اہم خبریں

فوجی عدالتوں میں سول شہریوں کےخلاف مقدمات

(گزشتہ سے پیوستہ) تحریک استقلال کے ریٹائرڈ میجر سردار خان کو پولیس کے ریکارڈ میں میجراسحاق قراردیا گیا اور ملٹری کورٹ میں جرح کے دوران بھی سب انسپکٹر نے انہیں میجر اسحاق کے نام سے پکارا۔ مسلم لیگ کے زبیراحمد بٹ اور پی ڈی پی کےعبدالرشید قریشی ایڈووکیٹ کےلیے تو انہیں کافی پریشانی اٹھانا پڑی ۔بالآخر جب مختلف اسیروں کے رشتہ دار معلوم ہونے پرگھروں سےملاقات کے لیے آنے لگے تو ان کی زبانی پولیس نے نام وغیرہ معلوم کر لیے۔ بلکہ قریشی صاحب کا نام تو انہیں معلوم ہی نہ ہوتا اگراچانک ان کے شہر ہارون آباد کا ایک پولیس کانسٹیبل کسی کام سے تھانہ چوہنگ نہ آجاتا، اس کے آنے سے ان کی مشکل حل ہوئی اوراس طرح ایف آئی آر میں ملزموں کے نام بمشکل تمام درج ہو سکےلیکن یہ تو صرف نام تھے، ولدیت اور پتہ کے خانے بدستورخالی رہے۔

