٭ …آرمی چیف کے خلاف پی ٹی آی چیئرمین کے بیانات پر سخت انتباہO ’’پاکستان میں اکتوبر یا نومبر میں انتخابات کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے، یورپی یونین کا ارادہ O برطانوی فضائی کمپنی ورجن اٹلانٹک، نے پاکستان میں پروازیں بند کر دیں، آخری پرواز روانہO چین، افغانستان سے لے کر تھائی لینڈ تک، پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور میانمر میں قیامت خیز بارشیں، سیلاب، تیز طوفانی ہوائیں، سینکڑوں افراد ہلاک، ہزاروں زخمی، ہزاروں عمارتیں گر گئیںO امریکہ سمندری طوفان، میامی شہر ڈوب گیاO’’پی ڈی ایم ختم، ضرورت نہیں رہی ن لیگ نے بے وفائی کی، پیپلزپارٹی پہلے ہی الگ ہو چکی ہے‘‘ مولانا فضل الرحمانO جہلم گیس کا سلنڈر پھٹنے سے 3 منزلہ عمارت ڈھیر ہو گئی، 6 افراد جاں بحقO گندم 4800 روپے من، چینی 140 روپے، آٹا150 روپے کلوO پرویزالٰہی کا مطالبہ ’’میں وزیراعلیٰ رہا ہوں، جیل میں ایئرکنڈیشنر فراہم کیا جائے‘‘ O ’’گوادر بندرگاہ کو گہرا کرنے کا منصوبہ، 4.6 ارب روپے خرچ ہوں گے‘‘O پنجاب نگران وزیراعلیٰ سے25 اضلاع کے تاجروں کا اجلاس، اہم فیصلےO مِٹھی، سندھ، غذائی کمی کے باعث ہسپتال میں پانچ بچے ہلاک O لاہور: 14 خاتون میڈیکل پروفیسروں کے تبادلےO شاہ محمود قریشی 18 جولائی تک ضمانتO عمران خان اسلام آباد کی عدالتوں میں پیشی کے بعد بنی گالہ چلے گئے، مزید پیشیاںO بجلی مزید 1.6 روپے مہنگی عوام پر 46 ارب روپے کا بوجھO دریائے راوی میں بھارتی سیلاب کا ریلا، کل لاہور پہنچے گا!
٭ …پاکستان میں انتخابات چُوں چُوں کا مربہ بن گئے ہیں، وقت پر ہوں گے؟ نہیں ہوں گے؟ یورپی یونین نے اعادہ کیا ہے کہ پاکستان میں اکتوبر یا نومبر میں انتخابات کے امکان دکھائی نہیں دے رہے اس کی وجہ یہ کہ ہر بار انتخابات سے تین چار ماہ پہلے یورپی یونین کو انتخابات کا جائزہ کے لئے خصوصی مبصر بھیجنے کے لئے اطلاع دی جاتی ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ابھی تک کوئی اطلاع نہیں بھیجی۔ اس سے اندازہ ہو رہا ہے کہ غالباً انتخابات اگلے سال پر چلے جائیں گے۔ ن لیگ کے وزراء اور رہنما مسلسل بیانات دے رہے ہیں کہ انتخابات اسی سال ہوں گے مگر ان کے بیانات سے یہ شک بھی پڑتا ہے کہ حکومت کی نیت نیک نہیں ہے۔ ان بیانات کے ساتھ یہ شوشا بھی چھوڑا جا رہا ہے کہ موجودہ اسمبلیاں اور حکومتیں 13 اگست کو ختم ہو جائیں گی، مگر ان کی تحلیل کا اعلان دو تین دن پہلے کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح نگران حکومتوں کو 60 دنوں کی بجائے90 دنوں کا وقت مل جائے گا اور اتنا ہی عرصہ سیاسی پارٹیوں کے ہاتھ آ جائے گا انتخابات سے کسی کو اکثریت ملنے کی امید نہیں، ان پارٹیوں کو عوام کے پاس جانے کا مزید وقت مل جائے گا۔ ٭ …انتخابات بروقت نہ ہونے کا ایک بیان تو الیکشن کمشن کی طرف سے پہلے ہی آ چکا ہے کہ ملک میں مردم شماری ہوئے تین ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ یہ یکم مارچ سے یکم اپریل تک کی گئی تھی مگر ابھی تک حکومت نے نتائج کا اعلان نہیں کیا۔ اس مردم شماری کے نتیجے میں اسمبلیوں کی نئی حلقہ بندیاں تقریباً 6 ماہ لے جائیں گی ان کی اپیلوں وغیرہ پر مزید دو سے تین ماہ درکار ہوں گے۔ اس کام کی تکمیل پر انتخابی پروگرام کا اعلان کیا جا سکے گا۔ پھر ووٹروں کے کروڑوں ووٹر چھاپنے پر بھی کچھ مدت درکار ہو گی۔ حکومت کا سادہ سا بہانہ یہ ہے کہ مردم شماری والے بہت سے ’’ڈیجیٹل آلات‘‘ پراسرار طور پر گم ہو گئے ہیں۔ ان کی بازیابی تک نتائج کا اعلان نہیں ہو سکتا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک کی آبادی میں دو کروڑ افراد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ (23 کروڑ) نئی حلقہ بندیوں کے بغیر ان نئے ووٹروں کو نظر انداز کرنا ہو گا، پرانی حلقہ بندیاں عدالتوں میں چیلنج ہو جائیں گی! الیکشن کمیشن کا انتخابات ملتوی کرنے کا جواز حکومت کو مزید کم از کم ایک سال آگے جانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے، اس لئے حِیلہ بندیاں کی جا رہی ہیں کہ انتخابات بروقت ہوں گے (پہلے اکتوبر اب نومبر!) مگر عین موقع پر کسی نہ کسی بہانہ کی آڑ لے کر اچانک الیکشن ملتوی کرنے کا اعلان کیا جا سکتا ہے! خدانخواستہ کوئی دھماکہ، سیلاب، یا ملک میں امن امان کی ناگفتہ بہ حالت کی آڑ لی جا سکتی ہے۔ حد یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان پہلے انتخابات اگلے سال پر لے جانے کی بات کر چکے ہیں اس وقت پی ڈی ایم اکٹھی تھی، اب پیپلزپارٹی کے ساتھ ن لیگ بھی ساتھ چھوڑ گئی ہے، اس لئے مولانا نے بھی اکتوبر یا نومبر میں انتخابات کی بات شروع کر دی تا کہ وہ کسی طرح خود اسمبلی میں آ سکیں۔ ٭ …پی ڈی ایم کی ہنڈیا پھوٹ گئی، مولانا فضل الرحمان دبئی میں ن لیگ کے نوازشریف اور پیپلزپارٹی کے آصف زرداری کے اجلاس میں نہ بلائے جانے پر اتنے ناراص ہوئے ہیں کہ سینئر صحافیوں کے ساتھ بات چیت میں صاف کہہ دیا کہ اب پی ڈی ایم کی ضرورت نہیں رہی۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ ان دونوں پارٹیوں نے انہیں واضح طور پر نظر انداز کیا ہے اور عمران خان کی حکومت ختم کر کے پی ڈی ایم کی حکومت بنانے کے لئے ان کی خدمات کو فراموش کر دیا ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ عمران خان کی حکومت کے دور میں آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل فیض حمید نے مجھے اپنے دفتر آنے کا پیغام دیا۔ میں نے انکار کر دیا تو جنرل فیض خود میرے پاس آیا اور مجھے پیش کش کی کہ وہ مجھے سینٹ کا رکن، اس کے بعد مجھے سینٹ کا چیئرمین بنانا چاہتا ہے۔ میں نے یہ پیش کش مسترد کر دی۔ مولانا نے مزید کہا کہ ہم نے موجودہ اسمبلی کو جعلی اسمبلی قرار دیا تھا (مولانا ہار گئے تھے)، ہمیں اس میں حلف نہیں اٹھانا چاہئے تھا (مولانا کے بھائی بیٹا وزیر، سمدھی پختونحوا کے گورنر ہیں) ایک سوال پر مولانا نے کہا کہ جو لوگ میرے سمدھی کے گورنر بننے کے حق میں بیانات دے رہے تھے، وہی اب ان کے خلاف بول رہے ہیں۔ (پتہ نہیں کون سے سینئر صحافی تھے! کسی نے یہ نہ پوچھا کہ ’’مولانا آپ مسلسل 10 سال اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین تھے، ’’50 کروڑ کے فنڈز!‘‘ آپ کی کمیٹی نے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے کیا کام کیا؟ کبھی کنٹرول لائن بلکہ مظفر آباد بھی مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لئے کوئی ریلی؟ کوئی جلسہ جلوس؟، جے یو آئی میں میرے محترم دوست ناراض نہ ہوں، میں بڑی نیک نیتی سے یہ باتیں کر رہا ہوں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی بے وفائی پر مولانا کی ناراضی بالکل درست ہے؟ ٭ …پاکستان بھر میں اس سال بھی گزشتہ سال والی طوفانی قیامت خیز پارٹیوں اور سیلابوں کے سلسلے کا خطرہ دکھائی دے رہا ہے۔ مگر اس بار معاملہ زیادہ پھیل گیا ہے۔ صرف پاکستان ہی نہیں، چین، افغانستان، بھارت، بنگلہ دیش، میانمر، ایران اور تھائی لینڈ بھی شدید قیامت خیز بارشوں اور سیلابوں کی زد میں آ چکے ہیں۔ ان تمام ممالک میں طوفانی بارشوں سے سینکڑوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں، بھارت کے شمال مشرقی صوبوں، جھاڑ کھنڈ، ہماچل پردیش، دہلی وغیرہ میں کئی روز سے مسلسل بارشیں ہو رہی ہیں، ہزاروں عمارتیں گر گئیں، سینکڑوں گاڑیاں بہہ گئی ہیں۔ اتوار تک ہلاک شدہ افراد کی تعداد یوں ہے: پاکستان 72، بھارت 70، بنگلہ دیش، صرف چٹاگانگ میں تودے گرنے سے 135 (5 فوجی بھی) ہلاک، سمندر اور دریائوں کے کنارے آباد20 لاکھ افراد بے گھر، ایک لاکھ 60 ہزار محفوظ مقامات پر منتقل، میانمر میں 100 سال کی بدترین بارشیں، دس لاکھ 20 ہزار ایکڑ پر چاول کی فصل تباہ، تھائی لینڈ بارشوں اور سیلاب سے 7 لاکھ بے گھر 23 لاکھ، افغانستان 31 ہلاک! یہ قیامت صرف ایشیا میں ہی نہیں، امریکہ میں سمندری طوفان اور شدید بارشوں سے میامی شہر ڈوب گیا، تائیوان اور چین میں بھی یہی صورت حال ہے۔ متعدد افراد ہلاک، سینکڑوں عمارتیں تباہ!