اہم خبریں

انسانی سمگلنگ

(گزشتہ سے پیوستہ) متاثرہ پاکستانی خاندانوں کے لئے فوری طور پر ہیلپ ڈیسک قائم کئے گئے ہیں۔ انہیں تفصیلات سے آگاہ کیا جارہا ہے۔کشتی پر سوار افراد کی درست تعداد کا تاحال پتا نہیں لگایا جاسکا، یونانی حکام نے غیر مصدقہ اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کشتی پر سوار افراد کی کل تعداد 750 کے لگ بھگ ہو سکتی ہے۔حادثے میں ایک زندہ بچ جانے والے شخص نے کالاماتا میں ڈاکٹروں کو بتایا کہ اس نے کشتی میں 100 بچوں کو دیکھا تھا۔ پولیس نے 15 جون کو انسانی اسمگلر ہونے کے شبہے میں 9 مصریوں کو گرفتار کرلیا، ان میں سے ایک اُس کشتی کا کپتان تھا جو تارکین وطن کو لے جا رہی تھی۔مرنے والوں میں سے لا تعدادکی شناخت تاحال نامعلوم ہے کیونکہ لاشیں ناقابل شناخت ہیں، یونانی حکام لاشوں کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کرائیں گے۔سفارت خانے کی جانب سے اپیل کی گئی کہ جن پاکستانیوں کو اندیشہ ہے کہ ان کے رشتہ داروں اس کشتی پر سوار تھے وہ شناخت کے لیے ڈی این اے کے نمونے بھیجیں۔ لاپتا شخص کے شناختی کارڈ یا پاسپورٹ نمبر کے ساتھ اس شخص کے والدین یا بچوں کی کسی معروف لیبارٹری سے حاصل کردہ ’شارٹ ٹینڈم ریپیٹ (ایس ٹی آر) ڈی این اے رپورٹ‘ پاکستانی سفارت خانے کے ای میل ایڈریس پر بھیجی جائے۔ یونان اور مصر میں پاکستانی سفرا کو بھی ہنگامی اقدامات کی سخت ہدایت کی گئی ہیں۔ وزیر داخلہ رانا ثنااللہ کو اپنے اداروں کے ذریعے تفصیلات جمع کرنے اور تحقیقاتی رپورٹ دینے کی ہدایت دی گئی ہے۔

وزیراعظم چاہتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث پائے جانے پر ایجنٹوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ڈی آئی جی عالم شنواری کو واقعے میں جاں بحق ہونے والوں اور زخمیوں کی معلومات و سہولت کے لیے فوکل پرسن مقرر کر دیا۔ چیف سیکریٹری آزاد جموں و کشمیر نے بھی پاکستانی سفارتخانے اور یونانی حکام سے رابطے اور جاں بحق و زخمی ہونے والوں کی معلومات کے لئے فوکل پرسن تعینات کر دیا۔ یونان میں پاکستانی سفارتخانہ واقعے میں ریسکیو کئے جانے والے 12 پاکستانیوں کی دیکھ بھال کر رہا ہے۔ ایف آئی اے لوگوں سے اپیل کر رہا ہے کہ جو اس واقعے میں ملوث ’مجرموں اور سہولت کاروں (ایجنٹ/انسانی اسمگلروں) سے متعلق معلومات رکھتے ہیں‘ ایجنسی کو مطلع کریں اور ان کے ساتھ معلومات شیئر کریں۔ایک ٹوئٹ میں ایف آئی اے نے کہا کہ ’کسی بھی شہری کے پاس یونان میں کشتی الٹنے کے خوفناک واقعے کے مجرموں اور سہولت کاروں (ایجنٹ/انسانی اسمگلروں) سے متعلق معلومات ہیں، بشمول کسی ایسے شخص کے بارے میں معلومات جو ایک یا زیادہ افراد کو بیرون ملک بھیجنے میں ملوث ہو سکتا ہے۔ متاثرین سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ ایف آئی اے اسلام آباد (آئی سی ٹی، راولپنڈی ڈویژن، گجرات اور لاہور) کے افسران کے ساتھ معلومات شیئر کریں۔ایف آئی اے نے مذکورہ ایف آئی اے دفاتر کے اہلکاروں کے رابطہ نمبرز اور ناموں کے ساتھ ساتھ ان کی پوسٹوں ، ہر برانچ کے ای میل ایڈریس بھی شیئر کئے۔ایف آئی اے معلومات کا اشتراک کرنے والے شہریوں کے ناموں کو سختی سے خفیہ رکھنے کا یقین دلا رہی ہے۔ برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ نے زندہ بچ جانے والوں کی شہادتوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پاکستانیوں کو زبردستی کشتی کے نیچے والے ڈیک میں بھیجا گیا ، دیگر قومیتوں کو اوپر والے ڈیک پر جانے کی اجازت دی گئی جہاں ان کے گرنے سے بچنے کا بہت زیادہ امکان تھا۔زندہ بچ جانے والوں کے بیانات سے پتا چلا کہ خواتین اور بچوں کو مردوں کے ہجوم سے بھری کشتی میں محفوظ رکھنے کے لئے کشتی کے نچلے حصے میں سفر کرنے پر مجبور کیا گیا تھا اور ان میں سے کسی کے بچنے کی اطلاع نہیں ہے۔دی گارجین نے دی آبزرور کا حوالہ سے کہا کہ پاکستانی شہریوں کو بھی نیچے والے ڈیک میں رکھا گیا، جب وہ تازہ پانی کی تلاش میں نظر آتے یا فرار ہونے کی کوشش کرتے تو عملے کے ارکان نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ایک رپورٹ میں مقامی میڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ کم از کم 298 پاکستانی ہلاک ہوئے ہیں جن میں سے 135 کا تعلق آزاد کشمیر سے تھا۔ اس سے پہلے بھی اٹلی اور لیبیا میں تارکین وطن کیکئیکشتیاں حادثے کا شکار ہوچکی ہیں۔اس کے بعد اطالوی حکام نے غیرقانونی طریقوں سے مختلف ممالک کے تارکین وطن کو بیرون ملک لے جانے والے 3 افراد کو گرفتار کرلیا۔ کشتی پر سوار زیادہ تر تارکین وطن افغانستان سے آئے تھے۔ دیگر کا تعلق پاکستان، ایران، صومالیہ اور شام سے تھا۔ ایک ترک اور 2 پاکستانی شہریوں کو خوفناک موسم کے باوجود کشتی کو ترکی سے اٹلی کے لئے روانہ کرنے کا اصل مجرم قرار دیتے ہوئے گرفتارکیا گیا ۔ ان تینوں نے مبینہ طور پر تارکین وطن سے اس سفر کے لئے تقریباً 8 ہزار یورو (8 ہزار 485 ڈالرز) وصول کئے۔پاکستان میں ترجمان دفترخارجہ ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ اٹلی کے ساحل میں ٹکرا کر حادثے کا شکار ہونے والی کشتی میں سوار 20 میں سے 16 پاکستانیوں کی حالت بالکل ٹھیک ہے۔دفترخارجہ نے کہا کہ لیبیا کے ساحلی شہر بن غازی میں کشتی کے حادثے میں 7 پاکستانی جاں بحق ہوگئے۔ (جاری ہے)

متعلقہ خبریں