مندرجہ ذیل خبر کو انسان اگر ’’تیرا باپ بھی دے گا آزادی‘‘کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کرے ، توآزادی سے بھاگنے والی ’’یوتھیا اینڈ کمپنی‘‘کی عقلوں پر ماتم کرنے کو دل کرتا ہے،لیجئے پہلے ’’آزادی پسند‘‘ لیڈرکے حوالے سے خبر پڑھ لیتے ہیں،خبروں کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)پروگرام کی حمایت کے بدلے آئی ایم ایف سے پاکستان میں وقت پر انتخابات کی ضمانت مانگ لی، آئی ایم ایف نے ضمانت دینے سے انکار کردیا اور کہا کسی ملک کے معاملات میں ایک حد سے زیادہ دخل اندازی نہیں کرسکتے،آئی ایم ایف ٹیم کے زمان پارک میں ہوئے مذاکرات میں پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے رکھی گئی شرط سامنے آگئیں،چیئرمین پی ٹی آئی نے آئی ایم ایف سے اسٹینڈبائی ایگریمنٹ کی حمایت کے بدلے بروقت الیکشن کی ضمانت مانگی،خبروں کے مطابق چیئرمین پی ٹی آئی نے آئی ایم وفد سے سوال کیا کہ آپ اس بات کی کیا ضمانت دیتے ہیں کہ ملک میں انتخابات وقت پرہوں گے؟ جس پر آئی ایم ایف کی ٹیم نے جواب دیا کہ پروگرام اسی طرح ڈیزائن کیا گیا ہے کہ الیکشن وقت پر ہوں مگر ضمانت نہیں دے سکتے۔خبروں کے مطابق آئی ایم ایف چیف ناتھن پورٹر کی سربراہی میں مذاکرات کرنے والی ٹیم نے بتایا کہ 9 ماہ کے اسٹینڈ بائی پروگرام میں۔
ایک ارب ڈالر پی ڈی ایم حکومت، ایک ارب ڈالر نگران حکومت اور ایک ارب ڈالر الیکشن کے بعد بننے والی اگلی حکومت کو ملیں گے، مگر اس کے باوجود آئی ایم ایف الیکشن وقت پر ہونے کی ضمانت نہیں دے سکتا اور نہ ہی ا یک حد سے زیادہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی کر سکتا ہے،ان کا کہنا تھا آئی ایم ایف ایگزیکٹیو بورڈ کے ڈائریکٹرز 12جولائی کی میٹنگ میں اپنا نقطہ نظر رکھیں گے، ایگزیکٹو بورڈ کا پاکستان کی سیاسی معاملات سے متعلق موقف کیا ہو گا؟ اس حوالے سے پیشگوئی نہیں کر سکتے۔یاد رہے کہ گزشتہ دنوں آئی ایم ایف وفد نے عمران خان کی رہائش گاہ پر ان سے ملاقات کی تھی جس کا مقصد آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہونے والے معاہدے کے حوالے سے سیاسی حمایت حاصل کرنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات کروانا، الیکشن کمیشن کا کام ہے یا پھر آئی ایم ایف کا؟ ایک عام پاکستانی بھی یہ بات جانتا ہے کہ انتخابات کروانا الیکشن کمیشن کا کام ہے، تو پھر ’’تیرا باپ بھی دے گا آزادی‘‘ کے خالق، کپتان نے آئی ایم ایف سے بروقت الیکشن کے انعقاد کی بھیک کیوں مانگی؟ سوال یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کا پیکج ’’معاشی‘‘ ہے یا پھر ’’انتخابی‘‘؟ آئی ایم ایف کے کارندوں نے ’’وائسرے‘‘ کی طرح جو سیاسی پارٹیوں کی قیادت سے ملاقاتیں کیں کیا اس کے بعد بھی ہمیں اپنے بچوں کو ’’آزادی‘‘ کے ترانے سنانے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ حکمران ہوں، اپوزیشن سیاست دان ہوں یا اسٹیبلشمنٹ، آئی ایم ایف کے ’’وائسرائے‘‘ نے ’’آزادی‘‘ کے حمام میں سب کو بے لباس کرکے پاکستان کے عوام کو بتا دیا ہے کہ یہاں ’’آزادی‘‘ کی حد وہیں تک ہے کہ جہاں تک آئی ایم ایف نے مقرر کر رکھی ہے، آئی ایم ایف کے وائسرائے نے چند دن پہلے جس کروفر سے سیاسی پارٹیوں سے ملاقاتیں کی ہیں اور عمران نیازی نے جس انداز میں بروقت الیکشن کی بھیک مانگی ہے، اس سے بہت سے سوالات پیدا ہوئے ہیں۔ مثلاً یہ کہ کیا موجودہ نوماہ کے دورانیے کا تین ارب ڈالر کا پیکج الیکشن پیکج ہے کہ جس کے ذریعے الیکشن کے عمل کو کنٹرول کیا جائے گا؟ کیا نگران وزیراعظم اور کابینہ بھی آئی ایم ایف مارکہ ہوگی؟ اس خاکسار کو عمران نیازی سے کبھی خیر کی توقع تھی ہی نہیں، لیکن آئی ایم ایف کی غلامی کی دوڑ میں حکمران بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں، آئی ایم ایف کے پائوں پکڑ کر، منتیں اور ترلے کرکے شہباز حکومت نے ہم پر مسلط کیا، جبکہ عمران نیازی آئی ایم ایف کو ملکی سیاست میں مداخلت کی کھلی دعوت دے رہے ہیں۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آخر قومی مفاد کس چڑیا کا نام ہے؟ کیا آئی ایم ایف کو یہ اجازت دی جانی چاہیے کہ وہ ہمارے ملکی معاملات میں مداخلت کرے؟ کیا 3ارب ڈالر کے عوض پاکستان کی آزادی، خودمختاری کو آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ دیا گیا ہے؟ یہ جو آئی ایم ایف ایک، ایک ارب کرکے ہمیں ڈالر دے گا اس سے کتنے ’’غریب‘‘ غربت کی لکیر کے نیچے سے نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گے؟ ان تین ارب ڈالروں سے کتنے غریب گھرانوں کے بجھے چولہے پھر سے چلنا شروع ہو جائیں گے؟ ڈالر تو حکمرانوں کو ملنا شروع ہو جائیں گے، لیکن پھر ان ’’ڈالروں‘‘ سے اگر ’’اشرافیہ‘‘ کی غربت مٹانے کا کام ہی لینا ہے تو پھر کروڑوں غریب کدھر جائیں گے؟ آخر ہماری اشرافیہ، حکمران، سیاست دان اور اسٹیبلشمنٹ کب قوم کو یہ احساس دلانے میں کامیاب ہوں گے کہ پاکستان کسی امریکہ، کسی آئی ایم ایف کی کالونی نہیں بلکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے اور ہم پاکستان کے اندرونی معاملات میں کسی آئی ایم ایف کو مداخلت کی اجازت نہیں دیں گے، پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے، جس کی کل آبادی 22کروڑ سے زائد ہے اور نوجوان آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے برائے تعمیر و ترقی، یو این ڈی پی کے مطابق ملک میں مجموعی آبادی کا کل 64فیصد حصہ 30برس سے کم عمر نوجوانوں پرمشتمل ہے، سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے تین ارب ڈالر میں سے ان نوجوانوں کے لئے بھی کچھ ہے؟ یا پھر ان کی قسمت میں یونان کے پانیوں میں ڈوب مرنا ہی لکھا ہے؟