سینٹ نے پارلیمنٹرینز کی تاحیات نااہلی ختم کرنے کے حوالے سے الیکشن ایکٹ2017 ء میں ترامیم کے بل کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے۔ ترمیم کے بعد میاں نواز شریف کی نااہلیت‘ اہلیت میں بدلنے اور وطن واپسی کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ اس کے بعد کوئی شک نہیں رہا کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکن اپنے قائد کی آمد پر پھولوں سے دھرتی سجانے میں کوئی کسر اٹھا رکھیں گے۔ بلکہ وزیراعظم میاں شہباز شریف بھی خم ٹھونک کر اپنے بھائی کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے ’’ہر کانٹا تیری راہ کا چنا‘‘ ایک طرف جہاں وطن عزیز کے سیاسی افق پر گردو غبار چھایا ہوا ہے۔ وہاں دوسری طرف اچھی خبر یں بھی آرہی ہیں۔ پہلی اچھی خبر کا تذکرہ ابتدائی سطور میں کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) والوں کے لئے تو ایک سے بڑھ کر ایک خوشخبری آرہی ہے۔ میاں نواز شریف اہل ہوگئے ہیں اور ان کے وطن واپس آنے کی امید کے بعد ساری مسلم لیگ (ن) بھی ’’امید‘‘ سے ہوگئی ہے۔ بعض ذرائع کے مطابق میاں نواز شریف چودہ اگست کو واپس آرہے ہیں۔ دوسری خبر ان کی بی اے کی کھوئی ہوئی ڈگری کی ڈوپلیکٹ بھی مل گئی ہے۔ ڈگری ملنے پر میاں نواز شریف یقینا ماضی کے اس دو ر میں کھوگئے ہوں گے۔ جب ہر پاکستانی فلم میں ہیرو کہتا تھا کہ ماں میں پاس ہوگیا ہوں۔ میں نے بی اے پاس کرلیا ہے۔
میاں نواز شریف اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے بلامقابلہ قائد منتخب ہوگئے ہیں۔ یہ تیسری خوشخبری ہے اتنی زیادہ خوشخبریاں ایک ساتھ ملنے پر مسلم لیگ (ن) کے راہنمائوں اور کارکنوں کے دلوں میں یقینا لڈو پھوٹ رہے ہوں گے۔ دماغ میں پھلجھڑیاں چل رہی ہوں گی اور انہیں وزارت عظمی کے ’’رنگلے پلنگ‘‘ پر ایک بار میاں نواز شریف جلوہ افروز ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے ہوں گے۔ ویسے ایک ’’وچلی گل‘‘ کے مطابق بعض حلقوں کی رائے یہ ہے کہ میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے لئے پسندیدہ اور فوراً مان جانے والی شخصیت ہیں۔ آگے جس کی جو مرضی ہے اپنی رائے قائم کرسکتا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دیگر تمام مرکزی عہدیدار بھی بلامقابلہ منتخب ہوچکے ہیں‘ ایسا ہونا ہی تھا۔ بھلا کسی مائی کے لال میں جرات ہے کہ وہ مقابلہ کرتا۔ مقابلہ کرنا تو رہا ایک طرف ‘اپنے قائدین یا پارٹی پالیسیوں پر تنقید کرنے کی گستاخی کرے اور جو ایسا کرنے کی ہمت اور جسارت کرتا ہے اس کا حشر چوہدری نثار علی خان ‘ سردار مہتاب عباسی‘ اقبال ظفر جھگڑا ‘ مفتاح اسماعیل اور شاہد خاقان عباسی جیسا ہوتا ہے لیکن یہاں یہ امر خوش آئند ہے کہ مسلم لیگ (ن) سے کچھ کچھ ناراض دو سابق سینئر راہنمائوں راجہ ظفر الحق اور جاوید ہاشمی انٹرا پارٹی الیکشن کے موقع پر موجود پائے گئے۔ اس کے علاوہ غیر حاضر راہنمائوں میں وفاقی وزراء خواجہ سعدرفیق‘ ایاز صادق اور خرم دستگیر شامل ہیں جن کی غیر حاضری کی وجہ ذاتی مصروفیات بیان کی جارہی ہے ۔ لیکن اُڑتی اُڑتی سی خبر یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ اندرونی کہانی کچھ اور ہے ۔ پنجاب کے جنرل سیکرٹری سردار اویس لغاری نے بھی چند منٹ کے لئے انٹری ڈالی اور باقاعدہ کارروائی کے آغاز سے قبل ہی چلے گئے۔
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل کے ارکان کی تعداد تقریباً اکیس سو ہے لیکن انٹرا پارٹی الیکشن کی کارروائی سے ارکان کی اکثریت غیر حاضر تھی۔ جبکہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے بعض سینئر راہنما جو ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں انہیں بھی شرکت کی دعوت نہیں دی گئی۔ سیاسی پارٹیوں کے الیکشن بھی صرف دکھاوا ہی ہوتے ہیں اور پارٹی عہدوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ نسل در نسل چلتا ہے۔ آج تک ایسی کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ جس میں کسی کارکن کو کوئی مرکزی عہدہ دیا گیا ہو۔ سیاسی حلقوں میں یہ بحث بھی کی جارہی ہے کہ میاں نواز شریف کے داماد اور مریم نواز کے مجازی خدا کیپٹن صفدر چند ماہ سے منظر سے کیوں غائب ہیں اور ان کی طرف سے نہ کوئی ’’چٹھی ‘‘ اور نہ ہی کوئی ’’سندیس‘‘۔ نہ جانے کیپٹن صفدر چلے گئے کس دیس۔
پاکستان تحریک انصاف کے راہنمائوں کے پارٹی چھوڑنے کے اعلانات بلکہ پریس کانفرنسز پر دوسری سیاسی پارٹیوں میں خوشی کے شادیانے بجائے جارہے ہیں۔ یہاں یہ حق صرف پاکستان پیپلز پارٹی کو دیا جاسکتا ہے کہ وہ شادیانوں کے علاوہ بینڈ باجے بھی بجاسکتی ہے کیونکہ انہیں منزل ’’نیڑے نیڑے‘‘ آتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے اور اس پر یقین اس وقت مزید مستحکم ہو جاتا ہے جب پیپلز پارٹی کی ایک سینئر خاتون راہنما ایک اجلاس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو برملا یہ کہتی ہیں کہ آپ نے بجٹ تو پیش کر دیا ہے لیکن ہماری آنے والی حکومت کے لئے مشکلات بھی پیدا کر دی ہیں۔ پیپلز پارٹی کے جیالوں کے لئے خوشخبری یہ بھی ہے کہ ان کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کی آنکھ کا آپریشن کامیاب ہوگیا ہے۔ آپریشن سے قبل بھی وہ قیامت کی نظر رکھے تھے لیکن آپریشن کے بعد تو ان کی ٹھیک ٹھیک نشانے لگانے کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