مدرسہ “جامعہ عباسیہ” 1900 میں قائم ہوا اور بعدازاں 1976 میں”اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور” کا درجہ حاصل کرنے والی یہ درسگاہ جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا تعلیمی ادارہ ہے، جس میں 76 ہزار کے لگ بھگ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہیں۔ اس ادارے کے پہلے رئیس الجامعہ غزالی زماں سید احمد سعید شاہ کاظمی علیہ الرحمہ تھے۔ خطبات بہاولپور ڈاکٹر حمید اللہ کے ان تمام لیکچرز کا مجموعہ ہیں، جو انہوں نے فرانس سے تشریف لا کر اس جامعہ میں دیے تھے۔ اس یونیورسٹی کا “بغداد الجدید کیمپس” روحانیت اور اسلاف کی یاد تازہ کرتا ہے اور اس یونیورسٹی میں’’گھوٹوی ہال‘‘ شیخ الاسلام علامہ غلام محمد گھوٹوی علیہ الرحمہ کی یاد میں بنایا گیا جنہوں نے حضرت پیر سید مہر علی شاہ رحمۃ الله عليہ (گولڑہ شریف) کی نماز جنازہ پڑھانے کی سعادت حاصل کی تھی۔ خطہ جنوبی پنجاب کی اس جامعہ کا رقبہ سب تعلیمی اداروں سے زیادہ ہے۔ “تفکروا، تم غوروفکر کرو” جیسی قرآنی آیت پر مبنی جامعہ کا “لوگو” بلاشبہ قرآن اور اسلامی ثقافت سے محبت کی اک جھلک ہے۔ ماضی میں سیدی مرشدی یانبی یا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جیسی صدائیں ایک عرصے تک اس عظیم درسگاہ کے در و دیوار میں گونجتی رہیں۔
چند دن قبل اسی عظیم تاریخی یونیورسٹی سے جنسی جرائم کے بھیانک اور دل دہلا دینے والے زیر گردش واقعات نے ہر ذی شعور آدمی کو کرب میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس وقوعہ کے معروضی حالات کو سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کس ڈگر پہ چل پڑا ہے؟ ایک عظیم علمی درسگاہ کو کیا سے کیا بنا کے رکھ دیا گیا ہے۔ جہاں تک ان واقعات کی تفصیلات کا تعلق ہے ، یہ ذمہ داری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ہے کہ دیانتدارانہ تفتیش کرکے مجرموں کو قرار واقعی سزا دیں۔ بد قسمتی سے اس سے قبل بھی کئی جامعات میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیاء کے استعمال اور جنسی ہراسانی کے واقعات منظر عام پر آئے۔ کوئی تحقیق ہوئی نہ سد باب کی کوشش کی گئی۔ چند دن خبروں میں واویلا مچا، مذمتی بیانات آئے اور پھر بس۔ لیکن افسوس ناک صورت حال یہ ہے کہ ان جرائم میں کمی آنے کی بجائے روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ آئے روز ذرائع ابلاغ کے ذریعے منظر عام پر آنے والے تعلیمی اداروں کے ایسے واقعات نے معاشرے میں ایک خوف طاری کر دیا ہے۔ ہر شریف النفس آدمی یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر اس کا انجام کیا ہوگا؟ عزت دار لوگ اپنی بچیوں کو ایسے اداروں میں بھیجنے سے خوفزدہ ہو رہے ہیں۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کہ یہ بیہودگی اور جنسی جرائم اس اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں ہو رہے ہیں، جس کا حصول ہی ان گنت قربانیوں کے بعد نظام اسلام کے نفاذ کےلیےکیا گیا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ملمہ سازی اور سیاسی بیان بازی کی بجائے حقیقت پسندی کے ساتھ ان دلخراش واقعات کے عوامل اور محرکات کا بغور جائزہ لے کر آئندہ کیلئے ان سے نجات کا مربوط لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ ہر جرم کے پس پردہ کچھ عوارض ضرور ہوتے ہیں جو اس کے سرزد ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ حکومت وقت سے لے کر معاشرے کے جملہ ذمہ داران تک ، سبھی پوری جانفشانی، دیانتداری اور توجہ کے ساتھ نشہ آور اشیاء کے استعمال اور جنسی جرائم کی شرمناک صورت حال کا جائزہ لیں اوراس کا مؤثر حل تلاش کریں۔ بحیثیت مسلمان اگر ہم جنسی جرائم کے چند اہم اسباب کا حقیقت پسندانہ جائزہ لے کر ان کے سد باب کی کوشش کریں تو یقینا مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ یہ تو ہم سب مانتے ہیں کہ انسانی وجود عطیہ خداوندی ہے۔ مالک حقیقی نے جب مرد اور عورت کی تخلیق فرمائی تو نسل انسانی کی افزائش کی خاطر ان دونوں اصناف میں ایک خاص کشش رکھ دی۔ قدرت جانتی تھی کہ اگر ان دونوں جنسوں کو کھلے عام چھوڑ دیا گیا تو کیا گل کھلائیں گے۔ ان دونوں اصناف کی حیثیت آگ اور بارود کی سی ہے۔ لہذا کسی بے وقت دھماکے سے بچاؤ کے لیے مالک کل کائنات نے مردوں، عورتوں کو نظروں کی حفاظت کا حکم دیا۔ نکاح کے آداب اور محرم و غیر محرم کی تمیز سکھائی۔ اسی طرح عورتوں کو جسم ڈھانپنے کی پابندی کی تلقین کی۔
ظاہری و باطنی بے حیائی اور فحاشی سے بچاؤ کے ایسے سماجی ضابطے عطا کردیے، جو معاشرے کو جنسی بے راہ روی کی غلاظت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ قرآن پاک کی سورہ اعراف کی آیت نمبر 33 میں فرمایا گیا “کہہ دو کہ :’’ میرے پروردگار نے تو بے حیائی کے کاموں کو حرام قرار دیا ہے، چاہے وہ بے حیائی کھلی ہوئی ہو، یا چھپی ہوئی” اب ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہم اعتقادی لحاظ سے مسلمان ہیں۔ قرآنی حکیم کے ارشادات کے مطابق زنا کو حرام سمجھتے ہیں، خواہ جبرا ہو یا رضا مندی سے۔ لیکن عملا ان زریں ضوابط کو سماج میں لاگو کرنے میں ناکام ہیں۔ اک طرف درسگاہوں جیسی مقدس جگہوں میں یہ طوفان بد تمیزی بپا ہے اور دوسری طرف ہمارا سماجی رویہ یہ کہ جو عوامل جذبات میں ہیجان برپا کر کے شرمندہ کر دینے والے واقعات کا سبب بنتے ہیں، ان کے تدارک پر قطعا کوئی توجہ نہیں دی جاتی بلکہ انہیں روز بروز پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ بلکہ جو اس طرف توجہ دلائے اسے بھی دقیانوسی ذہنیت کا حامل یا تنگ نظر قرار دیتے ہیں۔ آخر میں درندہ صفت لوگوں کے نام پیغام ۔۔ بقول اکبر الہ آبادی ۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
(جاری ہے)