اہم خبریں

فوجی عدالتیں، سپریم کورٹ کا9 رکنی بنچ ٹوٹ گیا

٭ صدر مملکت نے آرمی چیف کے تقرر کا مسئلہ آخری دنوں تک لٹکائے رکھا مگر سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کا تقرر حلف برداری سے تقریباً تین ماہ پہلے ہی کر دیا۔ آرمی چیف کا مسئلہ عمران خان کی خواہش پر لٹکایا کہ وہ جنرل فیض حمید کو آرمی چیف بنانا چاہتا تھا اور نئے چیف جسٹس کے تقرر کا تین ماہ قبل اعلان واضح طور پر موجودہ حکومت کی خواہش کے مطابق معلوم ہوتا ہے کہ روائتی طور پر آرمی کے نئے چیف کے اعلان پر پہلے والے چیف کی پہلے والی مکمل اختیاراتی کارکردگی مدھم ہو جاتی ہے اور مختلف حلقوں کی ساری توجہ نئے چیف پر مبذول ہو جاتی ہے۔ موجودہ حکومت کے موجودہ چیف جسٹس کے خلاف متعدد بیانات اور اقدامات کے ذریعے ناراضی کا اظہار کر چکی ہے، ان سے بار بار استعفے طلب کئے گئے جو بار آور نہ ہو سکے۔ اب حل نکالا گیا ہے تین ماہ پہلے نئے چیف جسٹس کے اعلان سے پہلے والے چیف جسٹس کے اقدامات اور احکام کو کم موثر بنایا جا سکے۔

