اہم خبریں

فریضہ حج کی اہمیت اور ادائیگی کا طریقہ کار

یہ حج کا موسم ہے، دنیا کے کونے کونے سے لاکھوں عازمین حج لبیک الّلھم لبیک کی صدائے دلنواز بلند کرتے ہوئے حرمین شریفین کی طرف رواں دواں ہیں۔ یہ فرزندان اسلام اس اہم رکن کی ادائیگی کے لئے دنیوی و ظاہری زیب و زینت کو چھوڑکر اﷲ تعالیٰ کے ساتھ والہانہ محبت میں مقامات مقدسہ پہنچ کرمناسک حج ادا کریں گے۔ حج اس لحاظ سے بھی عظیم عبادت ہے کہ یہ بیک وقت روحانی، زبانی،مالی اور بدنی عبادات کا حسین امتزاج ہے۔ یہ خصوصیت کسی دوسری عبادت کو حاصل نہیں ہے۔حجاج کرام اﷲ تعالیٰ کے مہمان ہیں اور ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ قرآن و حدیث میں جہاں حج ادا کرنے کی بہت زیادہ تاکید، اہمیت اور فضیلت بیان فرمائی گئی ہے، تو وہیں اُس کے ترک کرنے پر سخت سزائیں اور وعیدیں بھی ذکر فرمائی گئی ہے۔قرآنِ مجید میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’اور لوگوں میں سے جو اس (بیت اﷲ) تک پہنچنے کی استطاعت رکھتے ہوں ان پر ﷲ کے لیے اس گھر کا حج کرنا فرض ہے۔ اور اگر کوئی انکار کرے تو اﷲ دُنیا جہان کے تمام لوگوں سے بے پروا ہے۔‘‘ (سورہ آل عمران)

قرآنِ مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ’’اور لوگوں میں حج کا اعلان کردو، کہ وہ تمہارے پاس پیدل آئیں، اور دُور دراز کے راستوں سے سفر کرنے والی اُن اُونٹنیوں پر سوار ہوکر آئیں جو (لمبے سفر سے) دُبلی ہوگئی ہوں۔‘‘ (سورۃ الحج) ۔ پھر یہی ہوا کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حکم خداوندی سے اعلان فرمایا تو دیکھتے ہی دیکھتے زمین کے دُور دراز علاقوں سے حج و عمرہ کی ادائیگی کے لیے اہل ایمان قطار اندر قطار، جوق در جوق تلبیہ پڑھتے ہوئے آپہنچے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس ؓ فرماتے ہیں ’’جب حضرت ابراہیم علیہ السلام بیت اﷲ کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو انہوں نے عرض کی کہ: ’’اے میرے رب! میں (بیت اﷲ کی تعمیر سے) فارغ ہوچکا ہوں۔‘‘اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آپ لوگوں میں حج کا اعلان فرما دیجیے۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا کہ ’’اے میرے رب! کیا میری آواز تمام (تمام لوگوں تک) پہنچ جائے گی؟‘‘ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آپ اعلان فرمائیے! آواز کا پہنچانا ہمارا کام ہے۔‘‘حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: ’’اے میرے رب! میں کیسے اعلان کروں؟‘‘ ا ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: ’’آپ یہ کہیں کہ: ’’اے لوگو! تم پر بیت عتیق (یعنی بیت اﷲ) کا حج فرض کیا گیا ہے۔‘‘ (جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اعلان کیا تو) آپ کی آواز کو زمین و آسمان میں سب نے سن لیا۔ یہ اسی اعلان کا اثر ہے کہ لوگ آج بھی زمین کے دُور دراز علاقوں سے حج و عمرہ کا تلبیہ پڑھتے ہوئے جوق در جوق اوردیوانہ وار چلے آتے ہیں (مستدرک حاکم)۔ حج کے مناسک کا آغاز آٹھ ذوالحج کو ہوتا ہے۔ حجاج کرام 8ذوالحجہ کو منیٰ پہنچ کر ایک رات وہاں قیام کرتے ہیں۔آٹھ ذوالحج کی ظہر سے لے کر نو ذوالحج کی فجر تک پانچ نمازیں منی میں پڑھنا مسنوں ہے۔ 9 ذوالحجہ کی صبح عرفات کے لیے روانہ ہوں گے۔ وہاں پہنچ کر امام ظہر کی نماز سے پہلے حج کا خطبہ دے گا۔ پھر امام کی اقتداء میں ظہر اور عصر کی نماز جمع اور قصر کر کے پڑھیں گے۔ یاد رہے کہ وقوف عرفہ حج کا رکن اعظم ہے۔ میدان عرفات میں گزرنے والے یہ لمحات بہت ہی بابرکت اور قیمتی ہین۔ انہیں ضائع مت کیجئے۔ باہر نکل کر کسی درخت کے سائے تلے بیٹھ جائیں یا چھتری کا استعمال کر لیں۔ خلوص دل کے ساتھ بارگاہ رب العزت میں دعائیں، مناجات اور تسبیح و تہلیل کریں۔اس وقت اﷲ کی رحمتوں کی برسات جاری ہے اور یہ قبولیت دعا کے لمحات ہیں۔حجاج کرام غروبِ آفتاب کے بعد میدان عرفات سے مزدلفہ کے لیے روانہ ہوں گے۔ اگرچہ وقت ہو چکا ہے لیکن میدان عرفات یا راستے میں بھی مغرب ادا نہیں کرنی۔ مذدلفہ پہنچ کر مغرب اورعشا کی دو نمازیں جمع کر کے پڑھی جائیں گی۔ رات کو بغیر کسی سائبان یا چھت کے اسی میدان میں کھلے آسمان کے نیچے قیام کریں گے۔ یہاں سے ہی ستر کنکریاں بھی اٹھا لیں جو اگلے مخصوص دنوں میں شیطان کو مارنی ہیں۔ فجر اول وقت میں با جماعت ادا کرنے کے بعد یہاں بھی تھوڑی دیر کے لیے عرفات ہی کی طرح تسبیح وتحمید، تکبیر و تہلیل اور دعاء و مناجات کی جائے اور یہی وقوف مذدلفہ ہے جو حج کا ایک اہم واجب ہے۔ اس کے بعد حجاج کرام واپس منیٰ کے لیے روانہ ہوں گے۔ خیمے میں پہنچ کر اپنا سامان وغیرہ رکھ دیں اور جمرہ عقبہ پر شیطان کو پتھر مارنے کیلئے جمرات کی طرف روانہ ہو ہوجائیں ۔ یاد رہے کہ جمرات بھی حدود منی میں ہی ہیں۔ جمرہ عقبہ کے پاس پہنچ کر تلبیہ پڑھنا بند کر دیا جائے اور اِس جمرے کو سات کنکریاں ماری جائیں گی۔حج تمتع اور قران والوں کو جب قربانی کی ااطلاع موصول ہوجائے تو اس کے بعد حلق یا قصر کر کے غسل کریں اور احرام کا لباس اتار دیں۔ پھر بیت ﷲ پہنچ کرطواف زیارت کیا جائے۔ یاد رہے کہ اس طواف کے بعد صفا اور مروہ کی سعی بھی کرنی ہے۔ اگر کسی نے حج کا احرام باندھنے کے بعد نفل طواف کر کے صفا و مروہ کی سعی کر لی تو اسے اجازت ہے کہ طواف زیارت کی سعی نہ کرے۔ عورتوں، بچوں یا ضعیف لوگوں کیلئے پہلے سعی کر لینے سے طواف زیارت کے وقت بہت رش ہونے کی وجہ سے آسانی ہوتی ہے۔ البتہ افضل یہی ہے کہ طوافِ زیارت کے بعد ہی سعی کی جائے۔ طواف زیارت کا وقت بارہ ذوالحج کے سورج کے غروب ہونے تک ہے۔ احرام کی تمام پابندیاں طواف زیارت کرنے کے ساتھ ہی ختم ہو جائیں گی۔ پھر منیٰ واپس پہنچ کر دو یا تین دن قیام کیا جائے اورروزانہ زوال کے وقت کے بعدپہلے جمرۃالاولیٰ، پھر جمرۃ الوسطیٰ اوراِس کے بعد جمرۃ الاخریٰ ( یعنی تینوں شیطانوں ) کو سات سات کنکریاں ماری جائیں۔ یہ واجبات حج ہیں۔بارہ ذوالحج کو کنکریاں مارنے کے بعد مغرب سے پہلے پہلے منی کی حدود سے باہر آجائیں تو حج مکمل ہو گیا ۔ لیکن۔۔ اگر مغرب کا وقت منی میں ہو جائے تو پھر منی کی حدود سے باہر جانا مکروہ ہے۔ تیرویں رات بھی منی میں ہی گزاریں اور ظہر کے بعد کنکریاں مار کر واپس مکہ مکرمہ جائیں۔ اگرتیرویں ذوالحج کی فجر کی اذان منی میں ہی ہو جائے تو پھر منی سے باہر جانا ممنوع ہے۔ تیرویں رات کا قیام بھی منی میں ہی کریں گے اور اگلے دن ظہر کے بعد کنکریان مار کر واپس مکہ مکرمہ روانہ ہوں گے۔ اس کے بعد آفاقی (حدود میقات سے باہر سے آئے ہوئے) حجاج کیلئے طواف وداع کی صورت میں ایک واجب باقی رہتا ہے۔ یہ طواف اس وقت کیا جائے جب مکہ مکرمہ کو الوداع کہنے کا وقت آپہنچے۔ اس طرح حج بیت اﷲ شریف کی ادائیگی کا اہم ترین فریضہ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے۔ خوش بخت ہیں وہ لوگ جنہیں حج مبرور کی سعادت عطا ہوتی ہے۔ جو برکات وہاں نصیب ہوتی ہیں انہیں زندگی بھر سنبھال کے رکھنا اصل امتحان ہوتا ہے۔

متعلقہ خبریں