(گزشتہ سے پیوستہ) وفاقوں اور محکمہ تعلیم اور محکمہ داخلہ کے درمیان سالہا سال سے مذاکرات جاری ہیں۔ آپ کیوں فیصلہ نہیں کر رہے؟ ہم نے رجسٹریشن کسی سرکاری محکمے کے تحت ہی کرنی ہے تو طے کرو۔ نظم آپ نہیں طے کر رہے اور نزلہ مدارس پر گر رہا ہے۔ نظم قائم ہونے میں رکاوٹ کون ہے؟ پرانی رجسٹریشن آپ نے مسترد اور منسوخ کر دی ہے، نئی آپ ہونے نہیں دے رہے اور الزام مدارس پر کہ یہ رجسٹر نہیں ہیں۔
اس پس منظر میں پچھلے چند سال میں دو مسئلے کھڑے ہوئے۔ ایک مسئلہ یہ کہ نیا اوقاف ایکٹ نافذ ہو گیا جس میں اوقاف کے قوانین تبدیل کر دیے گئے۔ وہ قوانین جو نافذ ہوئے ان میں سے بہت سے قوانین واضح طور پر شریعت کے خلاف ہیں، بعض قوانین شہری حقوق کے خلاف اور بعض دستورِ پاکستان کے خلاف ہیں۔ اس پر مدارس کے حکومت سے مذاکرات ہوئے جس میں طے پایا کہ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم متبادل ترمیم شدہ مسودہ دیں گے، اس کے مطابق نئی قانون سازی کی جائے گی۔ حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی نے مسودہ لکھ کر دیا جو کہ سرکار کی میز پر پڑا ہے۔ اس کے مطابق قانون سازی نہیں ہو رہی اور یہ تقاضا کیا جا رہا ہے کہ جو ہم نے کہہ دیا ہے وہی کرو۔ جب آپس میں بیٹھ کر طے ہو گیا ہے کہ نیا مسودہ بنے گا، جب مسودہ بن گیا ہے تو قانون سازی کون نہیں کر رہا؟ نئے اوقاف ایکٹ میں تمام اختیارات ڈی سی اور اوقاف کے پاس ہیں۔ تین چار مسجدوں کے جھگڑے میرے سامنے ہیں کہ متوازی انتظامیہ کھڑی کر کے متوازی رجسٹریشنیں کی گئیں اور جھگڑے کھڑے کیے گئے۔ اسلام آباد کی ایک بہت بڑی مسجد میں بھی یہ معاملہ ہوا کہ کچھ نمازیوں کو اکسا کر متوازی جماعت بنائی گئی، مسجد رجسٹر کی گئی اور اوقاف نے مسجد پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ جس پر اسلام آباد کے علماء اکٹھے ہو گئے اور انہوں نے یہ نہیں ہونے دیا۔ گوجرانوالہ میں ایک مسجد میں متوازی انتظامیہ بنائی گئی، اوقاف نے اسے قبول کر لیا لیکن ہم نے کہا کہ یہ نہیں ہوگا، اور نہیں ہوا۔ سوال یہ ہے کہ ایک بات آپس میں طے ہو گئی تھی کہ نظرثانی ہو گی، قانون سازی ہوگی اور تجویزیں مولانا مفتی حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی لکھ کر دیں گے۔ انہوں نے لکھ کر دے دی ہیں، اعلان ہو گیا ہے، سرکار کے ریکارڈ میں ہیں، لیکن سرکار ان پر عملدرآمد نہیں کر رہی۔ اس کے علاوہ دینی مدارس کے ساتھ ایک بہت بڑا فراڈ کیا گیا۔ آج سے تین چار سال پہلے دینی مدارس اور محکمہ تعلیم کے درمیان طے پایا تھا کہ کوئی دینی مدرسہ کسی وفاق میں ہے اور محکمہ تعلیم میں بھی رجسٹر ہونا چاہتا ہے تو ہو سکتا ہے۔ اس پر اتفاق ہو گیا، اس میں یہ طے ہوا کہ اس کا طریقہ کار طے کیا جائے گا اور اس طریقہ کار کے مطابق رجسٹریشن ہو گی۔ لیکن محکمہ تعلیم کے ساتھ وفاقوں کا کسی مدرسے کی رجسٹریشن کا طریقہ کار ابھی تک طے نہیں ہوا۔ چاہے وہ جس کی بھی غلطی ہے، وفاقوں کی ہے یا گورنمنٹ کی، بہرحال اس کا طریقہ کار ابھی تک طے نہیں ہوا۔ اور طریقہ کار طے ہوئے بغیر محکمہ تعلیم کے بقول پندرہ ہزار مدارس رجسٹر ہو گئے ہیں۔ وفاق ان کے متعلق کہتے ہیں کہ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر رجسٹر کیے گئے ہیں۔ تو میرا مدارس، وفاقوں اور محکمہ تعلیم تینوں سے سوال ہے کہ ابھی جو رجسٹریشنیں ہو رہی ہیں، کل اگر محکمہ تعلیم اور وفاقوں کی پالیسیوں میں کہیں تضاد آگیا، جو عین ممکن ہے کہ آسکتا ہے، تو یہ مدارس کدھر جائیں گے؟ اِدھر جائیں گے، اُدھر جائیں گے، یا درمیان میں لٹکے رہیں گے؟ میرے خیال میں مدارس کو کنفیوژن میں ڈالنے کے لیے ہی یہ ڈرامہ رچایا گیا ہے، میں دوٹوک بات عرض کر رہا ہوں۔ وفاق کہتا ہے کہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا، اور محکمہ تعلیم کہتا ہے کہ ہم نے رجسٹر کر لیے ہیں، تو کس قانون اور ضابطے کے تحت رجسٹر کر لیے؟ یہ مدارس کو تقسیم کرنے کی سازش ہے۔ محکمہ تعلیم کا مقصد یہ لگتا ہے کہ جب معاملہ گڑبڑ ہوگا اور مدارس کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اِدھر جانا ہے یا اُدھر جانا ہے تو دو چار ہزار مدارس تو ہمارے پاس آئیں گے۔ ( جاری ہے )