اہم خبریں

ضمیربرائے فروخت

(گزشتہ سےپیوستہ) آئیے ذرا بڑے کینوس پرنظردوڑاتے ہیں۔ مسلسل کئی سال تک عوام کوموجودہ نظام سے متنفرکرکے کبھی ’’’نظام مصطفی‘‘ کے فیوض وبرکات اورکبھی فلاحی ریاست یعنی ریاست مدینہ کے خواب آنکھوں کوعطیتابخشےگئے لیکن ان آنکھوں کوتعبیرسے روشناس کرانے کی بجائے قصر ِاقتدارمیں جاکرعوام کی آنکھوں میں دھوکے کی خاک ڈال کراپنے پاپی پیٹ کوبھرنے میں کوشاں رہے اورہرکسی نے اپنے پیشروئوں کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے خودکو بری الذمہ قرار دے کر نئے حملوں کی تیاریوں میں مصروف ہو جاتے ہیں لیکن اب جب معاشی حقیقتیں کھل رہی ہیں تو آنکھیں اندھی ہوگئی ہیں۔ہرکوئی ملک کی تباہی کی ذمہ داری ایک دوسرے پرڈال رہاہے۔
اس معاشی ابتری اوربدحالی میں اب ہر کوئی ایک دوسرے سے پوچھ رہاہے کہ کیسے کیسے حکمران آئے ہیں کہ قرضوں کی دلدل سے نکالنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کے پاس ہمارے موٹر ویز، ائیرپورٹس اوردیگرملکی قیمتی املاک کوگروی رکھ دیا گیا ہے، اوراب مزیدملکی اثاثہ جات کو غیرملکی اداروں کوفروخت کرنے کاقانون بھی پاس ہوچکاہے۔ عنقریب سننے میں آئے گاکہ کہیں کوئی شہربک رہا ہے،کہیں ریاست کاسودا ہونے جارہا ہے۔یہ کیسے سوداگرہمارے حکمران بن گئے ہیں؟ ساراملک پنساری کی دوکان بن گیا ہے۔ معلوم نہ تھاکہ اتنا کچھ ہےگھرمیں بیچنے کیلئے، زمین سے لے کر ضمیرتک سب برائے فروخت لگا دیا گیاہے، سب بکتاجارہا ہے۔ اس سے زیادہ بدنصیبی کیاہوگی کہ عوام کادل جیتنے کیلئے کاغذکاایک ٹکڑالہراکرنعرہ لگایا گیا کہ میں اپنی قوم کوکسی کاغلام نہیں بننے دوں گا جبکہ غلامی تویہ ہے کہ178سیٹیں رکھنے کے باوجود 10سیٹیں رکھنے والے ڈاکوکے سامنے خود لیٹ گئے اوراپنی پوری پارٹی سے ایک بھی ایسا باصلاحیت بندہ نہ ملاجس کوملک کے سب سے بڑے صوبے کاوزیراعلی بناسکتے۔ عین وقت پرق لیگ کے رہنما اورصدرچوہدری شجاعت حسین نے ڈپٹی سپیکر کو خط لکھ کرپانسہ ہی پلٹ دیااورڈپٹی سپیکرکے اس فیصلے نے جوبھونچال پیداکیا،اس کو سنبھالنے کیلئے اسی دن اعلیٰ عدالت کا دروازہ پیٹناپڑگیا۔حیرت کی بات تویہ تھی کہ جہاں پہلے سے عمران خان کی دو درخواستیں موجود تھیں،پہلی درخواست کہ عدالت کوپارلیمانی کارروائی میں مداخلت کاکوئی اختیار نہیں دوسری درخواست میں یہ استدعاکی گئی ہے کہ عدالت پارلیمانی کارروائی میں مداخلت کرے۔اب قوم خودفیصلہ کرلےکہ اپنے مفادات کیلئے کیساگھناؤناکھیل کھیلا گیا؟ہم کہاں کھڑے ہیں۔جن لوگوں پران کا لیڈر چندمنٹ کیلئے بھروسہ نہ کرے اورہوٹل میں نظربند کردے کہ کوئی ان کی وفاداریاں نہ خریدلے لیکن اب آپ خودفیصلہ کرلیں کہ وہ تمام جیالے کس طرح خزاں رسیدہ پتوں کی طرح پارٹی کو داغِ مفارقت دیکردوسری جماعتوں میں چلے گئے جس طرح انہوں نے پہلے اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرکے عمران خان کا ساتھ دیاتھا۔خود سوچیں کہ قوم کی تقدیرایسے افرادکے ہاتھ میں کیسے دی جاسکتی ہے۔