۶ مئی کو جمعہ کی نماز مولانامحمد اجمل خان صاحب نے تھانہ چوہنگ کی مسجد میں پڑھائی اور اس کے بعد کرفیو کے دوران ہمیں تھانہ چوہنگ سے نکالا گیا۔ تھانہ سول لائن پہنچے تو تھانہ مناواں والے ۳۱ ساتھی بھی لائےجاچکےتھے۔ وہاں سے ہمیں اکٹھا گلبرگ میں مجسٹریٹ شوکت کی کوٹھی پرلےجایا گیا۔ مجسٹریٹ صاحب ریمانڈ دینے کے لیے کوٹھی سے باہر تشریف لائے تو میاں محمود علی قصوری صاحب نےان سے کہا کہ ہمارا یہ قانونی حق ہےکہ ریمانڈدیتے وقت ہمیں وکیل دوستوں کی موجودگی کی سہولت فراہم کی جائے۔ مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ کرفیو کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔ اس پر میاں صاحب نے کہا کہ پھر آپ صرف کل تک ریمانڈ دیں اورکل ہمیں عدالت میں طلب کریں۔ مجسٹریٹ نے جواب دیا کہ ٹھیک ہے میں کل آپ کو بلاتا ہوں۔ میاں صاحب نےمجسٹریٹ سے کہا کہ ہم لوگ قومی اتحاد کی مرکزی کونسل کے ارکان اور اپنی اپنی جماعتوں کے عہدہ دار ہیں اور ان میں بہت سے وکلاء بھی ہیں اس لیے ریمانڈ کے ساتھ ہمیں جیل میں اے کلاس کی سہولت دینے کا آرڈر بھی جاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ میں سب کے لیے بی کلاس لکھ رہا ہوں۔ میاں صاحب کے اصرار پر انہوں نے کہا کہ میں سب کے لیے اے کلاس کر دیتا ہوں۔ میاں صاحب نے ان سے کہا کہ آپ جو فیصلہ لکھیں وہ ہمیں سنا کر جائیں۔ اس کے بعد مجسٹریٹ صاحب وہاں سےچلے گئے اور ہمیں کیمپ جیل پہنچا دیاگیا۔ وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مجسٹریٹ صاحب نے ۱۶ مئی تک دس دن کاریمانڈ دیا ہے اور میاں محمود علی قصوری سمیت صرف تین وکلاء (باقی دو وکلاء کا نام لیےبغیر) کے لیے اے کلاس لکھی ہے اور باقی سب کے لیے سی کلاس کا حکم ہے۔ جیل حکام کو مجسٹریٹ کے زبانی احکام سے آگاہ کیا گیا لیکن وہ سوائے افسوس کے اور کیا کر سکتے تھے۔ انہیں بتایا گیا کہ ۵۵ افراد کے اس قافلہ میں ایک درجن کے قریب وکیل ہیں اور باقی لوگ بھی سیاسی پارٹیوں کے ذمہ دار کارکن اورشریف شہری ہیں،جیل حکام نے اس سلسلہ میں حکام بالاسےبھی رابطہ قائم کیالیکن نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ بالآخر باہمی مشورہ سے طے پایا کہ میاں محمود علی قصوری، راجہ محمد افضل اور عبد الرشید قریشی کو اے کلاس بھیج دیاجائے اورباقی حضرات سی کلاس میں رہیں۔ اصغر محمود ایڈووکیٹ کے سوا باقی وکلاء کو بھی تیسرے روز ہائی کورٹ کے حکم پر اے کلاس کی سہولت دے کر کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا جبکہ مرکزی کونسل کے باقی ۱۴ ارکان کو بعد میں ملٹری کورٹ کی ہدایت پر کیمپ جیل میں بی کلاس دے دی گئی۔ اس وقت تک ہمارے علم میں یہ تھا کہ ہم پر تھانہ سول لائن میں ڈی پی آر کی دفعہ ۴۹/۹۲ کے تحت مقدمہ ۲۱۷/۷۷ درج کیاگیاتھالیکن سات مئی کو مغرب کے بعد ۳۹ کیبلری کے لیفٹیننٹ کرنل نصیراحمد کیمپ جیل آئے اور ان سے پتہ چلا کہ ہم پر آرمی ایکٹ کی دفعہ ۵۹ بھی عائد کی گئی ہےاوروہ مارشل لاء احکام کے مطابق سمری ملٹری کورٹ کی حیثیت سے ہمارے خلاف مقدمہ کی سماعت کریں گے۔ لیفٹیننٹ کرنل کی آمد تک مقدمہ کے ریکارڈ میں ہمارے صرف نام تھے، ولدیت اور پتہ کے خانے خالی تھے۔ موصوف نے ملٹری کورٹ کی طرف سے ہمارے ریمانڈ کی توثیق کی اور ہم سب کے نام،ولدیت اورپتے نوٹ کیے۔ اس موقع پر یہ بات دلچسپی سے خالی نہ ہوگی کہ ۵۵ افراد کےگروپ میں غلام رسول نامی ایک صاحب کوجیل حکام نےوجہ بتلائے بغیر رہا کردیا جس کی وجہ آج تک معلوم نہیں ہو سکی اس کے بعد ہم ۵۴ افراد رہ گئے۔ لیفٹیننٹ کرنل دوسرے روزپھرجیل آئےاورملٹری اتھارٹی کی طرف سے ہم ۵۴ افراد کو چارج شیٹ دی کہ ہم نے مسلم لیگ ہاؤس میں ایک غیرقانونی میٹنگ میں شریک ہو کر مارشل لاء احکام کی خلاف ورزی کی ہے اور ہم پر اس الزام میں سمری ملٹری کورٹ میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ ۱۱ مئی کو کیمپ جیل کے ساتھ ملحقہ جیل ملازمین کے تربیتی سکول میں سمری ملٹری کورٹ کی کارروائی کا آغاز ہوا جو ۳ جون تک جاری رہی۔ لیفٹیننٹ کرنل وقار نصیر احمد کارروائی کی سماعت کرتے تھے اور ان کے ساتھ کیپٹن آصف، کیپٹن داؤد اور کبھی کبھار میجر ریاض شیخ بھی آتے رہے۔ پہلے روز عدالت نے حلف اٹھایا کہ وہ اپنے فرائض دیانت داری کے ساتھ ضمیر اور انصاف کے فیصلہ کے مطابق ادا کرے گی۔ اس کے بعد ہمیں چارج شیٹ پڑھ کر سنائی گئی، ہم سب نے متفقہ طور پر اس کا جواب دیا کہ ’’ہم نے کوئی جرم نہیں کیا۔‘‘ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر عامر رضا خان اور معروف قانون دان ایم انور بارایٹ لاء ہمارے قانونی مشیرکی حیثیت سے عدالت میں موجودتھے،انہوں نے کسی قانونی نکتہ پر کچھ کہنا چاہا تو لیفٹیننٹ کرنل نے مخصوص فوجی انداز میں انہیں روک دیا۔ اس سے قبل موصوف چارج شیٹ سنانے کے دوران ’’تم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ تم لوگوں نے ۔ ۔ ‘‘ کے الفاظ ادا کرتے ہوئے کافی گھن گرج کا مظاہرہ کر چکے تھے اور جیل کے گیٹ سے عدالت کے دروازے تک فوجی جوانوں اور سنگینوں کی قطارمشاہدہ میں آچکی تھی چنانچہ میاں محمود علی قصوری اٹھے اور اپنے مخصوص مرعوب کن لہجے میں عدالت کو اس صورتحال کی طرف متوجہ کیا۔ ان کاکہناتھا کہ ہم اس سے پہلے بھی ملٹری کورٹس میں متعددبار پیش ہو چکے ہیں، ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں پیش ہوتے ہوئے عمر گزر گئی ہے لیکن کسی جگہ بھی اس طرح ’’تم تم‘‘ کی زبان میں ہمیں مخاطب نہیں کیا گیا جس طرح آج کیاگیا ہےاور نہ ہی اس طرح کبھی ہمارے معزز قانون دانوں کی توہین کی گئی ہے۔ میاں صاحب نے عدالت سے کہا کہ اگر ہم سے شریفانہ زبان میں بات کی جائے گی تو جواب بھی شریفانہ ملے گا لیکن غیر شریفانہ زبان استعمال کی گئی تو ہم بھی اسی زبان میں جواب دینے پر مجبور ہوں گے۔ میاں صاحب نے ایم انور بارایٹ لاء اور عامررضا خان کے ساتھ عدالت کے توہین آمیز سلوک پر احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ عدالت ان سے معافی مانگے۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں