اہم خبریں

ہندو فسطائیت اورعالمی برادری کی بےحسی

ہندو انتہاء پسند تنظیموں کی نظریاتی ماں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنے ایک انٹرویو میں بھارتی مسلمانوں کو کھلے عام دشمن قرار دیاتھا اور کہاھا کہ بھارتی معاشرہ ایک صدی سے اپنے اندر موجود عناصر کے خلاف برسرپیکار ہے ۔بھاگوت نے ایک طرف یہ کہا کہ مسلمانوں کو اپنی بالادستی کا بیانیہ ترک کرنا ہوگا تو دوسری طرف ہندو مذہب کو بہترین قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمانوں ، عیسائیوں، اور دیگر مذاہب کے علاوہ کمیونسٹس اور کیپٹلسٹس غرض کہ سب کو سناتن دھرم یا ہندومت کی راہ اختیار کرنی ہوگی کیونکہ بقول ان کے” ہم ہی صحیح ہیں، ہمارے رحم و کرم پر رہو، یا پھر ہم تمہیں تباہ کر دیں گے۔”

اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے آل انڈیا مسلم مجلس نے اسے بھارت کے آئین اور تاریخی حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔مجلس کے قومی صدر پروفیسر بصیر احمد خان نے ایک بیان میں کہا کہ آرایس ایس اور اسکی ذیلی سیاسی تنظیم بی جے پی کو اس قدر گھمنڈ ہو گیا ہے کہ وہ مسلمانوں کو ہدایات دینے لگے ہیں کہ انہیں ملک میں کس طرح رہنا چاہیے ، کیا کرنا چاہیے اور کیانہیں کرنا چاہیے۔ انہوں نے اسے مسلمانوں کی توہین قرار دیتے ہوئے کہا کہ مسلمان بھارت میں کسی کی اجازت سے نہیں بلکہ اپنی مرضی سے رہ رہے ہیں اور بیس پچیس کروڑ لوگوں کو نکالنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس کے موجود ہ سربراہ نے اندرونی دشمنوں سے لڑنے کی بات کہہ کر دراصل گورو گولوار کر کے الفاظ دہرائے ہیں کہ مسلمان ، عیسائی اور کمیونسٹ ملک کے دشمن ہیں ،یہ سوچ ملک کے اتحاد اور سالمیت کیلئے خطرناک ہے ۔ موہن بھاگوت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف زہر اگلنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتےبلکہ اگر یہ کہاجائے کہ ان سمیت دیگر تمام ہندو دہشت گرد تنظیموں کی روزی روٹی اسی تعصب اورمنافرت میں ہے تو بے جا نہ ہوگا۔یہ آئے روز اورکھلے عام غیر ہندوؤں خاص طور پر مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں مگر ملک کا قانون اور انتظامی مشینری ان پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔اگر ایک طرف پورے شعور، مطالعہ، تجربہ اور رغب کے ساتھ کوئی ہندو اسلام یا کوئی دوسرا مذہب اختیار کرتا ہے یا کوئی ہندو لڑکی غیر ہندو سے شادی کرتی ہے تو اسکو دوسرے مذہب کی طرف سے ہندو مت پر حملہ قرار دیتے ہوئے اسکے انسداد کے نام پر حالیہ عرصہ کے دوران بنائے گئے غیر جمہوری، ظالمانہ اور امتیازی قوانین کا اطلاق کرکے انکے خلاف سخت کارروائی کی جاتی ہے جبکہ دوسری طرف ہندو جماعتوں کے رہنماء اور صوبوں کے وزراء تو دور، مرکزی حکومت تک کے وزراء بھارت کو ہندوراشٹر بنانے، مسلمانوں کو مٹانے یا بھگانے کی یا انھیں گھر واپسی کے نعرے کے تحت سناتن دھرم میں بقول انکے واپس لانے کی دھمکیاں دیتے ہیں، بھارت میں رہنا ہے تو رام رام کہنا ہے جیسے نعرے لگاتے ہیں، خودکار ہتھیار اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بھاگوت نے آر ایس ایس کی سالانہ دسہرہ ریلی میں اپنی تقریر میں آبادی کے عدم توازن پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور مسلمانوں کی آبادی میں اضافے کو روکنے کے لیے ایک جامع پالیسی بنانے پر بھی زور دیا تھا۔ حالانکہ زمینی صورتحال اور سرکاری اعدادو شمار اسکے برعکس تصویر پیش کررہے ہیں۔ بھارت میں مجموعی طور پر فرٹیلیٹی ریٹ(TFR) دو فیصد تک گر گیا ہے۔ خاندانی صحت کے سرکاری سروے کے مطابق مسلمانوں میں TFR سب سے کم ہے۔جبکہ دوسری طرف ہندوؤں کے ہاں لڑکیوں کا پیدائش سے قبل یا فوری بعد قتل کئے جانے کا رجحان بہت زیادہ ہے۔اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 2000 سے 2019 کے درمیان 90 لاکھ ہندو لڑکیوں کو پیدا نہیں ہونے دیا گیا۔ بچیوں کی پیدائش کے روکنے یا قتل کے اس رجحان پر یونیسیف گذشتہ 40 برسوں سے تشویش پر مبنی رپورٹس جاری کرتا ہے۔سنگھ پریوار اپنے غلیظ سیاسی اور فسطائی مقاصد کے تحت ہندؤں کو یہ خوف دلارہے ہوتے ہیں کہ 2050 میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے زیادہ ہوجائے گی حالانکہ بھارت کامردم شماری کا ریکارڈ اور غیر سرکاری و بین الاقوامی تنظیموں کی تحقیق کے مطابق یہ سراسر جھوٹا پروپیگنڈہ ہے۔ہندو انتہاء پسند تنظیمیں جھوٹ بول کر ہندؤں کو گمراہ کررہی اور اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف اکسارہی ہیں۔ جموں کے معروف انگریزی روزنامے”Early Times” نے اپنی ایک رپورٹ اور سیاسی تجزیہ کاروں نے اپنے تجزیوں میں کہا تھا کہ RSS کا ہدف 2025 سے پہلے مقبوضہ جموں و کشمیر کو ہندو ریاست میں تبدیل کرناہے۔ 2025 میں چونکہ اس فسطائی تنظیم کےقیام کے 100 سال مکمل ہوجائیں گے چنانچہ منصوبہ یہ بنایا گیا کہ اس موقع پر جموں و کشمیر ہندو ریاست بن چکی ہو۔ آر ایس ایس وادی کشمیر میں ویران مندروں کی تزئین و آرائش اور ہمالیہ کی اونچی چوٹیوں پر نئی شاخوں کے قیام کے لیے لئے بھی کوشاں ہے۔ علاقے میں قدیم مندروں کوآباد کرنے پر آر ایس ایس اپنی2019 کی سالانہ رپورٹ میں کہتا ہے ” پرمنڈل “ جموں سے 40 کلومیٹر دور دیویکا دریا کے کنارے ایک مقدس مقام ہے جوایک وقت سنسکرت سیکھنے کا مرکز تھا۔ بلکہ اس”مرکز”کی بحالی کے لیے ایک ٹرسٹ بھی تشکیل دیا جاچکاہے۔ ہندوستان جس تیزی سے نفرت و عداوت، لاقانونیت، نسل پرستی، اکثریتی زعم، فسطائیت، شدت پسندی اور خوف و ہراس کی طرف بڑھ رہا ہے یہ نہ صرف انتہائی افسوسناک ہے بلکہ بھارت کی اپنی بقا اور پورے جنوبی ایشیاءکیلئے بھی خطرناک ہے، مودی اور ہندو انتہاء پسند تنظیموں کے گماشتوں نے پورے ملک میں نفرت کا زہر گھول دیا ہے۔ ہر غیر ہندو یہاں تک کہ اعتدال و انصاف پسند ہندو بھی بے یقینی اور خوف و ہراس کی فضا میں سانس لے رہا ہے۔موہن بھاگوت اور دیگر ہندو انتہاء پسند لیڈروں کے یہ خطرناک بیانات، ملک میں اقلیتوں، خاص کر مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالیوں، ان کی عبادت گاہوں پر حملوں، کئی ریاستی حکومتوں کی جانب سے مسلمان مخالف قانون سازی اور ریاستی سرپرستی میں ہونے والے دیگر مظالم کے ساتھ ساتھ بدترین ہوتا ہوا اسلاموفوبیا بھارت میں مسلمانوں کی قابل رحم حالت کی نشان دہی کر رہا ہے۔ مسئلہ کشمیر پہلے ہی اس خطے میں نزاع ، کشیدگی، جنگوں، بے اعتمادی، فوج و اسلحہ سازی کی وجہ بنا ہوا ہے۔

متعلقہ خبریں