(گزشتہ سے پیوستہ) 9مئی کے سیاہ اوربدنماحادثے کے بعد بابر اعوان خاموشی کے ساتھ وفاقی دارلحکومت سے اڑان بھرکرلندن میں پناہ گزیں ہوکراب یہاں سے بیٹھ کرمعافی تلافی کاسلسلہ شروع کرنے میں مصروف ہیں۔اب ایک مرتبہ پھرصفیں مرتب ہورہی ہیں۔صف بندیاں کی جارہی ہیں۔اللہ نے اولیاکے دوطبقوں کی نشاندہی کی ہے۔اولیااللہ اوراولیاطاغوت اوردونوں اپنی اپنی پہچان سے واضح ہوجاتے ہیں۔جب ایسامعرکہ درپیش ہو، جب ایسی صف بندی ہو جائے،جب ایسافرق واضح ہوجائے توپھراس عالم کے بارے میں ان تین فلسفیوں نے کہاکہ ہم نے عالم بالامیں غیرجانبدار رہنے والوں کوبدترین عذاب میں دیکھا۔اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کے قواعدوضوابط کے مطابق اگرجنگ کے حق یا خلاف ووٹ ڈالے جارہے ہوں،توجو ملک بھی اس ووٹنگ میں حصہ نہیں لیتا،اسے جنگ کاحامی اورجارحیت کاحمایت کنندہ تصورکیاجاتاہے۔
دونوں جانب کے کردارواضح ہیں اورکسی قوم کی اس سے بڑھ کرخوش قسمتی اورکیاہوسکتی ہے کہ دونوں جانب اتنی بڑی تعدادمیں ’’ہیروزاورولن‘‘سامنے آگئے ہیں ورنہ کسے خبرتھی کہ ایسامتکبرشخص جوکسی کے ساتھ تصویربنوانے کے لئے ایک کروڑروپیہ وصول کرتاتھا،جس کی ہاں یاناں کے سامنے کسی اختلاف کی گنجائش نہیں ہواکرتی تھی،جوخودکوعقل کل سمجھ کراپنے احکام کی فوری تعمیل کواپنامادری حق سمجھتاتھا،جس نے اپنے بچوں کو توملک سے باہرعیش وراحت کی زندگی مہیاکررکھی ہے لیکن قوم کے بچوں کی شب وروزایسی تربیت کرکے خود ’’ریڈ لائن‘‘ کاتاج پہن کران کے مستقبل کوبھڑکتے شعلوں کی نذرکردیااورآج ان کے ماں باپ میڈیاکے سامنے گڑگڑاکراپنی اولاد کے گناہوں کااعتراف کرتے ہوئے معافی کے خواستگارہیں۔ کیاایسے بھیانک جرموں کے ماسٹرمائنڈکاکوئی محاسبہ نہ ہوگاجس کے منہ کوصرف اپنے اقتدارکیلئے معصوم بچوں کاخون لگ گیاہے؟جس نے بھری عدالت میں یہ کہہ کراداروں کوخوفزدہ کرنے کی بھونڈی کوشش کی کہ اگرمجھے دوبارہ گرفتارکیاگیا تو اس سے کہیں زیادہ ردعمل ہوگا۔ یادرکھیں کہ قدرت کے اپنے فیصلے ہیں جہاں وقت میں ڈھیل توملتی ہے لیکن’’ڈیل‘‘کی گنجائش نہیں ہوتی۔قوم نے دیکھ لیاکہ ملکی سیاست کی بھان متی کنبے کے وہ تمام افرادجن کی شروع دن سے سیاست صرف مقتدرحلقوں کے قدموں میں پناہ ہوتی ہے اوروہ ان ہی کے اشارہ ابروپراس ماسٹرمائنڈکی جماعت میں شامل ہوئے تھے،وہ آج نہ صرف روزانہ کی بنیادپراس کو داغِ مفارقت دے گئے بلکہ ان میں سے توبعض سیاست سے کنارہ کشی کااعلان کررہے ہیں۔جہانگیرترین کاوہ جہاز جوان افرادکوماسٹرمائنڈکے قدم بوسی کے لئے شب وروز محنت کررہاتھا،لیکن وہ اسی طرح معتوب ٹھہراجس طرح امریکہ بہادراپناکام مکمل ہوتے ہین اپنے وفاداروں کاسرقلم کرنے میں لمحہ بھر تاخیرنہیں کرتا۔ جہانگیرترین اب سوسے زائدانہی منحرفین کے ساتھ’’استحکام پاکستان ‘‘کے نام سے نیامیدان سجاچکے ہیں اور اپنی پہلی تقریرمیں9مئی کے تمام ذمہ داروں کوکڑی سزادینے کا مطالبہ کرتے ہوئے ایک لمحے کے لئے نہیں سوچاکہ ملک پراس عذاب کومسلط کرنے میں ان کاکیاکرداررہاہے۔