یہ نچلے درجے کی حکمت عملی ہوتی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ دبنگ اور صاف گو جج، موجودہ چیف جسٹس کے بعض اقدامات پر معترض بھی رہے ہیں، حکومت کو یہ باتیں پسندیدہ دکھائی دیتی ہیں مگر یہ اس کی غلط فہمی ہے۔ جسٹس فائز عیسیٰ وکیل تھے تو جنرل ضیاء الحق کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے والے ججوں کے سامنے بطور وکیل پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ تین عدالتی کمشنوں کے رکن و سربراہ رہ چکے ہیں۔ اسلام آباد میں تحریک لبیک کا دھرنا ختم کرنے کے لئے فوج کے شعبہ آئی ایس آئی اور آئی ایس پی آر نے جو کھلے عام کردار ادا کیا اور تحریک کے ارکان کو واپسی کے لئے نقد کرائے دیئے، اس پر جسٹس فائز عیسیٰ کے سخت ریمارکس بہت نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ وہ لندن سے قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کئے ہوئے ہیں۔ انہیں اعزاز حاصل ہے کہ تحریک پاکستان کے دوران قائداعظم ایک ماہ تک ان کے والد قاضی محمد عیسیٰ کے گھر ٹھہرے تھے۔ قاضی محمد عیسیٰ بلوچستان میں پہلے مسلم لیگی اور پہلے قانون دان تھے۔ وہ پاکستان بننے کے بعد برازیل میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔ بہرحال جسٹس فائز عیسیٰ کی بلند آہنگ قانون پسندی اور صاف گوئی کسی بھی حکومت کو پریشان کر سکتی ہے۔ ٭ وزیراعظم شہبازشریف اس بات پر سخت برہم ہوئے ہیں کہ یونان کے قریب کشتی کے سانحہ کی ذمہ داری ملک کے مختلف ضلعی حکام پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے اپنے اضلاع میں انسانی سمگلنگ کا محاسبہ نہیں کیا۔ محترم وزیراعظم صاحب! بلاشبہ ضلعی حکام کی غفلت اور غیرذمہ داری کے باعث اتنا بڑا سانحہ وقوع پذیر ہوا ہے مگر اصل ذمہ داری تو ایف آئی اے کے ’’کروڑ پتی‘‘ حکام اور ایف آئی اے کی حاکم وزارت داخلہ، بلکہ براہ راست وزیر داخلہ پر عائد ہوتی ہے۔ ضلعی حکام ہی نہیں، ایف آئی اے، پولیس، انٹیلی جنس بیورو، آئی ایس آئی سیکرٹری داخلہ، وزیرداخلہ اور ان سب پر حکمران، وزیراعظم صاحب خود آپ پر عائد ہوتی ہے۔ وزیرداخلہ رانا ثناء اللہ کے سر پر سوار عمران خان کا بُھوت اترتا ہی نہیں، صبح، شام اسے اس حالت میں بھی فوجی عدالت کے حوالے کرنے کے خواب آتے ہیں۔ جب سپریم کورٹ واضح طور پر فوجی عدالتوں میں سول افراد کے مقدمات کے خلاف مختلف درخواستوں کا جائزہ لے رہی ہیں! وزیراعظم صاحب! ملک کے اندر امن امان کے قیام اور بیرون ملک پاکستانیوں کی حفاظت کے آپ وزیرداخلہ اور وزیرخارجہ براہ راست ذمہ دار ہیں۔ وزیرخارجہ کے ذہن پر وزیراعظم بننے کا خواب سوار رہتا ہے، کشتی کے سانحہ کا وزیرخارجہ بھی ذمہ دار ہے۔ ٭ بعض محکموں اور اداروں کی نقل و حرکت اندازہ ہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمان کی کوششوں کے باوجود اکتوبر یا نومبر میں ہونے والے ممکن انتخابات کو شائد ٹالا نہ جا سکے۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کے لئے وفاقی بجٹ میں 48 ارب روپے کی رقم مختص کئے گئے ہیں۔ اب خبر یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے ووٹروں کو ڈاک کے ذڑیعے بھیجے جانے والے 19 لاکھ15 ہزار ووٹوں کی چھپائی کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ ٭ پیپلزپارٹی نے اپنے سابق سیکرٹری جنرل سردار لطیف کھوسہ (سابق گورنر پنجاب) اور پارٹی کے سابق وزیرداخلہ و قانون اور سینٹ میں اپوزیشن لیڈر چودھری اعتزاز احسن کو پارٹی سے نکال دیا ہے۔ ان دونوں پر ’سچ‘ بولنے کا الزام ہے۔ اعتزاز احسن ممتاز قانون دان ہیں۔ قانونی معاملات میں صاف اور کھری باتیں کرتے ہیں۔ پارٹی نے انہیں بہت نوازا مگر اعتزاز احسن کا آصف زرداری پر کھلا احسان یہ ہے کہ زرداری صاحب کو اپنی ماہرانہ قانونی نکتہ دانیوں کے ساتھ سوئس عدالتوں کی زد میں آنے سے اتنی دیر تک بچایا کہ بالآخر ان عدالتوں میں پیش ہونے کی مقررہ مدت ہی گزر گئی اور زرداری صاحب کے خلاف واضح انداز میں کارروائی ختم ہو گئی۔ اعتزاز احسن نے بے نظیر بھٹو کے خلاف مصطفی جتوئی (نگران وزیراعظم) کے دائر کردہ سات بڑے بڑے ریفرنس میں اپنی قانونی مہارت کے ذریعے ختم کرائے۔ ایک دلچسپ واقعہ یہ بھی ہوا کہ لاہور ہائی کورٹ میں زیرسماعت ایک ریفرنس کے دوران اعتزاز احسن نے اسلام آباد کے ترقیاتی ادارے ’سی ڈی اے‘ کا ریکارڈ چیک کرنے کی درخواست دی۔ عدالت کے حکم پر سی ڈی اے کا سارا ریکارڈ ہزاروں فائلیں ٹرکوں میں بند لاہور ہائی کورٹ آ گئیں۔ ایک بڑے ہال کمرے کو خالی کر کے ان فائلوں کو جگہ جگہ پھیلا دیا گیا۔ دو تین دنوں کے بعد اعتزاز احسن نے اعلان کیا کہ مطلوبہ فائل نہیں مل سکی۔ سارا ریکارڈ پھر ٹرکوں پر واپس اسلام آباد بھیج دیا گیا۔ شائد بعض قارئین کے علم میں نہ ہو کہ نوازشریف کو جب گرفتار کیا گیا اور عدالتوں میں کوئی شنوائی نہیں ہو رہی تھی تو بیگم کلثوم نواز اپنے سخت مخالف چودھری اعتزاز احسن کے گھر آئیں اور انہیں نوازشریف کی طرف سے مقدمہ لڑنے کی درخواست کی۔ اعتزاز احسن نے ایک بااصول وکیل کے طور پر نوازشریف کی وکالت منظور کر لی۔ خود اعتزاز احسن کے بقول بیگم کلثوم نے فیس کے طور پر بھاری رقم پیش کی تھی۔ اتفاق یہ کہ باقاعدہ عدالت میں پیش ہونے سے پہلے ہی ملک کے سیاسی حالات تبدیل ہو گئے اور ابتدائی کارروائیوں کے ساتھ وکالت بیچ میں رہ گئی۔ میں ان واقعات کا ذاتی شاہد ہوں۔ ٭ نگران حکومتوں کا اصل کام انتخابات کرا کے اقتدار اصل منتخب حکومتوں کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں بعض ضروری انتظامی امور کی انجام دہی ضروری ہوتی ہے۔ نگران حکومتیں 60 یا70 دنوں کے لئے آتی ہیں اور رخصت ہو جاتی ہیں۔ پنجاب کی موجودہ نگران حکومت کی مدت 9 اپریل کو ختم ہو گئی، سپریم کورٹ نے 14 مئی تک اجازت دے دی۔ مگر 14 مئی کا دن گزر گیا۔ عملی طور پر نگران حکومت فارغ اور غیر موثرہو چکی ہے مگر جنگل کا راج چل رہا ہے۔ نگران حکومتیں زیادہ بڑے کاموں کی انجام دہی پر توجہ نہیں دے سکتیں مگر پنجاب کی نگران حکومت نے اپنی آئینی حدود سے باہر جا کر فوج کے زرعی فارم قائم کرنے کے مقصد کے لئے پنجاب کی 10 لاکھ ایکڑ اراضی فوج کو منتقل کر دی۔ اس اقدام کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا اور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد حسین چٹھہ نے نگران حکومت کے اس فیصلہ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ٭ بلاول زرداری نے کہا کہ ’’امپائر‘‘ نے مداخلت نہ کی تو میں وزیراعظم بن جائوں گا! امپائر سے مراد فوج ہے۔ فوج کے روکنے کے باوجود سیاست دان فوج کو سیاست میں گھسیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امپائر کا لفظ پہلے عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنے کے دوران استعمال کیا تھا جب ایک روز کنٹینر پر بڑے یقین کے ساتھ اعلان کیا کہ ’’ہفتے کی رات کو‘‘ امپائر کی انگلی اٹھ جائے گی۔ یعنی اس وقت کی حکومت کو آئوٹ اور عمران خان کی حکومت کو اِن کر دیا جائے گا۔ اب بلاول نے امپائر کی انگلی کا ذکر کیا ہے۔ سیاست دان مشغلہ کے طور پر فوج کا نام استعمال کرتے رہتے ہیں جبکہ آئین کی دفعہ 63 (ج) کی رو سے ایسا کرنا جُرم ہے۔

متعلقہ خبریں