کراچی میں کے الیکٹرک کے ظالمانہ اقدام، غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے کراچی کی عوام کا جینا محال ہوچکا ہے،کے الیکٹرک کی عوام کے ساتھ کی جانے والی زیادتیوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے،کراچی کے بیشتر علاقے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہیں، 18 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے کراچی میں تجارتی مراکز مفلوج ہوکر رہ گئے ہیں…شدید گرمی کے موسم میںغیر اعلانیہ طور پر،کہیں دس گھنٹے،کہیں 15گھنٹے اور کہیں اٹھارہ ،اٹھارہ تک بجلی غائب رکھنا‘ بدمعاشی نہیں تو پھر کیا ہے؟
سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے،وہ اس معاملے پر اندھی،گونگی ‘ بہری کا کردار ادا کر رہی ہے، آصف علی زرداری کی جس پیپلز پارٹی کو ’’سندھ‘‘ نے حکومتی سینگوں پر اٹھا رکھا ہے، صرف کراچی ہی نہیں بلکہ وہ پورا سندھ شدید گرمی اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا عذاب بھگت رہے ہیں…بلاول نے وزیراعظم شہباز شریف کو یہ تو بتایا تھا کہ وہ ٹینکر خرید کر پانی استعمال کرتے ہیں، انھیں چاہئے تھا کہ وہ وزیراعظم کو اس بات سے بھی مطلع کرتے کہ بلاول ہائوس میں کتنی دیر غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے،اور اگر بلاول ہائوس میں لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی تو کیوں؟ کراچی کے آٹھ اضلاع غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کی زد میں ہیں، گھروں میں بیٹھی خواتین و معصوم بچے بھی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ سے تنگ آچکے ہیں،چوبیس گھنٹے کے دوران اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ نے ملک کی معاشی حب کو مفلوج کرکے رکھ دیا ہے۔
عمران خان کا دور حکومت بھی کراچی کے عوام کی بہتری کے لئے ذرا برابربھی کردار ادا نہ کر سکا، بلکہ سچی بات یہ ہے کہ عمرانی دور ملک بھر کی طرح کراچی میں بھی معیشت کی تباہی کا سبب بن گیا، 11 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی حکومت قائم ہوئی تو کراچی والوں کی امید بندھی،کہ شاید اب کے الیکٹرک کی بد معاشی کے خلاف عوام کی آواز میں آواز ملانے میں پی ڈی ایم میں شامل حکومتی جماعتیں بھی اپنا کردار ادا کریں،مگر’’اے بسا آرزوکہ خاک شد‘‘ قیامت خیز گرمی میں، کے الیکٹرک کا پیدا کردہ لوڈشیڈنگ کے عذاب کا شکار عوام کے لئے پی ڈی ایم کی’’آواز حق‘‘ ابھی تک خاموش ہے تو کیوں؟ قطع نظر اس کے کہ کراچی کا عوامی مینڈیٹ رکھنے والی جماعتیں اس وقت ’’میئر‘‘ ، ’’مئیر‘‘ کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں،جماعت اسلامی نے گزشتہ سال کے الیکٹرک اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے ایشو پر آواز تو اٹھائی،مگر وہ آواز صدا بصحرا ثابت ہوئی،صرف مذہبی ہی نہیں، نجانے کراچی میں بسنے والے لبرلز کو بھی یہ یقین کیوں ہے کہ جب تک مولانا فضل الرحمن کے الیکٹرک کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف ایک جاندار ملین مارچ کے ذریعے غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے ذمداروں کی گرفت نہیں کریں گے،یہ معاملہ حل نہیں ہو گا،مجھے ایک لبرل دوست کی اس تجویز کو سننے کے بعد یہ کہنا پڑا،اچھا ،جب ووٹ دینے کا ٹائم آئے توکبھی ایم کیو ایم ،کبھی پیپلز پارٹی اور کبھی تحریک انصاف کو دو،اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل کروائے مولانا فضل الرحمن؟ میرا طنزیہ جملہ سن کہ وہ بھی پھٹ پڑا،اورلفظ چبا چبا کر بولا، اگر مولانا کی مقامی جماعت کے ذمہ داران کراچی کے ووٹروں تک اپنا جماعتی منشور اور ایجنڈا پہنچانے میں ناکام ثابت ہوئے تو یہ ان کی نااہلی ہے،ہاں یہ بتائیں کہ کراچی والوں نے مولانا کی جماعت یا ان سے وابستہ دینی مدارس کو ’’نوٹ‘‘ یعنی چندہ دینے میں کبھی کسی بخل سے کام لیا؟
عمران خان کے خلاف ہونے والے ملین مارچز سے لے کر آزادی مارچ تک کی کامیابی میں کراچی اور سندھ والوں کے متحرک کردار سے پتہ،پتہ،بوٹا،بوٹا واقف ہے…یہاں بات سیاست کی نہیں ،بلکہ انسانیت کی ہے،قیامت خیز گرمی میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ جب کراچی کے لاکھوں بچوں کو تڑپاتی اور رولاتی ہے، تو یہ منظر نامہ ماں ،بہنوں کے لئے کس قدر دردناک ہوگا، یہ سوچ کر ہی کلیجہ منہ کو آتا ہے،اس وقت کراچی کے بیشتر علاقے لیاری گارڈن، رنچھوڑلائین، گولیمار، رضویہ ناظم آباد، نارتھ ناظم آباد اورنگی ٹان ،خیر آباد منگھو پیر، گلشن معمار سہراب گوٹھ گلستان جوہر، ملیر، کورنگی لیاقت آباد ابوالحسن اصفہانی روڈ،ڈرگ روڈ،شاہ فیصل کالونی سمیت متعدد علاقے غیر اعلانیہ لورڈ شیڈنگ کی زد میں ہیں، مگر افسوس کہ لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے کوئی بھی انھیں چھٹکارا دلانے کے لئے تیار نہیں ہے،ان حلقوں سے جیت کروزارتوں کے مزے لینے بھی اس حوالے سے کوئی کردار ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں،غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ بڑھتے بڑھتے اٹھارہ گھنٹے تک پہنچ چکا ہے، معصوم بچوں کی صرف تعلیم ہی متاثر نہیں ہو رہی… بلکہ کراچی کی عورتیں اور بچے،نفسیاتی مریض بھی بنتے جا رہے ہیں، عوام نے کے الیکٹرک کے ظلم و جبر کے خلاف آواز بلند کررہے ہیں، کے الیکٹرک کے خاتمے اور سرکاری تحویل میں لینے کا ان کا مطالبہ پرانا ہے،کے الیکٹرک نے ظلم کی انتہا کررکھی ہے، کے الیکٹرک کی وجہ سے گھروں میں بیٹھی خواتین و معصوم بچوں سمیت تاجر برادری بھی مکمل طور پر متاثر ہے، کاروبار اور ملک کے حالات کے پیش نظر عوام پہلے ہی شدید پریشان ہیں ‘ ملک کے حالات نازک دور سے گزر رہیں ہیں، کراچی کے کاروباری حالات پہلے ہی تباہی کن ہیں،جو تھوڑا بہت کاروبار رہ گیا ہے اس کا ستیاناس کے الیکٹرک کے ہاتھوں کیا جارہا ہے… افسوس ہوتا ہے پاکستان پر مسلط کردہ حکمرانوں پرکہ جو خود تو اسمبلیوں اور دفتروں میں سرکاری کھاتے سے اے سی کے مزے لیتے ہیں‘ مگر عوام کو لاحق پریشانیوں کا مداوا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