اگرآپ کویادہوتوضمنی الیکشن جیتنے کے فوری بعدعمران خان نے الیکشن کمشنر پرعدم اعتماد کااظہارکرتے ہوئے عہدہ چھوڑنے کا مطالبہ کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کیاتھا کہ وہ اب کوئی الیکشن اس الیکشن کمشنرکے ہوتے ہوئے نہیں لڑیں گے لیکن اقتدارکے حصول کیلئے یہ فیصلہ بھی واپس لے لیا۔ ادھرموجودہ حکومت میں شامل گیارہ سیاسی جماعتوں نے فل بینچ بنانے کاجومطالبہ کیا تھا،وہ عدلیہ کی طرف سے مستردہونے پر پی ڈی ایم نے آئندہ عدالتی کاروائی کابائیکاٹ کرکےمقدمے سے علیحدگی اختیار کرلی جس کے جواب میں چیف جسٹس اور حکومتی وکیل کے درمیان انتہائی سخت اورناپسندیدہ جملوں کاتبادلہ ہواجبکہ اصول تویہ ہے کہ اگر کسی ایک جج پر مدعی غیر اطمینان کا اظہارکردے توجج خوداس مقدمے سے الگ ہو جاتا ہے۔گویااس وقت پاکستان کےساتھ کھڑے ہونے کی بجائے ادارے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں۔تاہم پارلیمانی جمہوریت میں اختیارعدالت کوتفویض ہورہے ہیں اورشخصی آمریت کی مثالیں دینے والے خوداشخاص کی آمریت کے پروردہ بن رہے ہیں، دھمکی، دھونس اور زبردستی کے سامنے آئین محض کاغذ کاٹکڑابن چکا ہے اورناپائیدارجمہوریت کو آمریت سے زیادہ فسطائیت کے حوالے کردیاگیاہے۔ سابقہ حکومت نےاپنےدورمیں پارلیمانی جمہوریت کوصدارتی آرڈیننس کےذریعے کنٹرول کیا اورعجب تماشہ ہے کہ آئینی بالادستی کوعدالتی فیصلوں کے کنٹرول میں دےدیاگیا ہے۔ صحافت، سیاست، معاشرت،ثقافت کو غیر مؤثر کرنے کیلئے ایسابدنام کیاگیاکہ طاقت کامرکزمحفوظ رہے مگر ایساکیسے ممکن ہوسکتاہے کہ جودھول دوسرے چہروں کودھندلاکرنے کیلئے اڑائی جائے آپ خود اس کے نرغے میں نہ آئیں۔اس سارے دورمیں دلچسپ تاثریہ دیاجارہاہےکہ اسٹیبلشمنٹ ایسی رضیہ ہےجو اپنے پالتوغنڈوں میں پھنس گئی ہےاور جنہوں نے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ عوام میں ایسا مقبول کردیا کہ برسوں کی محنت اورعزت سادات خاک میں ملانے میں کوئی کسرباقی نہیں رہی لیکن عدالت کے فیصلے ایساپانسہ پلٹ کررکھ دیتے ہیں کہ قوم سوچ رہی ہے کہ ملک میں جاری پچھتاوے اوروسوسے کی آگ کوبجھایاجارہاہے یا بھڑکایاجارہاہے،اب اس کافیصلہ آنے والاوقت بتائے گالیکن دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان ایک بارپھراسی صفحے پرجس کاآسراتھا،ان کی بانہوں میں سماجانے کی تمناکررہے ہیں۔ملک کی سیاسی صورتحال،طاقتوراداروں کی موجودہ صورتحال پربے ساختہ شعریادآگیا۔ شہرکے آئین میں یہ مدبھی لکھی جائے گی زندہ رہنا ہے تو قاتل کی سفارش چاہئے تاہم چارسال پہلے اور9مئی کو ہاتھوں سے لگائی گانٹھیں،آج دانتوں سے بھی نہیں کھل رہیں اورنتیجہ معاشرہ تقسیم درتقسیم ہوتا چلا جارہا ہے۔تمام ادارے تفریق کاشکارہیں،شخصیات نے ذاتی مفادکیلئے قومی مفادات داؤپرلگادیئے ہیں۔ آئین کی عملداری شخصیت پرستی کی نذرہو گئی ہے، جمہوری نظام خطرے میں ہے اوربچی کھچی معاشی خودمختاری دائو پر، بچاؤ کاصرف ایک ہی راستہ ہے۔چہرے نہیں نظام بدلنے کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں