اہم خبریں

تخصصات کا تعارف و پس منظر اور دعوت و ارشاد کے دائرے

(گزشتہ سے پیوستہ) میں ان کی محنت کی ایک مثال عرض کرتا ہوں۔ سوڈان افریقہ میں رقبے کے اعتبار سے سب سے بڑا ملک ہے۔ جنوبی سوڈان بت پرستوں کا علاقہ تھا۔ آج سے پون صدی پہلے عیسائی مشنریوں نے جنوبی سوڈان کو اپنی تبلیغی سرگرمیوں کا مرکز بنایا۔ وہ ان بت پرستوں کو چالیس پچاس سال میں عیسائی بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ علاقے کی ایک بڑی تعداد عیسائی ہو گئی ہے تو بین الاقوامی ماحول کے مطابق اقوام متحدہ میں گئے، ریفرنڈم کروایا اور جنوبی سوڈان کو الگ کروا لیا۔ جنوبی سوڈان اس بنیاد پر شمالی سوڈان سے الگ ہوا ہے کہ یہ آبادی علیحدگی چاہتی ہے کیونکہ وہ عیسائی ہیں۔ سوڈان کی تقسیم ہمارے سامنے ہوئی ہے۔ جنوبی سوڈان میں پادریوں نے کیسے تبلیغ کی؟ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ انہوں نے کتنی قربانیاں دی ہیں۔ یورپ، فرانس اور جرمنی کے پادریوں نے اپنے دین کے پھیلاؤ کے لیے وہاں سالہا سال سال محنت کی اور بالآخر جنوبی سوڈان کو سوڈان سے الگ کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ میں نے ایک مثال دی ہے۔

