یوکرائن کی جنگ اور سفارت کاری
یوکرائن کی جنگ کو اب 500دن ہوگئے ہیں۔ جبکہ اس جنگ کے رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اب تک اس ہولناک جنگ میں 9000ہزار سویلین
یوکرائن کی جنگ کو اب 500دن ہوگئے ہیں۔ جبکہ اس جنگ کے رکنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ اب تک اس ہولناک جنگ میں 9000ہزار سویلین مارے جاچکے ہیں۔ جس میںمرد اور عورتیںدونوں شامل ہیں۔ بچوں کے مرنے کی تعداد 700کے قریب ہے۔ زخمی ہونے والوں کی تعداد 6000 ہزار سے زائد ہے۔ دونوں طرف کے فوجیوں کے مرنے کی تعداد ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے۔ حالانکہ یوکرائن کی جنگ کے آغاز سے قبل روسی صدر نے اعلان کیاتھاکہ ہم ایک ہفتے میں یوکرائن کو فتح کرلیںگے‘ اور اب500دن ہوگئے ہیں۔ دونوں طرف سے جدید اسلحہ استعمال کیاجارہاہے۔ جوآئندہ مزید بڑھ سکتاہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ا قوام متحدہ سمیت دنیا بھر کی سفارتکاری کیا کررہی ہے؟اس یہ ظاہر ہورہاہے کہ فی الحال سفارت کاری معطل ہوگئی ہے اور پوری دنیا تماشا دیکھ رہی ہے۔ مغربی ممالک کوشش کررہے ہیں کہ کس طرح پیوٹن کی حکومت کا دھڑن تختہ کردیا جائے۔ ( جیسا کہ ابھی حال ہی میں کوشش کی گئی ) لیکن پیوٹن کے سیاسی منظر سے ہٹ جانے کے بعد بھی یہ مسئلہ اپنی جگہ سلگتارہے گا۔ اس مسئلے کا واحد حل موثر سفارت کاری ہے۔ جس کے ذریعے یوکرائن کی جنگ کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ لیکن فی الحال ایسا نظرنہیںآرہاہے جو پوری دنیا کے لئے اب خطرے کا باعث بنتاجارہاہے۔ اگر دنیا کے ذمہ دار ممالک مثلاً امریکہ‘ یورپ ‘ چین اور بھارت نے اس جنگ کو سفارتکاری کے توسط سے ختم کرانے کی کوشش نہیں کی تو یہ ایٹمی جنگ میں بدل سکتی ہے۔
پیوٹن کو اب اس بات کا احساس ہوچکاہے کہ اس نے یوکرائن پر جنگ کاآغاز کرکے سنگین غلطی کی ہے۔ اس غلطی کی وجہ سے روس کی مستحکم ہوتی ہوئی معیشت زوال کی طرف جارہی ہے ۔ جوروسی عوام کے لئے پریشانی کا باعث بنتی جارہی ہے۔ نیز اگرخدانخواستہ پیوٹن نے اپنی بقاء کے لئے ایٹمی ہتھیاروں کاسہارا لیا تو یہ طریقہ کار پوری دنیا کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ ویسے اس وقت دنیا کی تمام معیشتیں ترقی پذیر ہیں‘ یعنی ان میں تیزی سے آگے بڑھنے کی صلاحیت زیادہ نہیں رہی ہے۔ اس کے علاوہ یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے غریب ممالک بہت زیادہ متاثر ہورہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ماحولیات پر بھی یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے بہت منفی اثرت پڑرہے ہیں۔ اگر جدید ہولناک اسلحہ کا استعمال نہیں روکا گیا تو ماحولیات پہ جو زہریلے اثرات پڑ رہے ہیں۔ وہ مزید جاری رہیںگے۔
یہاں یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہے کہ پہلی جنگ عظیم کاخاتمہ ہی موثر سفارت کاری یعنی ڈائیلاگ کے ذریعے حل ہواتھا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوروان بھی سفارت کاری کو کامیاب بناکر اس جنگ کو ختم کیا گیاتھا۔ اب ایک بار پھر دنیا کو یوکرائن کی جنگ کوختم کرانے کیلئے سفارت کاری کو بھرپور اور موثر طریقے سے استعمال کرناہوگا۔ ورنہ یہ جنگ اگر مزید کچھ عرصے جاری رہتی ہے تو ہوسکتاہے کہ یہ تیسری عالمی جنگ میں بدل جائے۔ لیکن میں سمجھتاہوں کہ دنیا کے بعض طاقتور ممالک تیسری جنگ عظیم کی طرف نہیں جائیں گے بلکہ ڈائیلاگ کے ذریعے اس جنگ کو ختم کرانے کی کوشش کریں گے۔ تاہم اس ضمن میں امریکہ او ر چین کا ایک اہم کردار ہے۔ اگر یہ دونوں سپرپاور خلوص دل سے چاہیں کہ یوکرائن کی جنگ کوختم کردیناچاہیے تو ایسا ممکن ہوسکتاہے۔ جہاں تک ناٹو کے روسی سرحدوں تک پھیلائو کاتعلق ہے تواس پر بات چیت ہوسکتی ہے۔ دراصل پیوٹن نے یوکرائن پرحملہ اس ہی لئے کیاتھا کہ اس کو اس بات کاخوف وخدشہ لاحق ہوگیاتھا کہ ناٹو روسی سرحدوں تک بڑھ کر اپنا سیاسی فوجی اور معاشی اثر رسوخ قائم کرناچاہتاہے۔
بہرحال یوکرائن کی جنگ جس انداز میں آگے بڑھ رہی ہے اس کی وجہ سے یقینی طور پر تیسری جنگ عظیم کے آغاز کے امکانات رد نہیں کیاجاسکتاہے۔ اس جنگ کی وجہ سے خود یورپ کی اکانومی پر بڑے منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔تیل اور دیگر اشیاکی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے۔سیاحت تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ چنانچہ یوکرائن کی جنگ کوفی الفور رکنا چاہیے ورنہ انسانی جانوں کے زیاں کے ساتھ ماحولیاتی اثرات بھی زرعی شعبے کو متاثر کریں گے۔ تباہ کن بارشیں‘ سمندری طوفان اوردیگرارضی اور سماوی آفات کا مزید بڑھنا یوکرائن جنگ کا مظہر ہے۔ اس لئے اگر انسانیت کو بچاناہے اور دنیا میں امن کے قیام کو یقینی بناناہے تو اس جنگ کو ختم کرنے کیلئے موثر ومنظم سفارتکاری کا آغاز وقت کی ضرورت ہے۔ اس طرح انسانیت کسی بڑے تصادم سے بچ سکتی ہے۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا کہ روس کو شکست دینا لازمی ہے تو پھر یہ سوچ جنگ کے مزید پھیلنے کا سبب بن سکتی ہے۔ ذرا سوچیئے!