وہ تواب ایک مرتبہ پھر’’اشارہ ابرو‘‘کی قربان گاہ پراپناسررکھ کرحکم کے منتظرہیں لیکن اس منظرنامے میں ایسانام جوانتہائی خاموشی کے ساتھ اس سارے ڈرامے کاتخلیق کارہے،جس نے ایک ’’تیر‘‘ سے کئی شکارکئے ہیں،جواینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دے کربعدازاں دبئی فرارہوگیااوراس وقت کے وزیراعظم نے اگلے دن اس سے ملنے سے محض اس لئے انکارکردیاکہ گویاوہ اپنی سیاسی چال میں کامیاب ہوگیاہے اوراس طرح اس نے اپنے سیاسی دشمن کوہمیشہ کیلئے’’ناک آؤٹ‘‘کردیاہے لیکن وہ دبئی میں بیٹھااپنی اگلی چال کیلئے بساط بچھاکرمنصوبہ بندیوں میں مصروف ہوگیا۔کئی سال اپنی اس جرأت کے ذمہ داروں اوردیگرمقتدر حلقوں سے معافی تلافی کاسلسلہ دوبارہ قائم کرنے میں جب کامیاب ہواتواس نے اپنی چال کے مطابق خودکوسب کی ضرورت ثابت کرتے ہوئے اپنے سینے سے لگائے ہوئے ترپ کے پتہ کوایسا ستعمال کیاکہ اس نے اپنے دونوں حریفوں کوچت کردیا ہے۔ تیرہ جماعتوں کے اتحادکے بعد ’’عدم اعتماد‘‘ کی کامیابی کاثمرسب سے زیادہ اسی کے حصے میں آیاکہ اس نے اگلے اقتدارکیلئے اپنے بیٹے کووزیرخارجہ بنواکرامریکہ بہادرکے ساتھ اپنی وفاداری کے ٹوٹے ہوئے مراسم کووہی سے جوڑنا شروع کرکے ملک کے اگلے وزیراعظم کی تیاریاں شروع کردیں ہیں۔9مئی کے بعدجب پی ٹی آئی کے پتے موسم خزاں کی طرح بکھرنے لگے تواگلے اقتدارکے کیک کاوافرحصہ وصول کرنے کیلئے خصوصی طیارے سے لاہورکے اس محل کارخ کیاجواس کے دوراقتدارمیں ملک کے سب سے بڑے ’’پراپرٹی ڈویلپئر‘‘نے اسے تحفے میں تعمیرکرکے دیاتھا۔ہم سب جانتے ہیں کہ وزات عظمیٰ کیلئے پنجاب ایک کلیدی حیثیت رکھتاہے،اس لئے جنوبی پنجاب کے ان بکھرے ہوئے پتوں کواپنے اقتدارکے تاج میں سجانے کے لئے ان پردستِ شفقت رکھناشروع کردیا گیا ہے اورکوشش کی جارہی کہ اقتدارکے اگلے کیک کاوافرحصہ سمیٹ لیاجائے لیکن شومئی قسمت کہ جہانگیرترین اس کیک کاوافرحصہ اپنے نام کرچکے لیکن وہ جوبدستور اس بات کادعویٰ کررہے ہیں کہ ہم نے ریاست بچنے کے لئے اپنی سیاست قربان کی ہے،وہ نہ صرف اس کیک سے بالکل استفادہ نہیں کرسکے بلکہ اگلے دنوں ان کی اپنی منڈیرسے کئی اہم کبوترراہ فرارکی اڑان بھرنے کیلئے تیاربیٹھے ہیں۔وہ اس وقت مایوسی سے ہاتھ مل رہے ہیں کہ عوام کی نظروں میں بھی سب سے زیادہ معتوب ٹھہرے اوراب سیاسی مستقبل بھی متزلزل نظرآرہا ہے۔ اب عوام میں صف بندی کاآغازہوگیاہے۔ تمام دھڑے اب اپنے اقتدارکے حصول کے لئے دل وجان کی بازی لگانے کیلئے میدان میں اترنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہیں۔ اب دیکھنایہ ہے کہ قوم کامیابی کاتاج کس کے سرپرسجائے گی لیکن ایک بات توحالیہ فارمیشن کمنڈرزکی میٹنگ میں طے پاگئی ہے کہ 9مئی کے تمام منصوبہ سازنہ صرف کڑی سزاکے مستحق قرار پائیں گے بلکہ اگلے کئی انتخابات کے لئے نااہل قرارپا کر جیل کی سلاخوں کے پیچھے اپنے تکبرکی سزاکاٹیں گے۔ اب فیصلہ قوم کے ہاتھ میں ہے کہ کس کے گلے میں ذلت ورسوائی کاطوق اورکس کوعزت سے ہمکنارکرناہے۔ فیصلے کی گھڑی ہے کہ کوئی قوم کفر،شرک،بت پرستی، الحادپرقائم رہ سکتی ہے لیکن عدل وانصاف کے قتل پرصفحہ ہستی سے مٹ جاتی ہے۔تاریخ اس بات پرشائد ہے اوریہ میرے اللہ کی سنت بھی ہے۔صف بندیوں کے اس موسم میں اب غیرجانبداری کازمانہ گیا۔ لیڈرہو یا رکن، بوڑھاہویاجوان، شاعرہویامزدور اسے ایک ہی فیصلہ کرناہے کہ وہ لکیرکے اس پار ہیں یا اُس پار