(گزشتہ سے پیوستہ) پھروقت نے دیکھاکہ دنیاوی لحاظ سے کمزور وناتواں،بے سروسامان مردِمجاہدنے اس بادشاہِ وقت کوجواپنے ظلم کاہروارآزماچکا تھا،وہ جو اپنی طاقت پربہت گھمنڈکرتاتھا،جس کو اپنے ہتھیاروں اوراپنے عقوبت گاہوں پر بڑا ناز تھا، جواپنی دولت سے ہرکسی کو خریدنے کادعویٰ کرتا تھا، اپنی فوجوں کی بہادری اورآہنی محل کے پہریداروں پربڑافخرکرتا تھا،اللہ کی نصرت کے بل بوتے پرنہ صرف اس کوشکست فاش دی بلکہ موت کے فرشتے نے اس کے جسم سے اس طرح جان نکالی کہ آہنی پہریدار اورفولادی حلقے اورمضبوط درو دیوار بے بسی کے ساتھ بڑی حسرت ناک اور عبرتناک موت کے سامنے چوں چراِں نہ کر سکے۔
اس مردحق کی زنجیریں نئی قیادت نے انتہائی عقیدت واحترام کے ساتھ نہ صرف کاٹ ڈالیں بلکہ تعظیم وتکریم کے تمام جھونکے نچھاور کر ڈالے۔ قدم قدم پرعقیدت کیشوں نے آنکھیں بچھائیں مگرعظمت کے اس پہاڑ نے فاتحانہ نہیں مگرعاجزانہ چال کے ساتھ سب سے پہلے صبرکے ابلتے ہوئے آنسوں اورخوشیوں کی چیخوں میں شکرانے کے جہاں نوافل اداکئے وہاں ظالموں کیلئے راہِ ہدائت کی دعائیں کیں۔نئی قیادت نے پرانے مظالم کاحساب دنیامیں چکانے کی کوشش کی تواس مردِ درویش کی آنکھیں غصے سے ابل پڑیں کہ:یہ شاہی اشرفیوں کے توڑے شاہی عتاب کے کوڑوں سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہیں۔یہ دنیاجسے ستم سے نہ دبا سکی اب اس کوکرم سے خریدنے کی کوشش کر رہی ہے۔ایک طرف دین کافتنہ تھا،دوسری طرف دنیاکافتنہ!شائد ان کووہ واقعہ یادآگیاکہ جب دنیابن سنورکرمحمدﷺعربی کادل لبھانے کیلئے آ گے بڑھی تومیرے آقاﷺنے دونوں ہاتھوں سے اس کودھکے دے کرنکال دیا تھا، دنیانے اس وقت کہاتھاآپﷺتومجھ سے بچ گئے لیکن آپ ﷺکے بعد لوگ شائدہی مجھ سے بچ سکیں۔ یہی وجہ تھی کہ وقت کے اس عظیم امام نے شاہی نوازشات کوبھی بڑی حقارت کے ساتھ ٹھکرادیا۔وہ حاکمِ وقت کے نہیں بلکہ حاکموں کے حاکم کے شکرگزارتھے کہ جس نے ان کی ہر مشکل میں نصرت فرمائی اوران کے دل کویہ توانائی بخشی کہ جسم میں سب سے چھوٹے لوتھڑے نے پہاڑوں کوریزہ ریزہ کردیا۔اکثرتنہائی میں اپنی اور مسلمانوں کی بخشش کی دعائیں کرتے تووہاں ایک گمنام شخص ’’ابوالہیثم‘‘کی بخشش کی دعائیں بڑی رقت آمیز اندازمیں کرتے۔عقدہ کھلاکہ ابو الہیثم ایک چورتھا، جب اس مرد مجاہدکو پابجولاں کرکے بازاروں اور گلیوں میں رسوا کیا جارہا تھا تو اس وقت اس چورنے بڑی دلسوزی کے ساتھ کہا کہ “میں ایک چورہوں اورچوری کیلئے کم وبیش18سے20ہزارضربیں اپنی کمرپربرداشت کرچکا ہوں،اس کے باوجود میرے ارادے ٹس سے مس نہیں ہوئے اورمیری یہ ثابت قدمی دنیا جیسی ناپاک چیز کیلئے تھی۔ ہزارافسوس ہوگاتم پر اگر تم ’’راہِ حق‘‘میں اتنی بھی ہمت نہ دکھاسکو چورکایہ پیغام ان کے دل میں تیرِحق بن کراترگیااوراس پیغام نے اس مردِحق کواپنے وقت کاعظیم امام’’احمدبن حنبل‘‘بناڈالا۔