اہم خبریں

نئی مدبرین حکومت لائیں

ماشاء اللہ تیسری مرتبہ طیب اردوان ترکیہ کے صدر منتخب ہوچکے ہیں۔ گزشتہ کالم شائع شدہ 27 مئی میں ویدک نجوم سے بھی زیادہ میں نے اپنے تجزیئے اور روحانی وجدان میزان پر انحصار کرکے کالم لکھا تھا حالانکہ مغربی نجوم سے وابستہ زیادہ تر اذہان کا کہنا تھا کہ طیب اردوان کے حق میں نجوم کیفیات کم ہیں‘ کمال اوغلو کے حق میں زیادہ ہیں۔ مگر میں نے اس طرف توجہ نہیں دی کیونکہ میں ’’دعاء‘‘ کی اہمیت اور حیثیت کا معترف ہوں۔ صدقہ و خیرات اور دعاء کا اشتراک تقدیر معلق کو تدبیر مناسب کے ذریعے تبدیل کرتے ہیں ہاں تقدیر ’’مبرم‘‘ کا معاملہ اٹل ہوتا ہے۔ راھو اور جیوپیٹر (مشتری) کا تصادم2019 ء سے جاری ہے اور عمران خان کی حکومت کو جو مسائل درپیش تھے اس کا ایک سبب راھو اور جیوپیٹر میں مقابلہ بازی بھی تھے جبکہ ویدک نجوم ماہرین کے مطابق اگرچہ ’’قیرِان‘‘ ہوکر راھو اور جیومیٹر (مشتری) اپنا27 مئی کو حتمی اثر ظاہر کررہے ہیں اگر چہ منفی اثرات 16 جون تک رہیں گے البتہ سیانے روحانی وجدانی کے مطالعہ ویدک نجوم پر انحصار کیا تھا کہ جب تصادم‘ کشمکش‘ دونوں راھو (نحس) اور جیو پیٹر (مشتری) ’’سعد سیارگان‘‘ کرچکے تو اب راھو کی پسپائی کا عمل27 مئی کو شروع ہوا اور جیو پیٹر کی پیش رفت کا وقت اور عمل28 مئی کی صبح شروع ہوا لہٰذا جو ماضی میں راھوکا نشانہ تھے اب وہ جیو پیٹر کی قوت آمیزی سے فتح یاب ہوں گے۔ الحمد للہ صدر طیب اردوان تیسری مرتبہ ترکیہ کے صدر بن چکے ہیں اور اگلے پانچ سال تک بفضل خدا اور بشرط زندگی وہ ترکیہ کی نہ صرف خدمت کریں گے بلکہ مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو مجتمع‘ اکٹھا کرنے کا کردار بھی بنیں گے۔ ویسے تو سیارگان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے لئے ابھی بہت مد ت تک مشکلا ت رہیں گی۔ ممکن ہے2025 ء میں اس میں کمی شروع ہو اور 2027 ء میں یہ آلام و مشکلات نئے عہد ’’سعادت‘‘ کا روپ دھار سکیں گے۔ یہ مطالعہ مغربی نجوم اور ویدک مشرقی نجوم دونوں کا ہے‘2027 ء ہی میں دو قومی نظریئے پر مبنی ریاست‘ جغرافیئے کاعروج شروع ہوگا میری مراد پاکستان ہے انشاء اللہ یہ روحانی وجدان کا مطالعہ ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ فی الحال پاکستان کو1970-71 ء کے حالات کا سامنا ہے۔

