہونے والی دہشت گردی کا ذمہ دار افغانستان نہیں’ خواتین کی تعلیم کے لئے بھی افغان حکومت کام کر رہی ہے’ انہوں نے کہا کہ افغانستان کی حکومتی ترجیحات میں امن’ مسلح گروہوں اور عدلیہ کا نظام بہتر کرنا ہے’ یہ امر خوش آئند ہے کہ افغانستان میں ”امن” پچھلے سالوں سے کہیں بہتر ہے’ افغان طالبان کی حکومت قائم ہونے کے بعد امریکی تعاون سے داعش نے سراٹھانے کی پوری کوشش کی ‘ مگر افغان طالبان نے ان ظالموں کا سر کچلنے میں کسی بخل سے کام نہیں لیا’ چوری ‘ ڈ کیتی ہو’ شراب و ہیروئن و چرس ہو’ زنا ہو’ کرپشن ہو یا اغواء برائے تاوان’ افغان طالبان حکومت نے اسلامی سزائوں پر ایسا یقینی عملدرآمد ممکن بنایا کہ اب اس قسم کے جرائم بھی وہاں نہ ہونے کے برابر ہیں ‘ جرم ہونے کے بعد اگرمجرم پکڑا جائے اورپھر اسے بروقت کڑی سزا بھی مل جائے تو پھر بڑے بڑے دل گردے کے مالک رسہ گیر مجرموں کا بھی ”پتہ پانی” ہو جاتا ہے’ مجرموں کو جب قانون سے ڈر لگنا شروع ہو جائے … تو وہ جرائم سے تائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں’ اسلام ہی وہ عظیم نظام ہے کہ جو انسانی فطرت کے عین مطابق ہے ‘ اگر پاکستان میں نظام اسلام نافذ ہو جائے تو کوئی وجہ نہیں کہ ”پاکستان” روئے زمین کا خوبصورت’ خوشحال اور پرامن ملک نہ بن جائے؟
جناب سراج الحق ‘ مولانا فضل الرحمن اور دیگر اسلامی ذہن رکھنے والے قائدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان میں نظام اسلام کے عملی نفاذ کے لئے ایک پیج پر جمع ہوکر پوری قوم کو ساتھ لے کر چلیں’ کب تک انسانوں کو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کی حدود میں رہ کر جمہوری بت کی ”پوجا” کی ترغیب دی جاتی رہے گی؟ صرف امیر جماعت اسلامی ‘ امیر جمعیت علماء اسلام یا دیگر قوتیں ہی نہیں ‘ بلکہ اب تو عام عوام بھی افغانستان میں پیدا ہونے والے ”امن ” کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں’ افغانستان میں موجودہ امن و امان کو تحسین کی نگاہوں سے دیکھنے والے یہ مت بھولیں کہ اس امن کے پیچھے افغان طالبان کا سال ہا سال کا جہاد اور قربانیوں کی ایک طویل داستان بھی ہے’ پاکستان کا افغان حکومت اور افغان حکومت کا پاکستان پر اعتماد کرنا ضروری ہے ‘ دونوں طر ف سے ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی پالیسی کسی طور بھی مناسب ہے اور نہ درست’ امریکہ اور بھارت سمیت دیگر صیہونی طاقتیں ‘ پاکستان اور افغانستان کے درمیان محبت اور بھائی چارے کی فضا کو کبھی بھی پسند نہیں کریں گی ‘ عالمی صیہونی طاقتوں کی پہلے دن سے یہ خواہش رہی ہے کہ افغانستان امن سے دور رہے ‘ کابل سمیت پورے افغانستان پر طالبان کی اسلامی حکومت کے خلاف مغربی طاقتوں نے روز اول سے ہی سازشوں کا بازار گرم کر رکھا ہے جبکہ پاکستان ان طاقتوں پر زور دے رہا ہے کہ حالات اس نہج پر نہ پہنچائے جائیں کہ جس سے خطے کی سلامتی خطرات سے دوچار ہو جائے’ لیکن عالمی طاقتیں دو دہائیوں تک امریکی فرنٹ مین اتحادی کا کردار کرکے80 ہزار جانیں اور سو ارب سے زائد قربان کرنے والے پاکستان کی بھی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہیں’ ان حالات میں پاکستان کی خارجہ پالیسیوں کی سمت درست رکھنے کیلئے محب وطن جماعت اسلامی’ جمعیت علماء اسلام سمیت تمام اسلام دوست اور سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری قوم کو متحد کریں۔