(گزشتہ سے پیوستہ) اذانِ عشاء ہوئی تودل میں ہوک سی اٹھی کہ یہ کعبہ مشرفہ میں فی الوقت آخری نمازہے،بس کچھ ہی پل بچے ہیں،کچھ گنی چنی سانسیں اس خلدبریں میں لیناباقی ہیں۔بیت اللہ کاصحن ِمبارک جہاں سعیدروح انسانوں کے اژدھام سے ہمہ وقت بھرا رہتاہے،وہاں اللہ کے سترہزارفرشتوں کا ہمیشہ ہجوم اکھٹاہوتاہے ۔ خودہی سوچئے برکت ورحمت کے اس منبع ومرکز اورسرکاردوعالمﷺکے مولدومسکن سے جب مفارقت کالمحہ قریب آجائے تودل کا کیا حال ہوگا۔تاہم نمازسے فارغ ہوتے ہی طوافِ ِوداع کافریضہ انجام دیا۔اللہ کالاکھ لاکھ شکرکہ ساتوں اشواط میں تھوڑاہی وقت صرف ہواکیونکہ ہم نے کعبہ کے بالکل قریب ہی یہ سعادت پائی۔خوش قسمتی سے سنتیں ادا کرنے کے لئے مقام ِابراہیم سے بہت کم فاصلے پر مصلی ملا ،سنتیں اداکیں، دعاکے لئے ہاتھ اٹھے ضرورمگر یکایک روح کی زبان گنگ ہوگئی کہ کعبے سے رخصتی پرافسردہ خاطر تھا، جگرنوحہ کناں تھامگرمدینہ منورہ روانہ ہونے کی مسرت سے شادی مرگ ہونے کا اندیشہ بھی بڑھ رہا تھا۔ ان کیفیات کی رومیں بہہ کر اللہ سے کس منہ سے کہتاکہ الٰہی! اِدھرکاقیام بڑھا دے یاجلدازجلد گنبدِخضرا پہنچا دے۔بے شک اللہ رحمن ورحیم کاہم پریہ خاص لطف وکرم تھا کہ اس ذاتِ اقدسﷺکے بقعہ نور،پناہ گاہِ مہاجرین اورشہر انصارکی خوشبوں سے مشام ِجان معطرو مسحورہو نے کا زریں موقع ہمیں نصیب ہوا۔ خیرکعبہ پرپہلی نظر پڑتے وقت اورپھررخصت لینے کی گھڑی پربصد جان ودل اللہ سے لبوں پردعامچلنے لگتی ہے، بارالہا! مجھے اورمیرے اہل وعیال کواپنے گھراور اپنے محبوبِ کبریا ﷺ کے شہرشیریں میں باربار ولگاتار بلانا۔دعاؤں کووردِلب کر تے ہوئے اور نیک خواہشات اور تمناں کانخلستان دل میں سجاتے ہوئے کعبہ شریف پرحسرت بھری نگاہیں مکرر،سہ کرر ڈالیں اور بوجھل قدموں سے مطاف چھوڑ دیا، کئی بارپلٹ کردیکھاتوایسے لگاجیسے کعبہ مہربان رخصت کرتے ہوئے کہہ رہاتھا:میری حیات بخش تجلیات وانوارات،ایمانِ قوی، اعمالِ صالح، خوفِ خدا،جوابدہی آخرت کی نہ ختم ہونے والی عظیم پونجی ہیں،جوبھی اس پونجی سے توحید وسنت کے بازارسے زندگی کا سوداسلف لائے،وہی لاریب زائر الحرمین کہلانے کے لائق ہے،دنیاکی بھلائی اورآخرت کے عزوشرف کابھی وہی حق دارہے۔
کتاب ِہستی کے سرورق پرجونام احمدﷺ رقم نہ ہوتا تو نقشِ ہستی ابھرنہ سکتا،وجودِلوح وقلم نہ ہوتا اب دل وجاں اورروح تک ایک عجیب سی خوشی سے سرشاراوربے چین ہے کہ آنکھیں بندکرکے کھولوں توسامنے گنبدِ خضراہوجس کے لئے آقائے نامدارﷺکے شہرکی طرف رخصت سفرشروع کیاتو اچانک میرے آقاﷺکے فرامین یادآگئے کہ آپ نے فرمایا:تم میں سے جس شخص کومدینہ میں موت آ سکتی ہو،اسے چاہیے کہ وہ یہ سعادت حاصل کرے،چونکہ یہاں مر نے والوں کی گواہی میں دوں گا۔ (سنن ابن ماجہ)بہشت ِمدینہ کی عظمت وسطوت ناپنے کاکوئی پیمانہ ہی نہیں مگراس مقدس شہرکی برتری وبالادستی کاایک اہم اشارہ یہ بھی ہے کہ خلیفہ ثانی حضرت عمرفاروقؓ دعا کیا کرتے،اے اللہ ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطاکراوراپنے رسول کے شہرمیں موت عطاکر(صحیح بخاری) اس پرشوق سفرکا پنچھی دل کی کتاب لئے بیٹھایہ سوچنے لگاکہ یہ دعا مانگنے والی ہستی تاریخ اسلام کی ماتھے کاجھومرتھی،وہ جن کی آرااورمشوروں کی بارگاہ ِالہیہ میں اتنی پذیرائی ہوتی کہ وحی بن کراللہ کے رسول پرنازل کی جاتی،وہ فاروقؓ اعظم جس کی تعریفوں میں دوست تودوست دشمن بھی رطب اللسان ہیں۔یہ خاص دعامانگ کراس فنافی الرسول شخصیت نے ہمیں جینے میں ہی نہیں بلکہ مرنے میں بھی ہمسائیگی رسول اختیارکرنے کی آرزو سکھا دی۔آپ بالمعنی فرماتے ہیں اپنے نصیبے سے جو بہشت مدینہ میں داعی اجل کولبیک کہے،سمجھواس کا بیڑہ پارہوگیا۔امیرالمومنین کی یہ دعااللہ کی بارگاہ میں یک بارقبول ہوگئی۔ حبِ نبیﷺکے نادرنمونے ہمیں صحابہ کی پاک زندگیوں میں کہاں نہیں ملتے؟ایک برگزیدہ صحابی حضرت ثوبان ؓکے بارے میں آتاہے کہ آپ اکثربیمار رہنے لگے،طبیعت کی ناسازی روزبروزبڑھتی چلی گئی۔ صحابہ کباربیمارپرسی کرتے تویہ اپنے دل کاحال ان قدسی صفات پربھی ظاہرنہ کرتے،شکریہ کرکے بات ٹال دیتے۔آخر پیغمبر دوجہاںﷺنے پوچھاتوصاف صاف عرض کی، یارسول اللہ ﷺ!ایک خیال دل میں آتے ہی طبیعت خراب ہوجاتی ہے۔سرور دوعالم ﷺ نے پوچھا، کیا خیال آتا ہے؟عرض کی،اے اللہ کے رسولﷺ! اب زندگی میں جب تک آپﷺکا دیدارنہ ہوچین نہیں آتا۔سوچتاہوں مرنے کے بعد کیاہوگا؟اگراللہ نے اپنے فضل عنایت سے مجھے جنت عطابھی کی تب بھی معلوم نہیں آپﷺکہاں ہوں گے اورمیں آپﷺکے روئے نازنین کی زیارت کئے بغیر جنت میں کیوںکرتسکین و طمانیت پاؤں گا؟معلوم ہی نہیں وہاں آپﷺکے چہرہ انورکادیدارکرنے کے لئے مجھے کیاکیاپاپڑبیلنے پڑیں گے۔ حضورﷺ نے فرمایا:ثوبانؓ!تم جس سے محبت کرتے ہواسی کے ساتھ رہوگے۔پھرآپﷺنے قرآن کریم کی وہ آیت تلاوت فرمائی جو اسی موقع پرعرش ِمعلی سے نازل ہوئی،جواللہ اور اس کے رسولﷺکی اطاعت کرتے ہیں وہ ان لوگوں کے ساتھ ہی رہیں گے جنہیں اللہ تعالی نے نعمتوں سے نوازاہوگا ۔ یہ توصحابہ کبارکے عشق رسولﷺکے احوال وکوائف تھے۔اولیائے کاملین نے کامل اتباعِ سنت کرکے اپنے بیدادعشقِ رسولﷺکی لاج رکھی۔ حضرت بایزید بسطامی نے ایک مرتبہ بڑے اشتیاق سے خربوزہ منگوایالیکن اس خیال سے کہ پہلے یہ معلوم کرناچاہیے کہ آپﷺخربوزہ کیسے تناول فرماتے تھے،پتہ چلاکہ رحمت عالم ﷺ نے کبھی خربوزہ تناول فرمایا ہی نہیں۔بایزیدبسطامی نے خربوزہ کھانے سے ہی انکارکردیا۔ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب دل کا کیا رنگ کروں خون ِجگر ہونے تک جونہی گنبدِخضراپرپہلی نظرپڑی تویقینادل کو تھامنابہت ہی مشکل ہوگیاکہ محسن انسانیت ﷺ کے درپر حاضری،اپنی قسمت پررشک آنے لگاکہ ایسی عظیم الشان شخصیت جس پرخوداللہ اوراس کے ملائکہ کثرت سے درودپڑھتے ہیں اوراہل ایمان کوبھی حکم دیاگیا کہ وہ بھی کثرت سے درودپڑھتے رہاکریں۔ (جاری ہے)