کسی بھی معاشرے میں سماجی رشتے بہت اہم ہوتے ہیں ، معاشرے کے لوگ ناخواندہ بھی ہوں تو اس سے کوئی نہیں پڑتا کہ رشتوں کے بیچ علم نہیں محبت اور باہمی ہم آہنگی التفات کا بنیادی سبب ہوتی ہے کہ لوگوں کا ایک دوسرے کی طرف رجحان کتنا ہے وہ مشکل وقت میں وہ ایک دوسرے کا کتنا ساتھ دیتے ہیں ۔انسانوں کی آپس کی محبت ہی معاشرے میں امن پیدا کرتی ہے اور یہ امن کسی بڑی قربانی کا تقاضہ نہیں کرتا ،اخوت ہو تو ہمدردی خود بخود پیدا ہوجاتی ہے ،پھر چھوٹی موٹی ضرورتوں کا ازالہ بھی ہوجاتا ۔یہ مناظر دیہی زندگی کا حسن ہیں کہ کسی کے گھر پیاز نہیں ہیں یاماچس کی تیلی ہی نہیں ہے تو دائیں گھروں والوں چھت پر سے یادیوار کے ادھر سے آواز دے کر ایک پل میں ضرورت پوری ہوجاتی ہے ۔گائوں کی عورتیں تو ایک دوسرے کے گھر میں نصب تندور میں روٹیاں بھی پکا لیتی ہیں اور اسی موقع پر سالنوں کا تبادلہ بھی ہوجاتا ہے ۔ماضی قریب تک جب ابھی شہروں میں کالونیاں تعمیر نہیں ہوئی تھیں ،لوگ باگ محلوں میں رہتے تھے تب ٹھیکری پہرے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی تھی محلے کی بیبیاں بہنیں رات گئے تک چھتوں پر کیکلیاں ڈالتی تھیں،لڑکیاں لڑکے اکٹھے آنکھ مچولی کھیلتے تھے ،تب کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا تھا کہ کوئی فحاشی یاناہمواری پیدا ہوگی۔
بعض گھروں کی حویلیاں بڑی ہوتی تھیں ان میں کوکلا چھپاتی کھیلی جاتی تھی ،سب کو ایک دوسرے کی فکر ہوتی تھی ۔ غربت اور امارت کا تصور کم کم ہی ہوتا تھا ،جس کے پاس ضرورت سے زیادہ ہوتا چپکے سے بانٹ دیتا ،جس کے پاس کم ہوتا وہ صبر کرتا ،واویلا مچاکر اپنا بھرم نہیں کھولتا تھا ۔کوئی غمی ہوجاتی تو غم رسیدوں کے گھر میں تین دن تک کھانا محلے والے پہنچاتے ،کوئی خوشی ہوتی تو محلے بھر کے گھروں میں روٹی سالن بھیجاجاتا۔بدحالی تھی مگر ڈھنڈورا نہیں پیٹا جاتا تھا کہ عزت نفس بھی مجروح ہوجائے ۔پھر رفتہ رفتہ سماج کے خدوخال تبدیل ہونے لگے۔ چار سوسماجی نظریات کا چرچہ ہوا،بے روزگار پڑھے لکھے نوجوان روزگار کی تلاش میں نکلے توسماجی نظریات کے فروغ پر مامور دانشوروں نے انہیں مشورہ دیا کہ ’’غیرسرکاری تنظیمیں ‘‘(N G O S) بنا کر اندرون و بیرون ممالک سے غربت وافلاس مٹانے کی غرض سے سرمایہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے ۔یوں ان تنظیموں نے خیراتی اداروں کے نام پر لاکھوں نہیں کروڑوں روپے جمع کئے ۔خیراتی ادارے بنے اور بنتے چلے گئے مگر خیر بھی ہر دن کے ساتھ ناپید ہوتی چلی گئی ۔وہ جو بھرم نام کی ایک شے تھی وہ غائب ہوئی ۔حکومتی وزرا ہوں یا بڑی بڑی غیرسرکاری تنظیموں کے سرکردہ لوگ وہ اندوختہ امدادی سامان کی کمک کسی گلی محلے میں پہنچانے بھی جاتے تو اپنی تشہیر کا سامان بھی ساتھ لے کر جاتے یوں ضرورت مند اپنی عزت نفس بچانے کے لئے گھروں سے باہر نہ آتے اور بھرے پرے گھروں والے اپنے اپنے گھر بھر لیتے۔ سماجی نظریات کے فلسفے کے موجد،سوشل سائنسز کے ماہرین بڑی دھوم دھام سے غربت کو دفن کرنے کے لئے نکلے اور لوگوں کی عزت نفس کے جنازے کندھوں پراٹھائے اپنے اپنے ٹھکانوں کو لوٹ گئے ،وہ غربت و افلاس کو تو نہ مٹا سکے اپنے معاشی مسائل کا تریاق انہیں مل گیاایک اور بات جو قابل توجہ تشویش کی ہے وہ یہ کہ انہیں سماجی نظریات کا پرچارکر نے والوں کے راستے ایک نظریاتی ملک میں بے دینی بھی داخل ہوئی جس نے سماجی احکامات سے مذہب کو خارج کرکے شہری زندگی یا نئی نسل کوایک نئی جہت سے آگاہ کیا ،انہوں نے بتایا کہ مخصوص خدا یا کائناتی اسرار سماجی نظام کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں ۔ ایک ایسا معاشرہ جو کھڑا ہی ایک خاص نظریئے کی بنیاد پر ہے اس کی بنیادوں کو کمزور کرنے کے لئے اولین سطح پر غیر سرکاری تنظیموں کو ہی استعمال کیا جس کی وجہ سے فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا ملی ،جو مذہبی تنظیموں میں نے متشدد رویئے پیدا کرنے کا سبب بنیں اور اس سے ہمارا پورا سیاسی اور معاشرتی نظام تلپٹ ہوکر رہ گیا ۔آپس کی نفرتیں فروتر ہوئیں اور کی ہم آہنگی ،محبت اور رواداری ختم ہوئی ،یہاں تک کہ ایک دوسرے کے درمیان ہمدردی کے جذبات بھی ماند پڑتے چلے گئے۔تو یہ تھے ترقی پسند ،روشن خیال سماجی نظریات کے نتائج جنہیں ہم بھگت رہے ہیں۔