’’اللہ خیر تے بیڑے پار‘‘ دو ماہ میں انتخابات نہیں کرواسکتے، انتخابات تب ہوں گے جب میں کرائوں گا، معیشت سو ارب ڈالر تک پہنچائوں گا، جیل میں معیشت پر چودہ برس کتب کا مطالعہ کیا‘‘ یہ فرمانا ہے سابق صدر آصف علی زرداری کا، کیا کہنے زرداری کے، قوم کو ’’یقین کامل‘‘ ہے زرداری نے جو کہہ دیا سمجھو ہوگیا، ذرا تصور میں لائیے، اس دن کو جب پاکستان کی معیشت کو سابق صدر زرداری سو ارب ڈالر تک پہنچائیں گے۔ ’’ہم اپنی زندگی میں یہ منظر دیکھیں یا نہ دیکھیں…مگر کوئی تو دیکھے گا۔‘‘ اس منظر نامے کو دیکھنے سے پہلے میں ایک اور منظر نامہ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ سابق صدر آصف علی زرداری کے فرزند ارجمند بلاول زرداری گزشتہ دنوں ’’گریٹر کراچی واٹر سپلائی سکیم کے فور‘‘ کے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وزیراعظم شہباز شریف کی موجودگی میں یہ خطاب کرتے ہوئے سنے گئے کہ ’’ ملک کا وزیر خارجہ ہوں مگر میں خود بھی ٹینکر سے پانی خریدتا ہوں، کراچی کو شہباز سپیڈ کی ضرورت ہے، ہم چاہتے ہیں کہ وزیراعظم شہباز شریف اسی طرح کراچی آتے رہیں، ہمارے وزیراعظم میاں شہباز شریف ہیں، آپ ہی ملک کے مسائل حل کریں گے، وزیراعظم کی کارکردگی کی وجہ سے ایک سال میں زمین و آسمان کا فرق آچکا ہے، کراچی پر توجہ دیں تو آئی ایم ایف سے جان چھوٹ سکتی ہے‘‘ کراچی تین کروڑ عوام کا شہرہے ، وہاں اگر کراچی، سندھ کا ایک عشرے سے زائد عرصے سے حکمران اور ملک کا وزیر خارجہ بلاول زرداری ٹینکر سے پانی خریدتا ہے تو باقی کروڑوں شہریوں کا اس حوالے سے کیا حال ہوگا؟
کراچی میں صرف پانی کا ہی مسئلہ نہیں، بلکہ ’’بجلی‘‘ بھی یہاںکے باسیوں کے لئے بہت بڑا درد سر ہے، شدید گرمی کے موسم میں بھی تیرہ، چودہ گھنٹے غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ، بلاول زرداری نے جس صاف گوئی سے شہباز شریف کو شہباز ’’ شریف‘‘ کی جگہ شہباز ’’سپیڈ‘‘ قرار دے کر کراچی کے مسائل ان کے سامنے رکھے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ شہباز شریف کی تیز رفتاری سے منصوبہ جات مکمل کروانے کی صلاحیتوں سے وہ نہ صرف پوری طرح باخبر بلکہ متاثر بھی ہیں۔ سچی بات ہے کہ کراچی میں بسنے والے عام آدمی ہر قسم کی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھ کر یہ بات کرنے پر مجبور ہے کہ شہباز شریف کو اگر کراچی اور سندھ 5سال کے لئے دے دئیے جائیں، تو ترقیاتی منصوبوں کے ذریعے یہاں کا نقشہ ہی تبدیل کر دے گا، آج جتنے بے بس، بس کس کراچی والے ہیں، شائد ہی کوئی دوسرا ہو، آصف زرداری اور بلاول زرداری کی حکمرانی والا کراچی اور سندھ آج صرف پینے ہی نہیں بلکہ انسانوں کے نہانے کے پانی کی بھی بوند بوند کو ترس رہا ہے، بلاول زرداری کی حکمرانی والا کراچی بجلی کی غیر اعلانیہ کئی کئی گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے جب کروڑوں بچوں، بوڑھوں، جوانوں، عورتوں اور مردوں کو تڑپاتا ہے تو اہل آسمان وہ مناظر دیکھ کر دل تھام کر رہ جاتے ہوں گے- بلاول زرداری تو آکسفورڈ کے پڑھے ہوئے ہیں، جوان ہیں، ترقیاتی کام کروانے میں تیز رفتار تو انہیں ہونا چاہیے تھا، وہ کراچی اور سندھ میں اتنی تیز رفتاری سے ترقیاتی منصوبہ جات مکمل کرواتے، کراچی میں پانی کے مسئلے کو حل کرواتے، موہنجوڈرو مارکہ کراچی کی سڑکیں نئی تعمیر کرواتے، یہاں کے عوام کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کو حل کروانے کی کوشش کرتے تاکہ کراچی والے شہباز شریف کی تیز رفتاری کو بھول کر ’’بلاول سپیڈ‘‘ کا نعرہ بلند کرنے پر مجبور ہو جاتے۔ مگر مراد علی شاہ حکومت کی ترقیاتی کاموں میں اس قدر تیز رفتاری کہ ’’کچھوے‘‘ کی سپیڈ بھی جسے کراس کر جائے، کاش کہ بلاول زرداری شہباز شریف کو یہ بھی بتا دیتے کہ وہ پانی کا ٹینکر کتنے روپے میں خریدتے ہیں اور ایک ماہ میں کتنے ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں تو بہتوں کا بھلا ہو جاتا، ذرا سوچیے جس آدمی کی ماہانہ تنخواہ صرف 30ہزار روپے ہو، جس میں سے اس نے مکان کا کرایہ، بجلی، گیس کے بلات اور مہینے میں دو، تین پانی کے ٹینکر بھی ڈلوانے ہوں تو وہ اپنے بیوی بچوں کو کھلائے گا کیا؟ بھٹو کے مزار کی مٹی؟ ایسے تو عوام نے یہ نعرے نہیں بنائے کہ ’’لاڑکانہ سے کراچی تک غریب مر گئے، لیکن بھٹو زندہ ہے، کراچی سے کشمور تک غریبوں کا ستیاناس کرکے بھٹو زندہ ہے، تباہ حال سڑکوں، برباد پارکوں اندرون سندھ سکولوں میں بندھے ہوئے گھوڑوں اور گدھوں کو دیکھ کر بھی بھٹو زندہ ہے، میرا ان نعروں سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے لیکن جب یہ خاکسار سابق صدر زرداری اور بلاول کی حکمرانی کے شکنجے میں ایک عشرے سے زائد عرصے سے پھنسے ہوئے کراچی، سندھ کے عوام کی تباہ ترین حالت زار کو دیکھتا ہے تو پھر دل بے اختیار زرداری کے اس دعوے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ ’’وہ واقعی معیشت کو سو ارب ڈالر تک پہنچانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔‘‘