عالمی معیشت کی بحالی اور معاشی چیلنجوں پر قابو پانے کے لئے متحدہ عرب امارات ایک فعال کردار ادا کر رہا ہے جس کا آغاز متحدہ عرب امارات کے نائب صدر، وزیر اعظم اور دبئی کے حکمران عزت مآب شیخ محمد بن راشد المکتوم نے نئے سال میں وزرا کی کونسل کے پہلے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے کیا تھا۔ 2023 ء کے دوران حکومت نے اپنی 5 اہم ترجیحات تشکیل دی تھیں جن میں متحدہ عرب امارات کی اقتصادی شراکت داریاں اور ان کی توسیع شامل تھی۔ ایک ایسے وقت میں جب عالمی معیشت کووڈ 19 سے باہر نکل رہی تھی اور دنیا بھر کے کچھ ممالک عدم معاشی تحفظ اور تنہائی پسندی کی طرف بڑھ رہے تھے، متحدہ عرب امارات ایک نمایاں اور مضبوط اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر ابھرا۔ حکومت متحدہ عرب امارات نے عالمی اور علاقائی مارکیٹوں کے ساتھ جامع اقتصادی شراکت کے معاہدوں کے ذریعے تجارتی شراکت داروں کے نیٹ ورک کو وسعت دی۔ اس نقطہ نظر کی اہمیت ان معاہدوں میں متعلقہ فریقوں کی طرف سے حاصل کئے گئے اقتصادی، تجارتی اور سرمایہ کاری کے منافع تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ عالمی معیشت کو بحال کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون کو بڑھانے کی کوششوں کو تیز کرتے ہوئے ایک اہم شراکت دار کے طور پر ملک کی پوزیشن کو مستحکم کرنا بھی شامل تھا، تاکہ مہنگائی کی بڑھتی ہوئی شرح اور آنے والی کساد بازاری کو کنٹرول کرنے میں مدد کی جا سکے۔ کسی ملک کی پائیدار معاشی ترقی اور اس کے عالمی کردار کی تعمیر کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی تجارتی شراکت داری میں ہم آہنگی اور استحکام پیدا کرے۔
متحدہ عرب امارات نے اس ضمن میں تجارت اور سرمایہ کاری کے بہائو کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو اپنی لمبی مدت کی اقتصادی پالیسیوں کے ذریعے تیزی سے دور کیا اور مشرق اور مغرب کے درمیان ایک کامیاب اقتصادی پل کی حیثیت حاصل کر لی۔ اس حوالے سے 2022 ء کے دوران متحدہ عرب امارات نے بھارت، مصنوعات کے دروازے کھل گئے اور ان ممالک کی منڈیوں میں برآمد کنندگان کے لئے وسیع مواقع پیدا ہوئے جہاں 1.750 ارب سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ بھارت دنیا کی چھٹی سب سے بڑی معیشت بننے کے لئے پر تول رہا ہے جس سے متحدہ عرب امارات کو بھارت سے اپنی تجارت مزید بہتر کرنے کے مواقع میسر آئیں گے۔ اس طرح انڈونیشیا نے بھی متاثر کن شرح نمو دکھائی۔ متحدہ عرب امارات 5 دیگر ممالک کے ساتھ مزید معاہدوں کو مکمل کرنے کی تیاری کر رہا ہے جبکہ حکومت امارات کی کوشش ہے کہ تجارتی مذاکرات کو جلد ہی افریقہ، ایشیا، یورپ اور جنوبی امریکہ کے دیگر ممالک تک بھی پھیلایا جائے۔ خلیج تعاون کونسل کے تحت کئی اقتصادی بلاکوں مثلا چین، جنوبی کوریا اور برطانیہ کے ساتھ بھی متحدہ عرب امارات تجارتی تعاون کے مذاکرات کر رہا ہے۔ حکومت کی جامع اقتصادی شراکت داری کے معاہدوں کا بنیادی مقصد دنیا بھر کی اہم اسٹریٹجک مارکیٹوں کے ایک گروپ کے ساتھ باہمی مفادات کی بنیاد پر ٹھوس تجارتی اور سرمایہ کاری کی شراکت داری قائم کرنا ہے۔ جن ممالک اور بلاکس کے ساتھ متحدہ عرب امارات معاہدوں پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتا ہے ان کے درمیان غیر ملکی تجارت کا مشترکہ حدف حیران کن حد تک عالمی تجارت کا تقریبا 95 فیصد ہے۔ یہ رجحان ملک کی غیر تیل تجارت کے لئے ترقی اور خوشحالی کے مزید مواقع پیدا کرتا ہے تاکہ غیر تیل کی برآمدات کو 800 ارب درہم تک بڑھاتے ہوئے متحدہ عرب امارات کی غیر ملکی تجارت کو 4 ٹریلین درہم تک بڑھا کر متحدہ عرب امارات کے 50 کے منصوبوں اور We The UAE 2031 کے اہداف کو حاصل کیا جا سکے۔ متحدہ عرب امارات کی یہ شاندار اور نتیجہ خیز اقتصادی شراکت داریاں بین الاقوامی اقتصادیات کی تعمیر کے عین مطابق ہیں۔ اسی بنا پر متحدہ عرب امارات کی غیر تیل کی غیر ملکی تجارت 1.637 ٹریلین درہم سے تجاوز کر چکی ہے جو 2021 کی اسی مدت کے مقابلے میں 19 فیصد زائد ہے اور 2020 کی اسی مدت کے مقابلے میں 50 فیصد اور 2019 کی اسی مدت کے مقابلے میں 30 فیصد زیادہ ہے جو کہ ملک کی غیر تیل کی برآمدات میں نمایاں اضافے کے ساتھ موافق ہے جن کی کل غیر ملکی تجارت میں حصہ 5 سال پہلے کے 12 فیصد کے مقابلے میں 20 فیصد تھا جو برآمدات کی وجہ سے بڑھ کر اب 45 فیصد ہو چکا ہے جبکہ درآمدات پانچ سال پہلے کے 62 فیصد کے مقابلے میں کم ہو کر 55 فیصد رہ گئی ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی یہ متنوع اقتصادی پالیسی اس امر کی تصدیق کرتی ہے کہ متحدہ عرب امارات 2030 ء تک اپنے جی ڈی پی کو دوگنا کر کے 3 ٹریلین درہم تک لے جانے میں کامیاب ہو جائے گا۔ متحدہ عرب امارات کی عالمی تجارتی پالیسیوں کا یہ وہ مختصر سا تعارف ہے جس کے تحت امارات دیگر 164 ممالک کے ساتھ اپنی تجارت کو وسعت دے رہا ہے اور اس نے حال ہی میں پاکستان میں بھی 50 سال کے لئے کراچی کی بندرگاہ میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا آغاز کیا ہے۔ خاص طور پر متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو ایک بلئین ڈالر کی جو امداد دی ہے، اس کا پس منظر عالمی تجارت کو فروغ دینے سے بڑھ کر پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ دوستی اور بھائی چارے کا قدیم بندھن ہے جس کے ہوتے ہوئے 1971 ء میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے متحدہ عرب امارات کو اکٹھا کرنے میں اپنا بنیادی کردار ادا کیا تھا۔ پاکستان متحدہ عرب امارات کا وہ پہلا دوست ملک ہے جس نے ایمریٹس ائیر لائن کو پاکستان ایئر لائن پی آئی اے کے جہاز اور تربیت یافتہ پائلٹس دیئے جو آج دنیا کی “نمبر ون” ایئر لائن ہے جس کے بعد فروری، 1974ء میں لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں متحدہ عرب امارات کے اس وقت کے حکمران اور ابوظہبی کے امیر عزت مآب شیخ زاید بن سلطان النہیان نے خصوصی طور پر شرکت کی تھی۔ متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں بھی امداد فراہم کی۔ جبکہ شیخ زید ہاسپٹل لاہور اسی دور کی یادگار ہے جس کے بعد متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو رحیم یار خان ائئرپوٹ اور وہاں شیخ زید ہسپتال کے تحائف بھی دیئے۔ اب جبکہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات بحال ہو چکے ہیں جسے پاکستان کے دیرینہ اور مخلص دوست چین نے اہم سفارت کاری کر کے ممکن بنایا ہے، تو پاکستان کے لئے یہ اہم ترین موڑ ہے کہ وہ اسلامی برادر ملک متحدہ عرب امارات سے اپنے دوطرفہ اور باہمی دلچسپی کے تعلقات کو مزید مستحکم کرے۔ چونکہ امارات کے سعودی قریب سے گہرے مراسم ہیں۔’’پاکستان کا سیاسی مرکز‘‘بھی لندن سے دبئی منتقل ہوا ہے، پاکستان کے وزیر خارجہ بھی ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے بلاول بھٹو زرداری ہیں اور یہ بھی از حد امکان ہے کہ اس خارجہ پالیسی کو جاری رکھنے کے لئے پیپلزپارٹی اگلی متحدہ حکومت میں شامل ہو گی، لہٰذا فطری طور پر یہ بہترین موقع ہے کہ پاکستان اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بہتر سفارت کاری کے ذریعے بھارت کے متحدہ عرب امارات سے تعلقات کو بچھاڑنے کی کوشش کرے۔ اس سے نہ صرف متحدہ عرب امارات ’’ایٹمی اسلامی قوت پاکستان‘‘سے مل کر عالمی معیشت کو بحال کرنے میں ایک اہم کھلاڑی کا کردار ادا کر سکے گا، بلکہ اس سے پاکستان بھی معاشی بحران سے نکلنے میں کامیاب ہو سکے گا: نہیں ہے ناامید اقبال اپنی کشت ویراں سے ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!