اہم خبریں

دوسروں کا تمسخر اڑانے اور حسد سے بچیں

اے ایمان والو!نہ تو مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہے ہیں) خود ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ (جن کا مذاق اڑا رہی ہیں) خود ان سے بہتر ہوں۔ (الحجرات 49:) اس آیت کریمہ میں کسی کا تمسخر اڑانے سے منع کیا گیا ہے۔ تمسخر کا معنی ہے مذاق اڑانا یعنی کسی کے بارے میں زبان یا اشارے سے کوئی ایسی بات کہہ دینا جس سے دیکھنے اور سننے والے اس پر ہنسنے لگیں۔ معاشرے میں اعتدال و توازن برقرار رکھنے کے لئے چند ایک امور کا خیال رکھنا ضروری ہے ورنہ وہ بے اعتدالی کا شکار ہو جاتا ہے۔ انہیں میں سے ایک ہے احترام باہمی، جب تک لوگ شرعی حدود میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کی صورت و سیرت کا احترام نہیں کرتے وہ چین و سکون سے نہیں رہ پائیں گے۔ ایک دوسرے کی بے احترامی کا ایک مظہر تمسخر ہے جس کے نتیجے میں نفرت جنم لیتی ہے اور دوریوں کا باعث بنتی ہے یہاں تک کہ بعض مرتبہ دشمنی پر منتج ہو جاتی ہے۔قرآن و حدیث میں مذاق اڑانے کی ممانعت کی گئی ہے…اہانت اور تحقیر کے لئے زبان یا ارشارات یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا حرام و گناہ ہے،کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذا رسانی ہوتی ہے اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اور دکھ دینا سخت حرام ہے اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔سرکار دوعالمﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کا مذاق اڑانے والے کے سامنے جنت کا ایک دروازہ کھولا جائے گا اور کہا جائے گا کہ آئو آئو، تو وہ بہت ہی بے چینی اور غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے سامنے آئے گا مگر جیسے ہی وہ دروازے کے پاس پہنچے گا وہ دروازہ بند ہوجائے گا۔ پھر ایک دوسرا جنت کا دروازہ کھلے گا اور اس کو پکارا جائے گا۔ آئو یہاں آئو، چنانچہ یہ بے چینی اور رنج و غم میں ڈوبا ہوا اس دروازے کے پاس جائے گا تو وہ دروازہ بند ہو جائے گا، اسی طرح اس کے ساتھ معاملہ ہوتا رہے گا یہاں تک کہ جب کوئی دروازہ کھلے گا اور بلایا جائے گا تو وہ ناامیدی کی وجہ سے نہیں جائے گا۔تمسخر احترام باہمی کی قینچی ہے اور یہ باہمی تعلق کو کاٹ کر رکھ دیتا ہے۔ اجتماعی زندگی گزارنے کے کچھ آداب اور تقاضے بھی ہوتے ہیں، جن کا خیال رکھنا ہر ایک کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ ان میں سے ایک انسان کی جان، مال اور عزت و آبرو کا تحفظ اور احترام ہے۔ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسان کی جان، مال اور عزت و آبرو کو محترم قرار دیتا ہے اور کسی کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ دوسروں کی جان، مال یا عزت و آبرو کو کوئی نقصان پہنچائے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے ہر اس کام کو حرام قرار دیا ہے جس سے کسی کی جان، مال یا عزت کو کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہو۔ تمسخر ایک طرح سے کسی کی عزت و ناموس پر حملہ تصور کیا جاتا ہے‘اسلام نے تمسخر یعنی دوسروں کا مذاق اڑانے سے منع فرمایا ہے۔ آیت کریمہ میں پہلے کلی طور پر فرمایا کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے۔ یہ حکم اپنی کلیت اور عمومیت کی بنیاد پر ویسے تو مردوں اور خواتین دونوں کو شامل ہے لیکن خواتین کو علیحدہ خصوصی طور پر دوبارہ یہ حکم دیا کہ کوئی عورت کسی دوسری عورت کا مذاق نہ اڑائے… اس سے اس حکم کی اہمیت اور کھل کر سامنے آجاتی ہے۔