اہم خبریں

عزت نفس اورچھترول

(گزشتہ سے پیوستہ) یہ مناظرآپ کوہرصاحبِ اختیارکے دفتر میں ملیں گے۔یہ لوگ اپنے سے جونیئر افراد پر برستے ہیں،غصے میں گرجتے ہیں،انہیں کھڑے کھڑے یہ سب سننا پڑتاہے اوریہ ذلت ہر روز برداشت کرناپڑتی ہے،کبھی بھری میٹنگ میں سب کے روبرو،ایسے لمحوں میں کوئی نہیں سوچتاکہ اس کی آنکھوں میں جوضبط کے آنسوہیں،اس کے ماتھے پر جوشرمندگی کاپسینہ ہے،یہ سب اسے کس ذلت سے دوچارکررہاہے۔اپنے ہی ساتھیوں کے سامنے اپنے ہی زیرِسایہ کام کرنے والوں کے روبرو،یہ منظرصرف دفترتک محدودنہیں ہیں، اگرکبھی کسی افسر اعلی کودفترسے باہرنکل کرچندسیکنڈکیلئے گاڑی کاانتظارکرناپڑجائے تورات دن شٹل کی طرح کام کرنے والے ڈرائیورکی شامت آجاتی ہے۔ہم کتنے نازک مزاج ہیں کہ دفترسے نکلنے سے پہلے گھنٹی بجاکراعلان کیاجاتاہے،گاڑی لگواؤ۔ گاڑی سٹارت ہوتی ہے اورپھرہماری سواری دفترسے باہر نکلتی ہے۔میزپرچائے کاکپ غلط رکھنے والے کو، چائے اگر تھوڑی سے پرچ میں گر جائے اس پر، باتھ روم میں تولیہ ڈھنگ سے نہ رکھا ہواہواس پر، کسی کلب میں سروس دیرسے ہے تواس کی پاداش میں ماتحت لوگوں کوسرعام ذلیل ورسواکر دیتے ہیں اوراگرکبھی مجھ جیسا سر پھرا سمجھانے کی کوشش کرے توپھربڑے فخرسے گردن پھلاکریہ اعلان کرتے ہیں:جناب آپ کو نہیں پتہ،اگران سے محبت سے پیش آؤتویہ سرچڑھ جاتے ہیں اس لئے ان کوان کی اوقات میں رکھ کرہی کام چلاناچاہئے۔ان کے اسی حاکمانہ رویے سے ان کی اولادبھی اخلاق سے عاری،متکبراورمنہ پھٹ ہوجاتی ہے اوران تمام ماتحت افرادسے کی ہوئی زیادتیوں کاانتقام کا لامتناہی سلسلہ اسی دنیامیں بھی بھگتناپڑتاہے۔
یہ ذلت ورسوائی ہماری سڑکوں اور چوراہوں پربھی اس قوم کے عام آدمی کا مقدر ہے۔آپ کی گاڑی کے سامنے سے کوئی شہرکی اقدار سے ناآشنابڑھیایا بے ضرربچہ گزرجائے تو گاڑی روک کراسے گالیاں دی جاتی ہیں اوربعض اوقات ڈرائیوراپنے صاحب کی خوشنودی کیلئے ذلت کی انتہاکرتے ہوئے باہرنکل کراسے دوچار تھپڑبھی رسید کرنے سے گریز نہیں کرتا۔ موٹرسائیکل پرسوارشخص خواہ اپنی بیٹی کے ساتھ ہویابیوی کے ساتھ،ہم اس کی غلطی پراسے معاف نہیں کرتے،اسے بے عزت کر کے چھوڑتے ہیں۔ آپ نے ٹانگے والے یا ساتھ بیٹھے ہوئے بیٹے کے سامنے ذلیل ہوتے رسواہوتے لوگوں کو دیکھا ہوگالیکن میڈیاکی آزادی کی وجہ سے ہم نے شائدکئی مرتبہ ٹیلیویژن کی اسکرین پرپولیس کے ہاتھوں اس ملک کے عوام پرچھترول کے مناظر دیکھے ہیں اورہرآنکھ انسان کی ایسی تذلیل پر شرمساربھی ہے لیکن یہ توجسمانی چھترول تھی مگر 9مئی کے واقعے کے بعدہردن ایک ہی طرح کا مخصوص بیان پڑھ کرجس طرح برسوں کے یارانے پامال کرتے ہوئے سیاست سے کنارہ کشی کے اعلانات سامنے آرہے ہیں،پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایسے سانحے شائدہی کبھی کسی آنکھ نے ملاحظہ کئے ہوں لیکن جب میں کبھی غورکرتاہوں تو نجانے کیوں میرے دل میں ان سیاسی یتیموں سے ہمدردی کاکوئی عنصرنہیں ہوتاکیونکہ یہ سب وہی افراد ہیں جوہمیشہ اقتدارکی لالچ میں مقتدرپارٹی میں شامل ہوکرملک کی نئے سرے سے خدمت کا اعلان کرتے ہیں۔ میں اکثرسوچتاہوں کہ آخریہ سیاسی منافقت عمومی طورپرہمارے خطے اوربالخصوص ہمارے ملک میں کیوں رائج ہے ؟یقیناًپارٹی چھوڑنے والے اور انہیں قبول کرنے والوں کی آنکھوں کی حیا اور ضمیرایک جیسے ہوتے ہیں اورجس طرح قدرت کے نظام کے تحت ایک مکھی صرف پھلوں اور پھولوں کارس چوس کرشہدجیساپاکیزہ موادفراہم کرنے کاکام کرتی ہے ، اسی طرح دوسری مکھی غلاظت پربیٹھ کرخطرناک بیماریوں کاسبب بنتی ہے۔کیایہ ہمارے اپنے اعمال کانتیجہ نہیں کہ ہم یہ سب تماشہ دیکھ کربھی انہی افرادکوایوان اقتدار میں بھیجنے کیلئے ان کی گاڑی کے آگے اورپیچھے ان کے نعرے لگارہے ہوتے ہیں بلکہ اب توسوشل میڈیانے اپنے اپنے رہنماں کواوتاربناکرایساپیش کیاکہ ہم نے ان کی عقیدت میں ارض وطن کی اساس کوخاکسترکرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی اور آج مصیبت میں وہ رہنمابھی منہ لگانے کو تیار نہیں جن کیلئے انہوں نے اپنی زندگی کا سارا مستقبل تباہ کرلیا۔ شائداس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلی دو دہائیوں سے تمام صلیبی طاقتوں نے امریکا کی قیادت میں مسلمانوں کی غیرت و حمیت پر جو چھترول کی ہے اوراس میں ہمارے حکمرانوں نے اس دستے کاکرداراداکیاہے جو ’’چھتر‘‘کی دم میں پھنساہواہوتاہے اوریہ دستہ امریکانے بڑی مضبوطی سے اپنے ہاتھ میں تھام رکھاہے اور دوسری جانب اقتصادی ابتری،سیاسی انتشار، بدامنی،مہنگائی اور بیروزگاری کی چھترول میں دن بدن ایسی شدت آگئی ہے کہ عوام اب دونوں ہاتھ جوڑکران تمام سیاستدانوں سے پناہ مانگ رہے ہیں جس طرح آج کل 9مئی کے واقعات میں ملوث افراد چھترول کے دوران اوران کے ماں باپ میڈیا کے سامنے ہاتھ جوڑ کرمعافیاں مانگ رہے ہیں لیکن حکومت شدت سے یہ کہہ رہی ہے کہ’’تم نے حساس اداروں پرحملہ کیاہے،تم نے شہدا کے مجسموں پر سنگ زنی کی ہے اس لئے اب تمہیں مزیدکئی سال ایسی چھترول برداشت کرناہوگی!کیاکسی کو یاد ہے کہ گوجرانوالہ میں اپنی شعلہ افشاں تقریر میں ان مقدس افرادپرسنگ زنی کاآغازکس نے کیاتھا؟ یہ ذلتو ں کے مارے اسی دنیامیں سانس لیتے ہیں اوران کی عزتِ نفس مجروح کرنے والے بھی اسی دنیامیں،لیکن ایک بات طے ہے کہ جب عام آدمی ذلیل ورسواہوتاہے توچند لوگوں کے دل ضرورخون کے آنسوروتے ہیں،ان کی آنکھیں نم ہوتی ہیں لیکن تاریخ شاہدہے کہ جب بھی کسی مغرور،متکبراورلوگوں کی عزت نفس کومجروح کرنے والے پرآفت و مصیبت آئی،اقتدارسے رخصتی ہوئی،نوکری گئی،گرفتاری ہوئی تو پھر کوئی آنکھ رونے والی نہیں تھی،کوئی دل دھڑکنے والا نہیں تھا،سات سمندردوراس کے آقابھی منہ پھیرلیتے ہیں جیسے ان دنوں سب یوں آنکھیں پھیرگئے جیسے یہ تواس کامقدرتھا،ایساتواس کے ساتھ بہت پہلے ہوجاناچاہئے تھا۔

متعلقہ خبریں