اس کی دوسری مثال انڈونیشیا کا جزیرہ تیمور ہے۔ اس کے ایک حصے کو بھی عیسائیوں نے ہدف بنایا، وہاں محنت کر کے عیسائی اکثریت پیدا کی، اور پھر ریفرنڈم کروا کے مشرقی تیمور کو مغربی تیمور سے علیحدہ کروا لیا جو کہ عیسائی ریاست ہے۔ یہ ہمارے سامنے کے حقائق ہیں پرانی باتیں نہیں ہیں۔ پاکستان میں بھی جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کی طرز کی عیسائی ریاست بنانے کا پروگرام آج سے تیس سال پہلے سامنے آیا تھا۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے، ہم نے بھی ماہنامہ الشریعہ میں اسے شائع کیا تھا۔ ۱۹۹۵ء کے لگ بھگ ایسی رپورٹیں آئیں کہ پاکستان کے ایک حصے کو عیسائی ریاست بنانا ہے۔ پلاننگ کے مطابق ۲۰۲۵ء ٹارگٹ تھا۔ اس ریاست کا دائرہ بھی انہوں نے متعین کیا تھا۔ خانیوال سے سیالکوٹ تک کا سرحدی علاقہ ان کا ہدف تھا۔ جس کا دارالحکومت گوجرانوالہ ہونا تھا۔ انہوں نے جو ٹارگٹ طے کیے تھے، ان میں ایک یہ تھا کہ اس خطے میں ملٹی نیشنل کمپنیاں آئیں گی، بگ فارمنگ کے نام سے یہاں کی زمینیں خریدیں گی کہ چھوٹے زمیندار مشینری استعمال نہیں کر سکتے، دو تین ہزار ایکڑ کا بڑا فارم ہو تو زراعت میں ترقی ہوگی۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں زمین خریدیں گی جیسے یہودیوں نے فلسطین میں خریدی تھیں۔ ان کا دوسرا ٹارگٹ یہ تھا کہ اس خطے میں دو سو خالص مسیحی کالونیاں بنائی جائیں گی جہاں پر صرف مسیحی رہیں گے۔ چنانچہ اس کے مطابق کام شروع ہوا، مسیحی بستیاں بننی شروع ہوئیں۔ فرانسیس آباد، مریم آباد وغیرہ دو تین تو ہمارے گوجرانوالہ میں ہیں۔ کالونیاں بننا بھی شروع ہوگئیں اور زمینوں کے خریداری بھی شروع ہو گئی۔ رائیونڈ کے علاقے کی زمینوں کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی تھی۔ ایک دفعہ میرے پاس ایک شاگرد آیا اور کہنے لگا کہ استاذ جی ہماری لاٹری نکل آئی ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہوا تو اس نے بتایا کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں آئی ہیں وہ زمین کی کئی گنا قیمت دے رہے ہیں۔ میں نے کہا بیڑا غرق ہونا شروع ہو گیا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو منظور نہیں تھا۔ زمینوں کا نظم چلانے والے ریونیو بورڈ کا ایک ممبر سپریم کورٹ میں چلا گیا اور درخواست دائر کی کہ ملک کی زمین غیر ملکیوں پر بیچنا ملک کے مفاد کے خلاف ہے۔ سپریم کورٹ نے سٹے لیا جس کی بنیاد پر آج تک رکاوٹ موجود ہے ۔ سپریم کورٹ کے بعض سٹے ایسے ہیں جن پر ہمیں بہت غصہ آتا ہے لیکن بعض سٹے ہمارے فائدے کے بھی ہیں۔ کام کرنے والے کام کرتے ہیں، ہماری طرح نہیں کرتے کہ نعرے لگائے اور گھر میں جا کر سو گئے۔ جب سپریم کورٹ نے سٹے دیا تو نئی سمری آئی کہ زمینیں نہ بیچو بلکہ سو سال کے لیے ٹھیکے پر دے دو۔ یعنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو مالک نہ بناؤ لیکن لمبے عرصے کے لیے ان کو ٹھیکے پر زمینیں دے دو۔ لیکن اس میں عملی طور پر کیا فرق ہے؟ اس کی سمری بھی میز پر پڑی ہوئی ہے، ان شاء اللہ کوئی اچھا نتیجہ ہی سامنے آئے گا۔ تیسرا دائرہ یہ ہے کہ آج کے دور میں دعوت و ارشاد کے تقاضے کیا ہیں؟ آج آپ کس زبان، کس اسلوب اور کس دائرے میں بات کریں گے؟ آج کی نفسیات کیا ہیں؟ آج کی ذہنی سطح کیا ہے؟ آج کی دنیا کو سمجھانے کے ہتھیار کیا ہیں؟ یہ کام ہمارے کرنے کا ہے اور ہم نہیں کر رہے، اب آہستہ آہستہ آہستہ احساس شروع ہوا ہے۔ ایک زمانہ مشاہدات کا تھا، پھر معقولات اور فلسفے کا زمانہ تھا۔ اب سائنس اور سماجیات کا زمانہ ہے۔ آج کی دنیا میں جب تک آپ لوگوں کے سماجی نفع کی بات نہیں کریں گے کوئی آپ کی بات نہیں سنے گا۔ میں ایک اور دائرہ عرض کر دیتا ہوں۔ آج ہم سمجھتے ہیں کہ فلاں کام بھی ہونا چاہیے، فلاں کام بھی ہونا چاہیے، اور پھر ہم سب کام کرنے لگ پڑتے ہیں۔ میں علماء کرام سے عرض کیا کرتا ہوں کہ ایک دائرہ یہ ہے کہ فلاں کام ہونا چاہیے، ٹھیک ہے اس کی ضرورت ہو گی، لیکن ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اس میں سے کتنا کام ہو سکتا ہے؟ ہمارا دھیان ’’ہونا چاہیے‘‘ پر ہوتا ہے، اس پر نہیں ہوتا کہ ’’کتنا ہو سکتا ہے‘‘۔ سو فیصد کے چکر میں ہم اس ستر فیصد سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں جو کہ ہو سکتا ہے۔ پھر اس سے اگلا مرحلہ یہ دیکھنے کا ہے میں خود اس میں سے کتنا کام کر سکتا ہوں۔ اگر ہم کچھ منصوبہ بندی کر لیں کہ ایک کام کتنا ہو سکتا ہے اور میں اس میں کتنا حصہ ڈال سکتا ہوں، تو کام بہتر انداز سے ہو سکتا ہے۔

متعلقہ خبریں