یہ اس عہدکی کہانی ہے کہ جب ایمان کی آگ سینوں میں اتنی تھی کہ چورکے چندسوزبھرے کلمات نے تاریخ کوایک عظیم الشان مجاہد سے متعارف کروا دیالیکن آج سینکڑوں نہیں لاکھوں زبانیں جمع ہوکر جبہ ودستارکی آڑلے کر فلک شگاف نعرے بھی لگا رہی ہیں،اسی قرآن وسنت سے بے شمارواقعات سناکر جذبات بھی ابھارے جارہے ہیں،یقینایہ ایک نیک وصالح عمل ہے لیکن اس کے باوجودجب کبھی ایسا مشکل وقت آن پڑتاہے توواعظ اپنی جان بچانے کوعین فرض سمجھ کرراہِ فرار اختیار کرلیتاہے۔اگر کہیں خودنمائی کے مواقع موجود ہیں توا س میں شرکت عین ثواب، اگر کشمیر، فلسطین کے عملی جہاد کاذکرتوپھرعین جواب! تقریرکیلئے بہترین سٹیج مہیاکیاجائے توعین عبادت لیکن یہی جبہ ودستارکے پرستاردوستوں سے عمل کی اپیل محض اس لئے کی جائے کہ مسلمان اپنے سچے قول وفعل سے بھی دنیاتسخیرکرسکتاہے تو پھرسا ری کاوشیں بیکار! حصولِ اقتدارکیلئے دن رات نفاذِ اسلام کا نعرہ لیکن اقتدارحاصل کرنے کے بعداسلامی اقدار پر پہرہ!ملک کی معیشت کواسلامی خدو خال پر استوار کرنے کا دعوی مگرورلڈبینک،آئی ایم ایف اور امریکابہادر کے احکام کاپہناوہ!جہادکشمیرکی جیتی ہوئی بازی استعمارکے کہنے پر ہار دی۔ کشمیر پچھلے76سالوں سے ظلم وستم کاشکارہے لیکن کشمیر کو فتح کرنے کے دعویدار اقوام متحدہ میں اس مسئلے کوا ٹھانے سے گریزاں ہیں۔اگرکوئی جماعت مکمل دین حق کانفاذچاہتی ہے تواس کوملک دشمن اوربنیادپرست کہہ کرالزامات کی بارش سے نوازدیاجاتا ہے۔ اغیارکے ساتھ ملی بھگت کرکے آج اسلام کونظامِ عبادت کے طورپرتوقبول کیا جاتا ہے لیکن نظامِ حکومت کے طورپراس کوناقابل عمل سمجھ کرپس پشت ڈال دیاگیاہے۔اسلام جو کہ اخو ت اورمحبت کادرس دیتاہے آج اس کے نام لیوا اورپیشوااپنے مذموم مقاصد کیلئے تفرقہ بازی جیسی لعنت کو گلے لگاکرامت کوپارہ پارہ کررہے ہیں۔ ہمارے علما کاآپس میں دست و گریباں ہونا، اتحاد کیلئے کی جانیوالی تمام کاوشوں کواپنی ذاتی اناا ور ذاتی مخاصمتوں کی بناپرسبوتاژکرنا،کہیں ایساتو نہیں یہ دنیاکی چکاچونداورخیرہ کردینے والی روشنی ان کی آنکھوں کے ساتھ ان کے دل کوبھی اپنی زدمیں لے چکی ہے اوراب(خاکم بدہن) کتاب اللہ اورسنت رسول اللہﷺ کی حفاظت کاکام ان سے واپس لیاجارہاہے اوریہ کام جواسلام کے نام پرحاصل کئے گئے خطہ ارض پرنہ ہوسکا،اب اللہ تعالی اپنی سنت کے مطابق ان افغانوں اورکشمیریوں سے لے لے کیونکہ اب وقت نے بھی اس بات کی گواہی دے دی ہے کہ فطرت کے مقاصد کی کرتاہے نگہبانی یابندہ صحرائی یامردِکوہستانی آیئے آج اپنے اسلاف کے کارناموں کی روح کوسامنے رکھ کراپنے مستقبل کے بارے میں سوچیں کہ ہمیں دنیاوآخرت کی فلاح کیلئے کون ساراستہ اختیارکرناہے ۔کیاوہی راستہ وہی نظام حکومت،وہی نظامِ عدل جس میں کتاب اللہ اورسنت رسول سے ہمیشہ ہرپہلوپررہنمائی حاصل کی گئی اورجس کے طفیل حامل کتاب وسنت کودنیاکوامام بنادیاگیا یاپھرکتاب اللہ اورسنت رسولؐ سے دوری جس نے واقعی ہمیں ہرچیزسے دورکردیا۔