کائنات کی وسعتوں سے ایک سیارچہ نکلا، خلا میں لہرایااورسیدھازمین کی طرف دوڑپڑا۔ زمین کے قریب پہنچ کرٹھٹکا،رکا،سیکنڈکے ہزارویں حصے میں کچھ سوچا،اپنے زاویئے میں ــپوائنٹــ‘‘ کا لاکھواں حصہ تبدیلی کی،شاں شاں کرتاہوازمین کے قریب سے گزرا،اور کائنات کے کسی اندھے غار میں گم ہو گیا۔یہ واقعہ 13جون 2002ء کو وقوع پذیرہوا۔ امریکا کو اس واقعے کی خبر16 جون2002 کوہوئی جب سیارچے کوگزرے ہوئے تین دن گزرچکے تھے۔ ناساکے حساس آلات نے پہلی باراس قیامت کی نشاندہی کی،خلائی تحقیق کے ماہرین کی ٹانگیں برف ہوگئیں،کچھ دیرکیلئے ناساکاسربراہ آنکھیں جھپکنا بھول گیا،دونوں ہاتھوں سے اپنے سرکوتھام کراس رپورٹ کو پڑھ رہا تھا تواس کی پسینے سے شرابورناک کے اوپربیٹھی عینک اس کی گودمیں آن گری۔ایساہونابھی چاہئے تھا۔کیونکہ دنیاکی تاریخ میں زمین سے انتہائی قریب سے گزرنے والایہ پہلاسیارچہ تھا۔یہ زمین سے ایک لاکھ تیس ہزار کلومیٹرکے فاصلے سے گزراتھا۔خلا میں اس فاصلے کوبال برابردوری سمجھاجاتاہے۔
سیارچے کی لمبائی130کلومیٹرتھی جبکہ اس کی رفتار23ہزارکلومیٹرفی گھنٹہ تھی۔اگریہ سیارچہ اپنے روٹ سے سنٹی میٹرکا لاکھواں حصہ دائیں بائیں ہو جاتاتوسیدھازمین سے آ ٹکراتا جس سے ہیروشیما کے ایٹم بم سے ہزارگنابڑادھماکہ ہوتا، مشرق سے مغر ب تک اور شمال سے جنوب تک آگ لگ جاتی،گھاس کی جڑوں سے چیڑکی بلند ٹہنیوں تک ہر چیزخاکستر ہو جاتی،سارے سمندروں کاپانی بھاپ بن جاتا،زمین کادرجہ حرارت وہاں پہنچ جاتاجہاں پتھرموم ہوجاتے ہیں۔ زمین کے اندرچھپے لاوے باہرنکلتے اورنیویارک کا آزادی کا مجسمہ بھی منہ کے بل اس زورسے گرتا کہ اس کی تمکنت اورتکبرکانام ونشان باقی نہ رہتا۔ ہمالیہ کی آخری چوٹی تک ہرچیز،ہرزندہ، نیم زندہ اورمردہ شئے پگھل کرسیال مادہ بن جاتی ۔ یہ سیال مادہ آگے بڑھتاتوروس کے10240، امریکا کے 8420، فرانس کے450، چین کے 400سو، برطانیہ کے260،اسرائیل کے160، انڈیا کے 82اور پاکستان کے67ایٹم بم پھٹ جاتے۔ زمین کادرجہ حرارت دس ہزارسنٹی گریڈ سے ایک کروڑچالیس لاکھ سنٹی گریڈتک پہنچ جاتا، زمین سورج بن جاتی۔یہ تباہی اوراس کے اثرات چار لاکھ سال تک قائم رہتے۔ساڑھے چارلاکھ سال کے بعدزمین پرآکسیجن پیداہوتی،جلی سڑی بلندیوں کے نشیب میں پانی بلورے لیتا،زمین کی تہوں سے کوئی ایک بیج باہرنکلتا،بیج سے ایک آدھ کونپل پھوٹتی اورپھر اس کونپل سے زندگی کا ایک نیاسفرشروع ہوتا۔یہ سفرزمین پرپہلے انسان کی صورت میں پڑاؤڈالتا۔وہ ننگ دھڑنگ انسان زندہ جانوروں کاخون پیتا،کچاگوشت کھاتا،اپنی بقاکیلئے پہاڑوں ،وادیوں،صحرائوں اورغاروں میں بھاگتا پھرتا۔اسے ٹھوکریں لگتیں،وہ گرتا تو لوہے کے چندراڈ،چندبھدی سی’’پتریاں‘‘کچھ کیل کچھ قبضے اس کے ہاتھ آلگتے۔وہ انہیں اٹھا کر بڑی حیرت سے دیکھتا،گمان کرتالیکن اس کاگمان تھک کربے بس ہوجاتا۔ اس چارلاکھ باون ہزارتین سوسال بعد کاانسان سوچ ہی نہیں سکتاکہ یہ چندراڈجنہیں وہ حیرت سے دیکھ رہاہے کبھی امریکاکے مجسمہ آزادی کے ہاتھ میں پکڑی مشعل تھی ۔یہ ’’پتریاں ‘‘ کیپ کینورل کے خلائی اسٹیشن پرکھڑی چاند گاڑیاں تھیں جن کی مدد سے انسان خلا کا سفر کرتا تھا۔ یہ کیل یہ قبضے وائٹ ہاؤس،پینٹاگون، 10 ڈائوننگ سٹریٹ،فرنچ پریذیڈنسی،جرمن چانسلری اور راشٹرپتی بھون کے ہیں۔