اہم خبریں

خواب کب حقیقت بنے گا

(گزشتہ سے پیوستہ) اورپھریہاں سے وہ سلسلہ شروع ہوگیا جو بڑھتے بڑھتے کنٹرول سے باہر ہو گیا،رخ چیف جسٹس کے استعفے کی طرف مڑ گیا۔تمام سہولت کاروں سمیت ڈی جی آئی ایس آئی جنرل اشفاق پرویز کیانی کو بھی بلایا گیا۔یہ تمام چیف جسٹس پراستعفے کیلئے دباؤڈالنے لگے،دباؤڈالنے والوں میں صرف ایک شخص تھاجس نے اپنے ہاتھ پر ’’نو‘‘لکھا ہوا تھا، وہ بارباراپناہاتھ چیف جسٹس کے سامنے لہراتا تھا، ’’وہ ہاتھ اوروہ دوحرف‘‘ چیف جسٹس کی واحد طاقت تھے چنانچہ یہ ڈٹ گئے۔ 9مارچ2007ء کی شام اسی ہاتھ نے افتخارچوہدری کوآرمی چیف ہاؤس سے نکالا اور چیف جسٹس ہاؤس میں ہاؤس اریسٹ کرادیا اورمستقبل میں اس کومکمل ساتھ دینے کایقین بھی دلایا۔ 11دسمبر2013ء تک یہ ہاتھ پوری وفاداری کے ساتھ افتخارچوہدری کے سرپررہااور 2009ء میں افتخار محمد چوہدری کی بحالی میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ وکلااورججوں نے افتخار چوہدری کی حمائت میں بحالی جمہوریت کی تحریک شروع کرتے ہوئے کبھی ایک لمحے کیلئے بھی نہ سوچاکہ افتخارچوہدری نے ہی اس جنرل کے شب خون کوجائزقراردیکر جمہوریت کاخون کیاتھا۔ تاہم چیف جسٹس کے عہدے پربحال ہونے کے بعد گاہے بگاہے اس ہاتھ کی قانونی اورآئینی مددان کا فرضِ عین منصبی رہا اور قصہ مختصرجنرل پرویز مشرف کی ایک گالی نے ان کے تکبراوررعونت کے ریت محل کوہوامیں اڑا دیا۔ عوام اورمیڈیا نے کھل کر ججزبحالی تحریک کا ساتھ دیا۔
یہ تاریخ کاسبق ہے کہ آمرجب کمزور ہوتے ہیں تویہ غلطیوں پرغلطیاں کرتے چلے جاتے ہیں،اوران کے سب سے قریبی ساتھی بھی اس سے نجات حاصل کرنے کیلئے اس کو سمجھانے کی بجائے ان غلطیوں کاساتھ دیتے ہیں۔جنرل پرویز مشرف نے بھی غلطیوں کی لائین لگادی جس نے ان کوکمزورسے کمزورترین کردیا۔لال مسجدمیں یتیم اوربے آسرا بچوں کوفاسفورس بموں سے بھسم کرنے کے واقعے نے بدعاؤں میں ایسااضافہ کر دیا کہ واپسی کاساراراستہ بند ہوگیا۔ پرویز مشرف جوبے ’’نظیربھٹواورنواز شریف کی واپسی کو ‘‘ اوور مائی ڈیڈباڈی‘‘قراردیتاتھا،اب نہ صرف ان کے ساتھ مذاکرات پرمجبورہوگیابلکہ ان پر قائم تمام مقدمات کوختم کرنے کیلئے بدنام زمانہ ’’این آراو‘‘جاری کرنا پڑا۔شاہ عبداللہ کے دباؤ پر نوازشریف کوپاکستان آنے کی اجازت بھی دی، اوران دونوں جماعتوں کے اتحادکے سامنے وردی بھی اتارناپڑی اوراپنے سارے اختیارات جنرل اشفاق پرویزکیانی کے حوالے کرنے پڑے، زرداری کے اقتدارکونہ صرف تسلیم کیابلکہ ایوان صدر سے بھی رخصت ہوناپڑا۔ جنرل مشرف ہوائوں کی تبدیلی کے باوجود خودکوبین الاقوامی لیڈرسمجھتے تھے چنانچہ یہ جنرل کیانی سے بھی بگاڑبیٹھے جس کا انجام ایک طویل خواری اورعبرت کی شکل میں نکلا۔میری لندن میں ان کے ساتھ ایک لمبی میٹنگ ہوئی تھی،جس میں انہوں نے تسلیم کیامیں ٹریپ ہوگیاتھا،مجھے جان بوجھ کرافتخار چوہدری کے ساتھ لڑایاگیاتھا،لڑائی کامقصدمجھے فارغ کرنا تھا۔مشرف نے خودتسلیم کیا’’میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران جنرل کیانی کو مشورے کیلئے بلاتاتھا،یہ دودوگھنٹے میرے ساتھ بیٹھے خاموشی سے مجھے سنتے رہتے تھے۔ میں بولتارہتا تھا اوریہ چپ چاپ سگریٹ پیتے رہتے تھے یہاں تک کہ میں تھک کرخاموش ہو جاتا تھا، یہ اٹھتے تھے،مجھے سیلوٹ کرتے اورچپ چاپ نکل جاتے تھے۔بے نظیر سے دوبئی میں پہلی ملاقات بھی جنرل کیانی نے طے کی تھی اورمیرے ساتھ ہی میٹنگ میں موجودتھے۔‘‘ جنرل مشرف اس زمانے میں جنرل کیانی سے بہت ناراض تھے،یہ سمجھتے تھے’’جنرل کیانی اگرمجھے فارغ کرانے کی سازش میں شامل نہیں تھے توبھی انہوں نے میری مددنہیں کی تھی، یہ اگرچاہتے تویہ مجھے بچاسکتے تھے‘‘۔کیااتفاق ہے کہ یہ جملہ عمران خان نے بھی جنرل باجوہ کیلئے میڈیاکے سامنے کہاکہ باجوہ سازش میں شریک نہیں تھالیکن مرے اقتدارکوبچاسکتا تھا ۔صدمہ تواس بات کابھی ہے کہ افتخارچوہدری کے بیٹے اور داماد نے اس کے منصب کاخوب فائدہ اٹھایا اور غریب قوم کے اربوں روپے ڈکارگئے۔ آئی ایس پی آرکی حالیہ پریس کانفرنس کے بعد ایک انتہائی مؤثرپیغام جاری ہوچکاجس کے بعد9 مئی کے واقعات کی ذمہ داروں کوفوجی عدالتوں کا بہرحال سامناکرہوگا۔اس کے ساتھ ہی نیب کے قوانین میں تبدیلی کیلئے صدرعارف علوی نے خودکو ملوث ہونے سے بچنے کیلئے اپنے140عزیز واقارب کے ساتھ قومی خزانے کا خوب استعمال کرتے ہوئے حج کی سعادت حاصل کرلی اوران کی عدم موجودگی میں نیب قانون کی منظوری سے بھی مستقبل کا خوفناک منظرنامہ نظر آرہاہے۔ان دنوں جیل کے حالات کی بڑی خوفناک اوردردناک خبریں بھی موصول ہورہی ہیں۔ پتانہیں کیوں دل میں یہ خیال آتا ہے، ایک خواہش ابھرتی ہے کہ شایدایسابل آجائے جس میں کسی صاحب حیثیت کی جیل اس کے گھرکی آسائش کی طرح نہ ہو۔اس کی مرضی کے باتھ روم وہاں نہ بنیں اوراگرنہیں تو ’’خیرا کمہار، نتھولوہار‘‘اوراس جیسے عام آدمی کے بیٹے بھی ویسی ہی سہولت میں رہ سکیں۔لیکن ہم نہیں کرسکیں گے۔کیاہم ایسابل لاسکتے ہیں جس میں ایک مجسٹریٹ،ایک عام جج بھی ویسے ہی سول ہسپتال کے وی آئی پی وارڈمیں جائے اوروہاں رہتے ہوئے، جیل کاٹتے ہوئے،مظلوم کہلواتے ہوئے شخص کو عام آدمی کے ساتھ بیرک میں بندکر دے ۔یہ خواب ہے اور خواب نہیں دیکھے جاتے لیکن سیدالانبیاﷺجن کاایک نام نذیر یعنی ڈرانے والا بھی ہے،ایک خاتون فاطمہ کوچوری کی سزا میں ہاتھ کاٹنے کی سزاپرسفارش آنے پرغصے میں کہا تھا۔اللہ کی قسم اگراس کی جگہ فاطمہ بنت محمدﷺ بھی ہوتی تومیں اس کاہاتھ کاٹ دیتا۔تم سے پہلی قوموں پرعذاب اس لئے نازل ہواکہ وہ عام لوگوں کوجرم پرسزادیتی تھیں اوربڑوں کے قصورمعاف کردیاکرتی تھیں۔ کیاہم ایسا بل لاسکیں گے جس میں کوئی قصور معاف کرنے،کیس ختم کرنے کااختیارنہ رکھتا ہو۔نجانے کیوں مجھے یقین ہے کہ ہم ایسا نہیں کرسکیں گے۔ہم اس بیماری کاشکارہوچکے ہیں کہ جس میں چھوٹوں کوجرم کی سزادی جائے اور بڑوں کومعاف کر دیاجائے۔اسی لئے ان کی راتیں روروکرگزررہی ہیں اوردن بے چین۔ انہیں اللہ کے غیض وغضب سے ڈر لگ رہاہے اوراللہ کے غیض وغضب اورعذاب کاایک خاصہ ہے کہ یہ اقتدارکے نشے اورطاقت کے غرورمیں مست شخص کووقت سے پہلے نظرہی نہیں آتا۔

متعلقہ خبریں