(گزشتہ سے پیوستہ)
دین کے مختلف شعبوں میں ہونے والا کام جب تک حزبیت (جماعتی گروہ بندی) سے بچتے ہوئے باہمی تعاون و اشتراک کے ماحول میں ہوتا رہے گا، اس کے ثمرات و نتائج مثبت رہیں گے، لیکن جب اس میں تقسیم کار کی بجائے حزبیت کا رجحان غالب ہوگا تو وہ شکایات ضرور پیدا ہوں گی جن کا مختلف حلقوں کی طرف سے اظہار شروع ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ حزبیت کا خاصہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا ہے کہ ’’کل حزب بما لدیھم فرحون‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ جب کوئی گروہ ’’حزب‘‘ بن جائے گا تو صرف اپنا کام ہی اسے اچھا لگے گا اور دوسرے کسی گروہ کے کام کو اچھا کہنا اس کے لیے مشکل ہوگا۔ ہمارے آج کے دور کی سب سے بڑی الجھن یہی ہے کہ دین کے مختلف شعبوں میں کی جانے والی محنت تقسیمِ کار کی بجائے حزبیت کا رنگ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ اور یہ صرف تبلیغی جماعت کے حوالے سے نہیں بلکہ دوسرے بہت سے دینی شعبوں میں کام کرنے والے گروہوں کے جذباتی کارکنوں کی نفسیات بھی یہی ہے کہ انہیں صرف اپنا کام اچھا لگتا ہے، وہ اسی کام کے تقاضوں کو دین کے مجموعی ماحول کا تقاضا قرار دینے لگتے ہیں، اور دوسرے کسی شعبے کے دینی کام کی اگر وہ نفی نہ بھی کریں تو اس کا تذکرہ ایسے انداز میں کریں گے جیسے اس کام کی کوئی اہمیت ہی نہ ہو۔
تبلیغی جماعت کے کام میں ایک اور بات بھی مشاہدہ میں آئی ہے کہ جہاں علماء کرام اس کام میں شریک ہیں اور ان کی راہنمائی میں کام ہو رہا ہے وہاں کی صورتحال اور ہے، اور جہاں علماء کرام اس کام سے الگ تھلگ ہیں وہاں کی صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ سارے علماء کرام اس کام کے لیے وقف ہو جائیں اور اپنے اصل کام کو حرج میں ڈال دیں، بلکہ تعلیم و تدریس اور امامت و خطابت کا حرج کر کے کسی بھی دوسرے دینی کام کے ساتھ خود کو مختص کر لینا ویسے بھی دین کے مفاد کے خلاف بات ہو گی۔ دین کے کسی شعبے میں اس شعبہ کے دوستوں سے تعاون کرنے کا مطلب اپنے دینی کام کو کمزور کرنا نہیں، بلکہ باہمی تعاون کی ایسی فضا پیدا کرنا ہے جس سے دونوں ایک دوسرے کے لیے تقویت کا باعث بنیں۔
اس لیے میری علماء کرام سے ہمیشہ یہ گزارش رہتی ہے کہ اپنے کام کو پوری طرح سرانجام دیتے ہوئے اس میں کوئی کمزوری لائے بغیر تبلیغی جماعت کے ساتھ اس درجہ کا تعلق ضرور قائم رکھیں کہ وقتاً فوقتاً اس میں تھوڑا بہت وقت لگاتے رہیں تاکہ باہمی ربط و تعلق موجود رہے اور ہم سب ایک دوسرے کو کمزوریوں سے آگاہ کرتے ہوئے باہمی خوبیوں سے استفادہ کر سکیں۔ خود میرا معمول سالہا سال سے یہ ہے کہ سال میں ایک سہ روزہ پابندی کے ساتھ تبلیغی جماعت میں ان کے نظم کے مطابق لگاتا ہوں جو عام طور پر عید الاضحی کی تعطیلات میں ہوتا ہے۔ اور یہ دکھاوے کے لیے نہیں ہوتا بلکہ تبلیغی جماعت کا علماء کرام کے ساتھ تعلق قائم رکھنے کی نیت کے علاوہ خود بھی اس ماحول سے بحمد اللہ استفادہ کرتا ہوں اور دینی فوائد محسوس کرتا ہوں۔
والد گرامی حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کا ذوق و معمول بھی یہی تھا کہ وہ تبلیغی جماعت کے کام کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور اسے بنیادی طور پر دین کا کام سمجھتے ہوئے سراہتے بھی تھے۔ البتہ کچھ تحفظات بھی رکھتے تھے جن کا اظہار انہوں نے کبھی عمومی ماحول میں نہیں کیا بلکہ تبلیغی جماعت کے بزرگوں سے ان تحفظات پر بوقت ضرورت بات کی اور اسے اسی سطح پر رکھا ہے۔ حضرت والد گرامیؒ کے ساتھ میں بھی ایک خادم کے طور پر اکابر علماء کرام کے اس وفد میں شریک تھا جس میں مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ، مولانا مفتی محمد رفیع عثمانی مدظلہ، مولانا حسن جان شہیدؒ، مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہیدؒ، مولانا سعید احمد جلال پوری شہیدؒ، مولانا مفتی محمد جمیل خان شہیدؒ اور غالباً مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر دامت برکاتہم بھی شامل تھے۔ ان بزرگوں نے رائے ونڈ کے سالانہ اجتماع کے موقع پر بھارت سے تشریف لانے والے سرکردہ تبلیغی بزرگوں سے ملاقات کر کے انہیں اپنے تحفظات سے آگاہ کیا تھا اور ان بزرگوں نے ان تحفظات کو تسلیم کرتے ہوئے اصلاح احوال کی کوشش کا وعدہ کیا تھا۔
اس واقعہ کے تذکرہ کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے بزرگوں کا طریق کار یہ تھا کہ کسی بھی دینی کام میں اگر کام کرنے والوں سے کچھ شکایات ہیں تو انہیں شکایات کے درجہ میں ہی رکھا جائے۔ ہمارے اکابر کی احتیاط کا اس سے اندازہ کر لیا جائے کہ اپنی گفتگو میں انہوں نے پاکستان کے تبلیغی بزرگوں کو بھی شامل نہیں کیا تھا کہ بات محدود سے محدود رہے۔ مگر اس سب کچھ کے باوجود تبلیغی جماعت کا کام دین کا کام ہے، ہمارا اپنا کام ہے اور دین کی دعوت و تبلیغ کے ساتھ عام مسلمان کی اصلاح و ارشاد کا کام ہے جس کے ساتھ تعاون دین کے تقاضوں میں سے ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