اس وقت عالم اسلام اور مغرب میں فلسفۂ حیات اور کلچر و ثقافت کی جو کشمکش جاری ہے اور جسے خود مغرب کے دانشور ’’سولائزیشن وار‘‘ قرار دے رہے ہیں اس میں مغرب کا دعویٰ ہے کہ وہ جس کلچر اور ثقافت کا علمبردار ہے وہ ترقی یافتہ اور جدید ہے اس لیے ساری دنیا کو اسے قبول کر لینا چاہیے۔ لیکن مغرب کا یہ دعویٰ درست نہیں ہے کیونکہ جدید تہذیب کی اقدار و روایات میں کوئی ایک بات بھی ایسی شامل نہیں ہے جسے نئی قرار دیا جا سکے بلکہ یہ سب کی سب اقدار و روایات وہی ہیں جو ’’جاہلیت قدیمہ‘‘ کا حصہ رہ چکی ہیں اور اسلام نے جاہلی اقدار قرار دے کر انسانی معاشرہ کو ان سے نجات دلائی ہے۔ ان اقدار و روایات پر ایک نظر ڈالیں: (۱) سود (۲) زنا (۳) ناچ گانا (۴) کہانت (۵) لواطت (۶) جوا (۷) شراب نوشی (۸) بت پرستی (۹) بے پردگی و عریانی (۱۰) اور نسلی و لسانی عصبیت آج کے تمدن کی نمایاں علامات ہیں۔ لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جو نئی کہلانے کی مستحق ہو اور جسے جاہلیت قدیمہ کے ساتھ کشمکش کے موقع پر اسلام نے شکست نہ دی ہو۔ حتیٰ کہ ان اقدار و روایات کے حوالہ سے جو دلائل ان کے جواز کے لیے آج پیش کیے جا رہے ہیں وہ بھی وہی ہیں جو جاہلیت قدیمہ کے علمبردار پیش کیا کرتے تھے، مثلاً:
بے پردگی اور عریانی کو فطرت اور نیچر کی طرف واپسی قرار دیا جا رہا ہے۔ جبکہ جاہلیت کے دور میں بیت اللہ کا عریاں حالت میں طواف کرنے والے مشرکین بھی یہی کہا کرتے تھے کہ ہم اللہ کے گھر میں فطری حالت میں پیش ہونا چاہتے ہیں۔ اسی طرح آج سود کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بزنس کا حصہ ہے اور اس کے بغیر تجارت کامیابی سے نہیں چل سکتی۔ جبکہ سود کے حق میں مشرکین مکہ نے بھی یہی دلیل دی تھی جسے قرآن کریم نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ’’سود اور تجارت ایک جیسے ہی ہیں‘‘۔ اس لیے اس تہذیبی کشمکش میں ہمیں کسی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بعینہ اسی تہذیب اور کلچر کو ہم ایک بار پہلے مکمل شکست دے چکے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نبوت کا اعلان کیا تھا اس وقت عرب معاشرہ میں یہ ساری چیزیں موجود تھیں لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’حجۃ الوداع‘‘ کے موقع پر اپنے مشن کی کامیابی کا اعلان فرمایا تو عرب معاشرہ ان تمام خرابیوں سے پاک ہو چکا تھا۔ لہٰذا تاریخ کے ایک طالب علم کی حیثیت سے تاریخ عالم کے پورے نشیب و فراز کو سامنے رکھتے ہوئے مجھے یقین ہے کہ کل کی طرح آج بھی اس ’’جاہلیت جدیدہ‘‘ کو شکست ہوگی اور نسل انسانی کا مستقبل اسی تمدن اور ثقافت پر استوار ہوگا جس کی بنیاد آسمانی تعلیمات پر ہے اور جس کی نمائندگی اس وقت اسلام کر رہا ہے۔ دوسری بات جو میں اس موقع پر عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ’’فری سوسائٹی‘‘ یا اباحیت مطلقہ کا یہ فلسفہ جس پر مغربی تہذیب کی عمارت استوار ہے جائز و ناجائز اور حلال و حرام کے تمام دائرے توڑ کر اپنے عروج اور انتہا کو پہنچ چکا ہے۔ اس کا اندازہ مغربی ممالک کی اسمبلیوں اور عدالتوں کے ان فیصلوں سے لگایا جا سکتا ہے جو گزشتہ ربع صدی سے مسلسل سامنے آرہے ہیں اور جائز و ناجائز کے ان دائروں اور حدود کو پامال کرنے کی مہم میں اسمبلیوں اور عدالتوں کے ساتھ اب چرچ بھی شامل ہوگیا ہے۔ اس سلسلہ میں دو تین حالیہ فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں: چرچ آف انگلینڈ نے کچھ عرصہ قبل اپنی شاخوں کو یہ ہدایات جاری کی ہیں کہ چونکہ بغیر شادی کے میاں بیوی کے طور پر اکٹھے رہنے والے جوڑوں کا تناسب پچاس فیصد سے بڑھ گیا ہے اور سوسائٹی نے اس عمل کو قبول کر لیا ہے اس لیے اس عمل کو آئندہ گناہ نہ کہا جائے اور نہ ہی اس کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ گزشتہ سال برطانیہ کے ایک ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ میاں بیوی کے طور پر اکٹھے رہنے والے دو ہم جنس پرست مرد قانون کی نظر میں میاں بیوی متصور ہوں گے اس لیے ایک کے مرنے کے بعد دوسرا اس کا وارث قرار پائے گا۔ گزشتہ ہفتے اٹلی کی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ کوئی عورت اپنے خاوند کے علاوہ دوسرے مرد کے ساتھ بھی تعلقات قائم کر سکتی ہے لیکن اسے رات بہرحال خاوند کے ساتھ رہنا چاہیے۔ یہ خاندانی نظام کے حوالہ سے مغربی سوسائٹی کے ’’فری سسٹم‘‘ کی انتہا ہے اور اسی سے ہمیں اندازہ کر لینا چاہیے کہ مغربی ثقافت کے نام پر بین الاقوامی قوانین کو قبول کر لینے کا مشورہ دینے والے ادارے اور این جی اوز ہمیں کس راستہ پر ڈالنا چاہتی ہیں اور پاکستان میں کس قسم کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے کوشش کر رہے ہیں؟ اس حوالہ سے آپ حضرات کی خدمت میں تیسری گزارش یہ ہے کہ مغربی حکومتیں اور عالمی ادارے اس کلچر کو ہم پر مسلط کرنے کے لیے مسلسل دبا۔ ڈال رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی خواتین کانفرنسوں، اقوام متحدہ کے منشور، جنیوا انسانی حقوق کمیشن کی قراردادوں، انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور عالمی ذرائع ابلاغ کے ذریعے سے ہم سے بار بار یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ اسلام کے نکاح، طلاق اور وراثت کے قوانین آج کے مروجہ بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں اس لیے ان میں رد و بدل کیا جائے اور انہیں تبدیل کر کے اقوام متحدہ کے چارٹر اور مروجہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بنایا جائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نکاح، طلاق اور وراثت کے متعدد اسلامی قوانین اقوام متحدہ کے چارٹر اور اس کی بنیاد پر تشکیل پانے والے بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہیں اور اسی وجہ سے عالم اسلام کی حکومتیں اس سلسلہ میں تذبذب اور گومگو کی کیفیت سے دوچار ہیں: ترکی نے پون صدی سے یہ فیصلہ کرتے ہوئے اسلامی قوانین سے دستبردار ہو کر مغربی قوانین مکمل طور پر قبول کر رکھا ہے۔ جبکہ دوسری طرف افغانستان کی طالبان حکومت نے یہ واضح اعلان کر رکھا ہے کہ وہ کسی اسلامی قانون سے دستبردار نہیں ہوں گے اور شرعی قوانین کے حوالہ سے اقوام متحدہ سمیت کسی کی بات سننے کے لیے وہ تیار نہیں ہیں جبکہ دیگر مسلمان حکومتیں دوہرے طرز عمل کا مظاہرہ کر رہی ہیں، عالمی اداروں کا دباؤ بڑھتا ہے تو بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کر دیتی ہیں اور اپنے ملکوں کے عوام اور دینی حلقوں کے دباؤ میں اضافہ ہوتا ہے تو اسلامی احکام کی من مانی تعبیر و تشریح کا راستہ اختیار کرنے لگتی ہیں۔ اسلام میں عورت کو جو مقام دیا گیا ہے اور اس کے حقوق کے بارے میں قرآن و سنت کی جو واضح ہدایات موجود ہیں ان کے بارے میں میرے پیش رو مقررین نے تفصیل سے گفتگو فرمائی ہے اس لیے میں اس پہلو کو نظر انداز کرتے ہوئے آج کے اس سیمینار کے موضوع کے دوسرے پہلو پر کچھ گزارشات پیش کی ہیں کہ مغرب نے عورت کو اس ثقافتی جنگ اور سولائزیشن وار میں اپنا ہتھیار بنا کر اس کی تذلیل کا جو سامان فراہم کر رکھا ہے اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور علماء کرام کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں صحیح صورتحال کا ادراک کریں اور مطالعہ و تحقیق کے تقاضے پورے کرتے ہوئے مدارس کے طلبہ، مساجد کے نمازیوں اور اخبارات و جرائد کے قارئین کی ذہن سازی اور راہنمائی کا فریضہ سرانجام دینے میں کوئی کوتاہی روا نہ رکھیں۔