نہائت مشکل حالات میں اچھا بجٹ، عوام خاص طور پر تنخواہ دار طبقے کے لئے خاصا ریلیفO 144 ارب کا بجٹ، 69 کھرب24 ارب کا خسارہ، گیس بجلی کے مہنگے بِل جاری رہیں گے، تفصیلات اخبارات میںO ’’نیب ججوں کا احتساب کر سکتی ہے‘‘ عرفان قادرO ٹرمپ کے خلاف 37 الزامات کی نئی فرد جرمO پرویز خٹک استحکام پاکستان پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ، سیکرٹری جنرل بننے کی تردیدO سینٹ میں بجٹ پیش، پی ٹی آئی کا شور شرابا، بجٹ نامنظور! (آئین کے مطابق بجٹ سینٹ میں پیش نہیں ہو سکتا) O مردان، پی ٹی آئی کے سابق وزیر علی محمد خاں پانچویں بار گرفتارO انتخابات کے بعد وفاق اور صوبوں میں ہماری حکومتیں بنیں گیO پنجاب و سندھ کی احتساب عدالتوں میں آصف زرداری، فریال تالپور اور حسین لوائی کے خلاف سنگین جرائم کے چار ریفرنس ختم (نیب کو واپس بھیج دیئے)O کینیڈا، جنگلات میں آگ، 36 لاکھ ایکڑ جنگل جل کر راکھ، امریکی شہر نیویارک و شکاگو سیاہ دھوئیں کی لپیٹ میںO بجٹ میں وزیراعظم ہائوس کے لئے اس سال 26 کروڑ روپے زیادہ، کل ایک ارب 26 کروڑ روپے، غیر ملکی دوروں کے لئے 63 کروڑ 49 لاکھO تاجروں کی طرف سے بجٹ کا ملا جلا ردعملO افغانستان غیر ملکی این جی اوز کے سکول بند، 8 لاکھ طلبہ و طالبات کی تعلیم بندO دفاعی اخراجات میں اضافہO طویل عرصہ بعد پرسکون طور پر بجٹ پیشO مزدور کے لئے کم از کم 32 ہزار روپے ماہانہ اُجرت! O سعودی عرب امریکہ سے 121 جنگی طیارے خریدے گاO لاہور ریلوے سٹیشن پر سرکاری افسروں کا ایم کیو ایم کے وفد کا پرجوش استقبال، پھول پیش کئے گئےO کل سندھ کا بجٹ، تنخواہوں میں 20 فیصد اضافہ!! انتخابات کے لئے 48 ارب روپے!!
٭ …صاف دل سے بجٹ کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ وزیرخزانہ نے نہائت مشکل مالی حالات اور سیاسی بحران میں خلاف توقع بہت متوازن بجٹ پیش کیا ہے۔ 144 کھرب60 ارب روپے کے بجٹ میں 69 کھرب 24 ارب کا خسارہ درپیش ہو گا۔ بجٹ اس بار آئی ایم ایف کی امداد کے بغیر پیش کرنا پڑا ہے۔ وزیر خزانہ کے مطابق آئی ایم ایف کی تمام شرائط پوری کر دی گئیں مگر بات نہ بن سکی۔ ٭ …بجٹ کی چند اہم باتیں، سرکاری ملازمین، ایک سے 16 گریڈ کی تنخواہوں میں 35 فیصد، 17 سے22 گریڈ تک30 فیصد کا اضافہ خوش گوار ثابت ہوا ہے (سندھ میں 20 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے) تاجروں اور عام عوام کو بھی کچھ ریلیف دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ان مراعات کے لئے بجٹ کی آمدنی محل نظر ہو گی۔ بجٹ عوام کے ٹیکسوں پر مبنی ہوتے ہیں۔ گزشتہ سال کے گوشواروں سے پتہ چلتا ہے کہ ٹیکسوں کی بجٹ میں دکھائی دینے والی آمدنی کا ہدف پورا نہیں ہو سکا بلکہ بھاری خسارہ ہوا ہے۔ بجٹ میں خسارہ ترقیاتی اخراجات میں اضافہ کے باعث ہوتا ہے۔ پچھلے برس تک ڈالر کی قیمت 270 روپے تک تھی اس وقت اوپن مارکیٹ میں 308 روپے میں مل رہا ہے۔ ویسے دنیا بھر کے ملکوں کے بجٹ میں خسارہ عام بات ہے۔ امریکہ میں اربوں ڈالر کا خسارہ دکھایا جا چکا ہے۔ دنیا بھر میں شدید مہنگائی کا سامنا ہے۔ برطانیہ میں آئے دن مہنگائی کے خلاف ہڑتالیں، اور جلوس نکل رہے ہیں۔ ایک بات کہ جہاں سرکاری ملازمین کی پنشن میں17 فیصد اضافہ کیا گیا ہے وہاں نجی ملازمین (ای آئی او بی) کی پنشن ساڑھے آٹھ ہزار سے بڑھا کر 10 ہزار کر کے صرف ڈیڑھ ہزار ر وپے کا اضافہ برائے نام ہے۔ بجٹ میں درآمد شدہ دودھ اور دوسری اشیا پر ٹیکس لگائے گئے ہیں، ان کے باعث درآمد کنندگان سارا بوجھ عوام پر منتقل کر دیں گے کالم میں ساری تفصیلات نہیں دی جا سکتیں۔ ٭ …خبر پڑھ کر حیرت اور ہنسی آئی کہ وزیرخزانہ نے سینٹ میں بھی بل پیش کیا اس پر پی ٹی آئی کی اپوزیشن نے سخت ہنگامہ کیا۔ آئین کی دفعہ 73 صاف بتا رہی ہے کہ بجٹ صرف اسمبلی میں پیش اور منظور یا مسترد کیا جا سکتا ہے، ایسے سینٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا نہ ہی اس کی منظوری وغیرہ کا کوئی سوال پیش ہوتا ہے۔ سینٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے شور شرابے میں اس اعلان کے ساتھ بجٹ ملتوی کر دیا کہ سینٹ کے ارکان بجٹ کے بارے میں سفارشات دیں، انہیں سپیکر اسمبلی کے پاس بھیج دیا جائے گا!! ٭ …وفاقی حکومت کے پاس وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کی فوج ظفر موج ہونے کے باوجود عرفان قادر کو بطور قانونی مشیر (وزیر کا درجہ) دینے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ وزیرقانون اور اٹارنی جنرل عدالتوں میں آئین اور قانون کی حدود میں رہ کر بات کرتے ہیں مگر جس انداز میں حکومت کے وزیراعظم خاص طور پر بعض وزرا سپریم اور ہائی کورٹوں کے فیصلوں پر ججوں کا نام لے کر ان کی ایسی تیسی کر دیتے ہیں، ان کی حمائت وزیرقانون اور اٹارنی جنرل کے لئے مشکل ہو جاتی ہے۔ حکومت کو اس مقصد کے لئے کوئی اپنے جیسا ہی بے باک اور آئین و قانون کو نظر انداز کر کے کھلی باتیں کرنے والا کوئی شخص چاہئے تھا! یہ تقاضا پورا کرنے کے لئے عرفان قادر کا انتخاب کیا گیا، اب وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کی بجائے عرفان قادر کا نام زیادہ گونج رہا ہے۔ موصوف نے کبھی کسی جج عدالت کے حق میں کلمہ خیر نہیں کہا گزشتہ روز فرما دیا کہ نیب سپریم کورٹ کے ججوں کا محاسبہ کر سکتی ہے اس لئے کہ قانون سب کے لئے برابر ہے۔ آئین میں واضح طور پر دو جگہ ذکر کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان عدلیہ کے ججوں کی عدالتی کارروائیوں پر تنقید نہیں کر سکتے۔ پارلیمنٹ ملک کا سب سے بڑا قانون ساز ادارہ ہے، وہ عدلیہ کے فیصلوں کا محاسبہ نہیں کر سکتا اس کے مقابلے میں نیب کو 19، 20 سکیل کے افسر کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور دوسرے ججوں کا محاسبہ کرنے کا اختیار دینا مسخرانہ بات ہے۔ آئین میں ’بدعنوان‘ ججوں کے محاسبہ کے لئے سپریم جوڈیشل کونسل کا ادارہ موجود ہے اس کے ذریعے سینئر جج کسی جج کے خلاف شکائت کا جائزہ لیتے اور حسب حال فیصلہ کرتے ہیں۔ نیب تو 50 کروڑ سے ایک پیسہ بھی کم کسی بدعنوانی کا احتساب نہیں کر سکتی، اسے سپریم کورٹ کا محاسبہ کرنے کا اختیار دینا محض بیان بازی کا شوق ہی شمار ہو سکتا ہے۔ ایک حوالہ امریکہ کے سابق صدر اور دوسرے صدور کی بدعنوانیوں کے احتساب کا دیا جاتا ہے جب کہ امریکہ میں ججوں کی تقرریاں سینٹ کے ذریعے کی جاتی ہیں۔ اور ججوں کے خلاف کارروائی کا اختیار بھی سینٹ کی اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی کے پاس ہوتا ہے۔ ٭ …وزیراعظم ہائوس کے سالانہ اخراجات کے لئے بجٹ میں ایک ارب20 کروڑ روپے رکھے گئے ہیں۔ یہ رقم پچھلے برس کے اخراجات سے 26 کروڑ روپے زیادہ ہے۔ قارئین کرام! صرف چند سال پہلے یہ اخراجات 42 کروڑ سے بڑھ کر 49 کروڑ ہو گئے تو میں نے راوی نامہ میں بہت شور مچایا تھا اب یہ اخراجات 49 کروڑ کی بجائے ایک ارب 20 کروڑ ہو گئے ہیں، البتہ ایک بات قابل ذکر کہ وزیرخزانہ کے مطابق وزیراعظم ہائوس کے اصل اخراجات تو 64 کروڑ 53 لاکھ کے ہوں گے، وزیراعظم کے بیرون ملک دوروں پر 63 کروڑ49 روپے خرچ ہونے کا امکان بلکہ اندیشہ ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، نوازشریف کے دور میں چار سال میں موصوف کے غیر ملکی دوروں پر 65 کروڑ روپے کے اخراجات ہوئے تھے۔ موصوف کو بھی باہر دور کرنے کا بہت شوق تھا۔ ہر بار پی آئی اے کے طیارے میں متعدد افسروں، ان کی بیگمات اور بچوں کے علاوہ چار خاص صحافیوں کا جانا ضروری ہوتا تھا۔ ایک بار واشنگٹن میں کسی بین الاقوامی کانفرنس میں جانا تھا، اسی طرح طیارہ بھر کر ساتھ لے گئے، واشنگٹن کے اعلیٰ ترین ہوٹل میں قیام کیا۔ تقریباً 80 افراد تھے۔ اِسی ہوٹل میں بھارت کا وزیراعظم مودی صرف 10 افراد کے ساتھ آیا۔ یہ سب اعلیٰ درجے کے اقتصادی ماہرین و انجینئر وغیرہ تھے۔ یہ لوگ ہوٹل کے عام کمروں میں ٹھہرے، بھارت کے ایک عام مسافر طیارے میں آئے، اسی طرح واپس چلے گئے!! یہ محض ایک واقعہ کی مثال ہے۔ نوازشریف کے شاہانہ اطوار کی ایک اور مثال، ایک بار کسی بیماری کے علاج کے لئے دو ماہ لندن میں مقیم رہے، وہیں پر پاکستان سے کابینہ اور وزارتی افسروں کو سرکاری خرچ پر بلا لیتے تھے۔ ویسے آصف زرداری کا بھی یہی عالم تھا۔ ہر بیرونی دورہ دبئی سے شروع ہوتا تھا۔ ان کا دبئی میں بہت بڑا فارم ہائوس اور چار 18,18 منزلوں والے ذاتی پلازے ہیں۔ (سالانہ 13 ارب روپے کرایہ) ایک بار ذاتی معاملات الجھ گئے تو بطور صدر دبئی کے ایک مشہور ہسپتال کا سرکاری طور پر پورا فلور ریزروکرا لیا۔ کیا بیماری تھی؟ کیا علاج کرایا؟ کچھ پتہ نہ چل سکا۔ افسوس کالم ختم ہو رہا ہے چلیں یار زندہ محبت باقی!!