وہ حیرت سے زمین پر پڑی ہڈیاں دیکھتا، کھوپڑیاں اٹھا کر سونگھتا اور پریشان ہوکرانہیں پرے ٹھوکردے مارتا اور بھاگ کھڑا ہوتاکیونکہ وہ قصرسفیدکے فرعون جارج بش،باراک اوباما،ٹونی بلئیر،گورڈن بران، کمانڈوجنرل پرویزمشرف اوراسامہ بن لادن کی کھوپڑیوں میں کوئی تفریق نہ کرسکتا۔تفریق تو خیر دوررہی،اسے تویہ تک معلوم نہ ہوتاکہ اسامہ بن لادن کون تھااوریہ خدائی کے دعوے کرنے والے کون تھے اوریہ بن لادن سے کیوں ناراض تھے؟ اسے غارکھودتے ہوئے ایک نوکیلی چیز ملتی، وہ دوتین نسلوں تک اس نوکیلی چیزسے کمرپر خارش کرتارہتایاکان صاف کرتارہتا،اسے معلوم ہی نہ ہوتاکہ یہ وہ تاریخی قلم ہے جس سے قصرِسفیدکے فرعون نے’’دہشت گردوں‘‘ کو اس صفحہ ہستی سے مٹانے کاحکم دیاتھا، اسے دو کھوپڑیاں قریب قریب پڑی ملتیں،وہ انہیں دیرتک حیرت سے دیکھتا رہتا اورسوچتارہتاکہ ’’یہ کون تھے؟‘‘ لیکن دنیامیں اسے انسانی شکارکادلدادہ خونخوار شیرون اورعرفات کے بارے میں بتانے والا کوئی نہ ہوتا۔اسے لوہے کا گھٹناملتا،وہ اسے لئے لئے پھرتالیکن اسے کوئی واجپائی کے بارے میں نہ بتاتا،اسے ایک سیاہ رنگ کاسخت قسم کا بدبودار جبڑہ ملتالیکن وہ یہ معلوم کرنے سے قاصررہتاکہ یہ سفاک اورمکارمودی کاہے۔اس زمین پرایک متکبر اور مغرورقسم کے انسان پرویزمشرف کی تنی گردن کی ہڈی کودیکھ کرکوئی جان نہ سکتاکہ یہ اپنی رعایاکودھمکیوں اورمکوں سے مرعوب کرتا رہتا تھا اور بعدازاں بزدل چوہے کی طرح ملک سے باہرکسی بل میں چھپا بیٹھارہااوروہی جان دے دی۔ وہ یہ کھوپڑیاں،یہ گھٹنے اوریہ ہڈیاں لے کر گھومتا رہتا،ایک کے بعددوسری نسل،دوسری کے بعدتیسری اورتیسری کے بعدہزارویں،دو ہزارویں، تین ہزارویں نسل آتی،انسان غاروں سے میدانوں،میدانوں سے بستیوں میں آتے، بستیاں شہر بنتیں، شہرنیویارک، واشنگٹن،شکاگو ، لندن، پیرس، فرینکفرٹ،ٹوکیو،بیجنگ اورماسکوبنتے، بڑی بڑی لیبارٹریاں،تجربہ گاہیں،لائبریریاں اور تحقیقاتی سنٹربنتے اورسفیدکوٹ پہن کرآئن اسٹائن قسم کے لوگ ان کھوپڑیوں،ان کیل قبضوں، پتریوں راڈوں کا مطالعہ کرتے،زمین پرملی دھاتوں، انسانی جلد، پگھلے لوہے اورتابکار مادوں کے مغلوبوں کا تجزیہ کرتے تومعلوم ہوتاکہ زمین پرکبھی ایک بش ہواکرتاتھا۔اس ملک کادفاعی بجٹ7سوبلین ڈالر سے کہیں زیادہ ہواکرتاتھا،اس نے اوراس کے حواریوں نے مہلک ترین ہتھیاروں کے انبار لگا رکھے تھے۔یہ لوگ صرف بیس کروڑ لوگوں کو انسان سمجھتے تھے،ان لوگوں کی ساری ترقی، ان لوگوں کی ساری سائنس، ساری ٹیکنالوجی ان بیس کروڑ لوگوں کی بقااور باقی پانچ ارب نوے کروڑ شودروں کی فناکے گردگھومتی تھی۔قصرسفیدکے مکینوں نے اپنی رہائش گاہوں کے نیچے ایٹمی پناہ گاہیں بھی بنا رکھیں تھیں،وہ خطرے کی اطلاع ملتے ہی چوہوں کی طرح ان پناہ گاہوں میں جاچھپتے تھے۔ ان کے پاس انتہائی تیزطیارے،پچاس ہزار کلومیٹرتک مارکرنے والے میزائل اورزمین کے دوسرے کنارے کی اطلاع لانے والے سیارے تھے، اوراس کے آلات وزیرستان کے پانچ لاکھ انسانوں میں سے القاعدہ کے16 ’’دہشت گرد‘‘ تلا ش کرلیتے تھے۔وہ خون کا ایک قطرہ دیکھ کربتادیتے تھے اس شخص کی دسویں نسل کاچوتھابچہ دہشت گردہوگا۔ زمین، سمندر ، ہوا،فضاہرجگہ اس کی حکمرانی تھی ۔وہ آئن اسٹائن4لاکھ 56ہزار 4سو21سال بعد کے آئن اسٹائن چندصاف ستھری نفیس کھوپڑیاں میزپرسجاکرایک دوسرے سے پوچھتے ’’پھر یہ لوگ مرکیوں گئے؟‘‘وہ سوچتے ’’جب زمین پرموت اتری توپانچ ارب اسی کروڑ شودروں کے ساتھ وہ بیس کروڑلوگ بھی کیوں مارے گئے جن کے پاس اپنی بقاکیلئے سائنسی ہتھیار موجودتھے۔‘‘(جاری ہے)