(گزشتہ سے پیوستہ) ایشیائی ترقیاتی بینک اور آئی ایم ایف کے مطابق پاکستان کے 22 کروڑ افراد میں سے پانچواں حصہ پہلے ہی قومی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔اس وقت افراط زر تقریباً 30فیصد پر چل رہا ہے، دولت کا فرق بہت زیادہ ہے، اور امیر ٹیکس سے بچ جاتے ہیں۔ صرف ٹیکسٹائل کی صنعت میں تقریباً 70 لاکھ کارکن اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں کیونکہ پیداواری لاگت بڑھنے اور برآمدات میں کمی سے یہ شعبہ بری طرح متاثر ہواہے۔ ناقص پالیسیوں کا ذمہ دار ہرحکمران دوسرے کو ٹھہراتا ہے جس نے پاکستان کو اس معاشی دلدل میں پھنسا دیا ہے۔ تجارتی خسارہ ،کرنسی کی قدر میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔اس وجہ سے درآمدی لاگت میں اضافہ، قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہے ، کاروبار کرنے کی لاگت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ٹیکس سے بچنے اور کرپشن نے حکومت کے قرضوں کے بوجھ کو بھی بڑھا دیا ہے۔
پاکستان میں، دیہی گھرانوں میں سے 5 فیصد امیر ترین کل زرعی زمین کے تقریباً دو تہائی حصے پر قابض ہیں۔یہ امیر جاگیردار ٹیکس بالکل نہیں دیتے اور غریب ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ چین نے 700 ملین ڈالر کی کریڈٹ سہولت کی منظوری دی ہے۔اسلام آباد آئی ایم ایف کے ساتھ بھی بات چیت کر رہا ہے تاکہ 2019 ء میں 6.5 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ سے 1 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔ پاکستان نے مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ کو اپنایا، ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ کیا۔ سبسڈی کی واپسی، اور مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لئے محصولات پیدا کرنے کے لیے مزید ٹیکس لگائے۔ پاور سیکٹر کے قرضوں ، پالیسی ریٹ میں اضافے پرغور ہوا، جو اس وقت 17 فیصد ہے۔بین الاقوامی اداروں کی پالیسیاں پاکستان کے بحران کو مزید بڑھا سکتی ہیں۔ہمارے درآمدی بل میں پہلے ہی سالوں میں اضافہ ہوا ہے اور اب آئی ایم ایف غیر محدود درآمدات کا مطالبہ کرتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ آنے والے سالوں میں پاکستان کے درآمدی بل میں تیزی سے اضافہ ہو سکتا ہے۔ معیشت کو متحرک کرنے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ گھروں اور سڑکوں کی تعمیر سے، پاکستان مزید لاکھوں افراد کو غربت میں ڈوبنے سے روک سکتا ہے۔ ملک میں معاشی مواقع کی کمی کے باعث پاکستانی بیرون ملک ہجرت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مزدور یہاں دن میں 12 گھنٹے سے زیادہ محنت کرنے کے بعد پریشان ہیں اور وہ سوچتے ہیں کہ اگر وہ یہی کام اٹلی یا کسی دوسرے مغربی ملک میں کریں تو وہ بہت سارے پیسے کما سکتے ہیں، جس سے ان کے خاندانوں کی مدد ہو سکتی ہے۔لہذا لوگ بیرون ملک کام کی تلاش میں اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔خوراک کی بڑھتی ہوئی عدم تحفظ، ملازمتوں کی کمی اور بنیادی ضروریات کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے انہیںغیر قانونی طور پر یورپی ممالک کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور کیا ہے۔ ایجنٹ انہیں کنٹینرز میں باندھ دیتے ہیں یا انہیں بھری ہوئی کشتیوں میں دھکیل دیتے ہیں، جس کے نتیجے میں ایسے سانحات رونما ہوتے ہیں۔پاکستان کے وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانی،ترقی انسانی وسائل ساجد حسین طوری کا اعتراف چونکا دینے والا ہے کہ اپریل 2022ء سے اب تک 6لاکھ پاکستانی ملازمتوں کے لئے بیرون ملک جا چکے ہیں۔ پولیسنگ کی ناکامی ، اسمگلرز کا ملک کی بے روزگاری اور معاشی صورتحال کا کامیابی سے فائدہ اٹھا نا، چند سال میں انسانی سمگلنگ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ایف آئی اے کے اعداد و شمار کے مطابق، مرد، خواتین، بچے اور خواجہ سراء بھی انسانی سمگلنگ کا شکار ہوئے ہیں۔ ملک کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے، پنجاب میں، اسمگلنگ کے رپورٹ ہونے والے کیسز کی تعداد 6 تھی، جب کہ 2022ء میں یہ تعداد بڑھ کر 217 تک پہنچ گئی ہے جو کہ حیرت انگیز طور پر 3,517 فیصد اضافہ ہے۔سندھ میں 2020 ء میں 6 کیسز رپورٹ ہوئے اور اس سال انسانی اسمگلنگ کے 434 کیسز کی تعداد 7000 فیصد سے زیادہ ہے۔کے پی میں رپورٹ ہونے والے کیسز 2021 میں 71 سے کم ہو کر 2022ء میں 61 رہ گئے ہیں، بلوچستان میں 2020 میں 4 کیسز رپورٹ ہوئے، 2021 ء میں یہ تعداد بڑھ کر 87 ہوگئی، اور اس سال 38 تک گر گئی ہے۔اسلام آباد کیپٹل ٹیریٹری (آئی سی ٹی) میں، 2020ء میں اسمگلنگ کے کل رپورٹ ہونے والے 5 کیسز تھے اور 2022 ء میں بڑھ کر 26 ہو گئے ہیں۔ مجموعی طور پر، ایف آئی اے نے 2020 ء سے 2022 ء تک انسانی سمگلنگ کے 1,300 کیسز ریکارڈ کئے – مجموعی تعداد ریکارڈ کے مطابق اکتوبر 2022ء تک 7,000 افراد اسمگلنگ کا شکار ہو چکے ہیں۔ ایف آئی اے انسانی اسمگلنگ میں اضافے کے اہم عوامل مہنگائی، بے روزگاری اور وسائل کی غیر مساوی تقسیم قرار دیتا ہے۔ پولیسنگ کو بہتر بنانے اور انسانی اسمگلنگ کو روکنے کے لئے بنائی گئی قانون سازی کو مؤثر طریقے سے نافذ کرنے کی ضرورت پر زوردیا جا رہاہے۔