تمسخر یا مذاق اڑانا بذات خود ایک برا عمل ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے کے دیگر افراد پر نہایت برا اثر ڈالتا ہے‘ تمسخر کے ذریعے کسی کی معاشرتی عزت و احترام اور وقار کو ہی خطرے میں ڈال دیا جائے تو اس صورت میں بعید نہیں کہ ایسا شخص ایسے جاہلوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہو کر معاشرے کی بہتری اور فلاح و بہبود کے لئے اپنا سماجی کردار ادا کرنا ہی چھوڑ دے اور یوں معاشرے کو اس کی صلاحیت اور قابلیت سے ہاتھ دھونا پڑے۔ تمسخر کا بنیادی سبب تکبر ہے۔ جب انسان اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگے تو دوسروں کو اپنے سے کمتر اور حقیر سمجھ کر ان کی مختلف کمزوریوں کو لوگوں کے سامنے اچھالنے لگتا ہے تاکہ اس کے اندر موجود غرور کے احساس کو تسکین مل سکے۔ امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں کہ متکبر شخص جب کسی محفل میں ہوتا ہے تو اپنے آپ کو بڑا سمجھنے لگتا ہے اور پھر دوسروں کا تمسخر اڑانے لگتا ہے لیکن وہی شخص جب لوگوں کی نظروں سے دور تنہائی میں ہوتا ہے تو پھر اپنے آپ کو بڑا سمجھنے کا یہ احساس اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتا اس لئے کسی کے تمسخر کا مرتکب بھی نہیں ہوتا۔آیت کریمہ میں جہاں اس اخلاقی برائے کی مذمت اور ممانعت کی گئی ہے وہیں اس کا علاج بھی بتایا گیا ہے کہ چونکہ تمسخر کا سب سے اہم سبب غرور و تکبر ہے لہذا اس سے چھٹکارے کا طریقہ اور نسخہ یہ ہے کہ تکبر سے بچا جائے، ارشاد ہے:یعنی ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں‘ یعنی انسان ہمیشہ اس بات کو ذہن میں رکھ لے کہ جن کو کمتر اور حقیر سمجھ کر وہ ان کا مذاق ا ڑا رہا ہے، حقیقت میں وہ ان سے بہتر ہوں اور اللہ تعالی کے نزدیک ان کا مقام اور مرتبہ زیادہ ہو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک برتری کا معیار تقوی اور پرہیز گاری ہے۔افسوس کہ دینی احکامات سے دوری ،ذاتی مفادات،لسانی ،فرقہ وارانہ اور سیاسی رنجشوں نے ہمارے معاشرے کواس حد تک پرا گندہ کر دیا ہے کہ آج سوشل میڈیا ہو یا عوامی اجتماعات مخالف سیاسی لیڈروں کے،نام بگا ڑنا،ان کی شخصیتوں کا مذاق اڑانا،معمول کی بات سمجھا جاتاہے اور مخالف لیڈروں کا مذاق بنانے والے، اپنے کا رکنوں کو بھی مخالفین کا تمسخر اڑانے پر لگا دیتے ہیں،یہ عمل بہت برا اور معاشرے کے لئے انتہائی نقصان دہ بھی ہے۔ اب بڑھتے ہیں دوسرے موضوع یعنی حسد کی بیماری کی طرف… حسد ایک ایسی باطنی اور روحانی بیماری ہے جو انسان کے سینے میں کینہ، بغض اور کھوٹ کا بیج بو دیتی ہے، جس سے انسان کے تمام نیک اعمال ضائع ہو جاتے ہیں، اور اس سے اعمالِ صالحہ کی توفیق اللہ تعالیٰ چھین لیتے ہیں،حسد کہتے ہیں کسی کے پاس اللہ تعالیٰ کی کوئی نعمت دیکھ کر یہ تمنا کرنا کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے، چاہے مجھے حاصل ہو یا نہ ہو‘معاشرتی زندگی کے حوالے سے مختلف مواقع پر ہادیِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو حسد، کینہ، بغض اور ان جیسی دیگر باطنی اور روحانی بیماریوں سے بچنے کی ہمیشہ تاکید فرمائی ہے اور آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اتفاق واتحاد، موافقت ویگانگت اور بھائی چارہ کی تعلیم دی ہے، چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاآپس میں ایک دوسرے کے ساتھ حسد نہ کرو، نہ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ بغض رکھو، اور نہ ہی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ قطع تعلق کرو، اور اللہ کے بندے بھائی بھائی ہوجائو ( مسلم شریف) ( جاری ہے )

متعلقہ خبریں