معاشرہ میں باہمی احترام اور رواداری کے فروغ میں علماء کرام اور ائمہ و خطباء کے کردار کے ایک پہلو کے بارے میں شرکاء محفل کو
معاشرہ میں باہمی احترام اور رواداری کے فروغ میں علماء کرام اور ائمہ و خطباء کے کردار کے ایک پہلو کے بارے میں شرکاء محفل کو توجہ دلانا مناسب سمجھتا ہوں کہ اگر ہم اختلافات کی حدود اور ان کی مختلف سطحوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر لیں اور اختلافات کو ان کے دائرہ اور سطح تک محدود رکھنے کی روایت کو فروغ دیں تو باہمی احترام اور رواداری کے حوالہ سے پیدا ہونے والے بہت سے مسائل پیدا ہی نہ ہوں۔ اس لیے کہ ہمارا عمومی مزاج یہ بن گیا ہے کہ کسی اختلاف کی اصل سطح اور دائرہ کو پیش نظر رکھے بغیر ہر اختلاف میں ایک ہی طرح کا طرز عمل اختیار کر لیا جاتا ہے جس سے اختلافات اکثر اوقات تنازعات کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ اس لیے میں مذہبی اختلافات کی مختلف سطحوں اور دائروں کے بارے میں اپنے طالب علمانہ مطالعہ کی روشنی میں کچھ امور کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں:
مذہبی اختلافات کا ایک دائرہ ایمان اور کفر کا ہے اور ادیان و مذاہب کی سطح کا ہے جیسا کہ مسلمان، مسیحی، یہودی، سکھ، ہندو اور بدھ مت وغیرہ مذاہب کے درمیان ہے۔
ایک دائرہ حق و باطل کا ہے جسے حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ اہل قبلہ کے مختلف گروہوں کا باہمی اختلاف کہتے ہیں۔ یہ اہل سنت، معتزلہ، خوارج، روافض اور منکرین حدیث کے درمیان اختلافات کا دائرہ ہے جو اپنی تمام تر شدت اور سنگینی کے باوجود بہرحال پہلے دائرہ سے مختلف ہے اور میں اسے حق و باطل کے اختلافات سے تعبیر کیا کرتا ہوں۔
تیسرا دائرہ اہل سنت کے اپنے داخلی ماحول میں فقہاء کرامؒ کے اختلافات کا ہے جس کا تعلق احکام و مسائل سے ہے مثلاً احناف، شوافع، مالکیہ، حنابلہ اور ظواہر کے باہمی فقہی اختلافات ہزاروں مسائل میں ہیں لیکن یہ اختلافات ایمان و کفر اور حق و باطل کی سطح کے نہیں ہیں بلکہ خطا و صواب کے دائرے کے ہیں۔ کیونکہ فقہ و اجتہاد کے باب میں اہل السنۃ کا مسلّمہ اصول یہ ہے کہ کسی مسئلہ میں جو موقف ہم میں سے کسی نے اختیار کیا ہے وہ صواب ہے جبکہ دوسری طرف کا موقف خطاء پر مبنی ہے (ولکن یحتمل الصواب) مگر اس میں صواب کا احتمال بھی موجود ہے۔
چوتھا دائرہ اولیٰ و غیر اولیٰ کا ہے جو ایک ہی فقہ کے پیروکاروں کے درمیان اکثر موجود رہا ہے اور یہ اتنا معمولی ہوتا ہے کہ اسے خطا و صواب سے تعبیر کرنے کی گنجائش بھی بسا اوقات نہیں ہوتی۔
پانچواں دائرہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ کی تشریحات کے مطابق عقائد کی تعبیرات کا ہے، حضرت شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ مسلّمہ عقائد کے باب میں کسی عقیدہ سے اختلاف کی وجہ سے تو اختلاف کرنے والوں کو اہل السنۃ کے دائرہ سے خارج قرار دیا جا سکتا ہے لیکن نفس عقیدہ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کی تعبیر میں اختلاف کرنے والوں کو اہل السنۃ سے خارج قرار دینے کو وہ درست نہیں سمجھتے۔ مختلف عقائد کی تعبیرات کے بارے میں اشاعرہ، ماتریدیہ اور ظواھر کے بیسیوں باہمی اختلافات اسی زمرہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اس کے باوجود یہ تینوں گروہ اہل السنۃ والجماعۃ کا حصہ شمار ہوتے ہیں۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے اختلافات کے مختلف دائروں اور سطحوں کو باہم گڈمڈ کر رکھا ہے۔ بات اولیٰ اور غیر اولیٰ کی ہوتی ہے جبکہ ہم کفر و اسلام کے ہتھیاروں کے ساتھ جنگ لڑ رہے ہوتے ہیں، بات خطا و صواب کی ہوتی ہے مگر ہم حق و باطل کے پرچم اٹھائے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار دکھائی دینے لگتے ہیں۔ اگر ہم اختلافات کے دائروں اور سطحوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے ہر اختلاف کو اس کے اصل دائرہ میں رکھیں تو بہت سے تنازعات خودبخود حل ہو جائیں اور باہمی احترام اور رواداری کا ماحول بھی فروغ پانے لگے۔
اس کے بعد میں اپنے اصل موضوع کی طرف آتا ہوں کہ مختلف فقہی مذاہب سے استفادہ کی صورتیں آج کے دور میں کیا ہو سکتی ہیں۔ ہماری یہ روایت چلی آرہی ہے کہ ہم اپنے اپنے فقہی مذہب پر کاربند رہتے ہوئے ضرورت کے مقامات پر دوسرے فقہی مذاہب سے استفادہ کرتے ہیں۔ اس حوالہ سے اصول فقہ میں ’’تلفیق‘‘ کی صورت بیان کی گئی ہے جس کی کچھ شرائط ہیں اور ان شرائط کے ساتھ مفتی کو اجازت دی گئی ہے کہ وہ جہاں اس نوعیت اور درجہ کی ضرورت محسوس کرے وہاں وہ دوسرے فقہی مذہب سے بھی استفادہ کر سکتا ہے لیکن اس کے لیے مفتی اور ضرورت دونوں کے درجہ اور سطح کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اور اس کے مطابق مذاہب میں ایک دوسرے سے استفادہ کی صورت اختیار کی جاتی ہے۔ میں ’’تلفیق‘‘ کے ان اصولوں اور دائروں کا پوری طرح احترام کرتا ہوں اور خود بھی ان کی پابندی کرتا ہوں لیکن یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ یہ معاملہ اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک فقہی مذہب کے پیروکاروں کو کسی خاص مسئلہ میں دوسرے مذہب کے فقہی اقوال و جزئیات سے استفادہ کی ضرورت محسوس ہو اور وہ اسے سامنے رکھ کر اپنا مسئلہ حل کر لیں۔
لیکن حالات کے تغیر اور معاشرت کے ارتقاء کے باعث کچھ ایسی صورتیں اب سامنے آرہی ہیں جن میں ہمیں اس سے آگے بھی کچھ سوچنا ہوگا اور ایسے اجتماعی مسائل کے حل کی کچھ صورتیں نکالنا ہوں گی جو ’’تلفیق‘‘ کے مسلّمہ دائروں سے مختلف دکھائی دیتی ہیں، مثلاً:
جہاں ایسی سوسائٹیاں وجود میں آرہی ہیں بالخصوص مغربی ممالک میں جہاں احناف، شوافع، مالکیہ اور حنابلہ وغیرہ مشترکہ طور پر رہتے ہیں اور مسجد یا کسی ادارے کا مشترکہ طور پر نظام چلا رہے ہیں، یعنی مسجد، مدرسہ یا مسلم سکول بناتے اور اس کا نظام چلانے میں حنفی، شافعی، ظاہری وغیرہ مشترکہ طور پر شریک ہیں وہاں کوئی ایسا مشترکہ فارمولا تشکیل دینا ناگزیر حد تک ضروری ہو جاتا ہے جس میں تمام متعلقہ فقہی مذاہب کا لحاظ رکھا گیا ہو۔ یہ بہت سے مقامات پر آج کی ایک اہم ضرورت کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔
(جاری ہے)