اب آئیے ہمارے اپنے اندرونی حالات اور معاملات کی طرف۔ عمران خان کے ساتھ جو کچھ ہوچکا ہے اور تحریک انصاف کا جو حشر نشر ہوچکا ہے و ہ فطری معاملہ ہے۔ گزشتہ ایک کالم میں‘ میں نے عباسی عہد میں ظہور میں آنے والے ’’قرامطہ‘‘ کا ذکر کیا تھا جو ریاست اور عباسی بادشاہت پر بھی بہت زیادہ حاوی ہوگئے تھے۔ لہٰذا جنہوں نے 2018 ء کے انتخابات سے پہلے ق لیگ اور ن لیگ سے بندے یعنی ’’الیٹکاایبلز‘‘ کو توڑ کر تحریک انصاف میں شامل کیے تھے اور جہانگیر ترین کا مال و دولت اور جہاز استعمال ہوا تھا۔ انہی نے عمران خان اور تحریک انصاف کا انہدام کروا دیاہے ۔ جس جنرل باجوہ نے یہ چراغ جلایا تھا اسی جنرل باجوہ نے اے گل کر دیا ہے‘ یہ وہ کہانی ہے جو قرامطہ کا نام تاریخ میں باقی ہے۔ یاد رہے جہانگیر ترین آج کل نئی پارٹی بنانے جارہے ہیں اور شنید ہے کہ وہ مسلم لیگ (جناح) نام رکھنے پر غور کررہے ہیں۔ میرے مطالعہ کے مطابق وہ عقرب (سکارپیو) ہیں اور عدد ان کا 3 بنتا ہے۔ میں ان کی زیرسرپرستی مسلم (جناح) بنانے کے تصور پر کھکھلا کر ہنس رہا ہوں کہ کس قدر یہ مذاق ہوگا ۔ جناح صاحب کی سوچ‘ فکر‘ روایات و اقدار پر اور وہ کیا کاشت کرسکیں گے‘3 عدد کے سبب؟ جبکہ عمران خان کالکی عدد تو7 ہے اور پاکستان کا عدد بھی7 ہے جبکہ مستقبل بعید میں جیوپیٹر اور دیگر سیارگان نے نومبر کے بعد عمران خان کو کافی زیادہ مدد فراہم کرنی ہے یہ سب مستقبل ہے فی الحال تو عمرن خان زیرو ہوچکے ہیں۔ ان کی افتاد طبع نہ سیاست دان کی رہی ہے نہ ہی وہ مدبر و صاحب فراست و بصیرت ثابت ہوئے ہیں البتہ ان کی قسمت (لک) بہت یاوری کرتی ہے فی الحال اتنا ہی کافی ہے ویسے وہ مستقبل بعید میں نازل شدہ آفات سے نکل آئیں گے بشرط زندگی۔ میرا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ فوج‘ اسٹیبلشمنٹ تکوینی طور پر پاکستان کی جملہ سیاسی فیصلہ سازی میں دخیل ہے۔ کبھی پس منظر میں رہ کر اور کبھی خود اقتدار میں آکر‘ مارشل لاء لگاکر ‘ جنرل باجوہ نے جو کچھ نواز شریف کے ساتھ کیا اور عمران کو اقتدار دلوایا تھا یہ فوج کی طاقت کا حل استعمال تھا۔ میرے حساب میں یہ صورتحال موجود رہے گی۔ اس لئے میں نے کبھی فوج‘ عسکری‘ اجتماعی قیادت کے خلاف نہ سوچا‘ نہ لکھا بلکہ اس کی مسلمہ حیثیت کو قبول کرنے کی تلقین لکھی ہے۔ جنرل عاصم منیر کے مقدر میں آرمی چیف بننا بہت پرآشوب عہد میں لکھا تھا وہ پرآشوب عہد میں وہی کچھ کررہے ہیں جو کچھ فوج کی قوت کا تقاضا ہوتا ہے۔ عمران خان اور عاصم منیر میں‘ افتاد طبع میں شدید تصادم‘ کشمکش‘ اختلاف ہے۔ میں کھل کر لکھ چکا ہوں کہ عمران خان کی عوام میں پذیرائی کا سبب اول عوام میں شریف خاندان پارٹی‘ زرداری پی پی پی‘ مولانا فضل الرحمن کی خاندانی پارٹی سے نفرت کا اظہار ہے۔ مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ ایک نئی مدبرین‘ مخلصین‘ حسن نیت‘ کی ایسی حکومت مختلف کابینہ کے ساتھ بنانا ہوگی جو مکمل طور پر ریاست کو اولیت دے‘ اور ان کے ذاتی اقتدار اور سیاسی مقاصد بھی نہ ہو۔ یہ کام جتنا جلدی ہوگا اتنا ہی بہتر ہوگا۔ بے شک انتخابات مزید موخر ہو جائیں۔

متعلقہ خبریں